عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت محدود

تلنگانہ / اے پی ڈائیری خیراللہ بیگ
تلنگانہ کے قیام کے بعد یہاں کے رہنمائوں پر اعتماد کے فقدان کا تذکرہ عوامی، سیاسی اور مقننہ سطح پر ہونے لگا ہے۔ اس اعتماد کے فقدان میں حالیہ دنوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ نئی ریاست کی اسمبلی میں ہونے والے مباحث اور مسائل پر ارکان کی رائے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو بعض امور کی یکسوئی میں دلچسپی نہیں ہے۔ بظاہر حکومت نے عوام سے مسائل پر توجہ دینے کا مظاہرہ کیا ہے ریاست میں ایک اہم مسئلہ اراضیات پر ناجائزہ قبضوں کی برخاستگی کا ہے۔ ان ناجائز قبضوں کا شکار اوقافی جائیدادیں برسوں سے ہورہی ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو نے ریاست کی دیگر سرکاری اراضیات کے بشمول اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا بیڑہ تو اٹھایا ہے مگر وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوں گے یہ ان کی کارکردگی اور دلچسپی پر منحصر ہے۔ انہوں نے غیر مجاز قبضوں کی تحقیقات کے لئے ہائوز کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ماضی میں بھی کئی معاملوں پر تحقیقات کے لئے تشکیل دی گئی ہائوز کمیٹیوں اور ان کی رپورٹس پر حکمراں گروپ نے کتنی کارروائی کی اور کہاں تک کامیابی حاصل کی یہ سرکاری ریکارڈ میں موجود ہے۔ اراضیات پر غیر مجاز قبضوں کو برخاست کرنے کے لئے ہائوز کمیٹی کو ریاست کے تمام 10 اضلاع میں مختلف اراضیات کی صورتحال کا جائزہ لینا ہے۔ آئندہ بجٹ اجلاس سے قبل حکومت کو جب رپورٹ پیش کی جائے گی تو کئی انکشافات کی توقع ہے۔ فی الحال حکومت نے دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سابق ریاستی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور موجودہ صدر تلنگانہ پردیش کانگریس پونالا لکشمیا کے زیر قبضہ 8 ایکڑ اراضی کو واپس حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس طرح تلنگانہ کے اضلاع میں اوقافی جائیدادوں کی تباہی کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ محسن کارروائی ہوگی۔

شہر حیدرآباد میں اوقافی جائیدادیں ناجائز قابضین سے پاک بنائی جاتی ہیں تو مسلمانوں کو ترقی دینے کے لئے اقدامات و پالیسیاں بنانے میں حکومت کو کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔ اب تک جن شہریوں نے سرکاری کام کاج اور اس کی رپورٹس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا ،اب چیف منسٹر کے سی آر اس اعتماد کو بحال کرتے ہیں تو بلاشبہ ان پر عوام کا اعتماد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا۔ ریاستی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنے کے بجائے چیف منسٹر کو ماضی کے نظم و نسق کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے تیزتر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اپوزیشن نے ان کی خامیوں پر کڑی نظر رکھی ہے۔ خاص کر تلنگانہ کے حصول کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دینے والوں کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی خاص اقدامات نہ کئے جانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ تلنگانہ کے شہیدوں کے ارکان خاندان کے لئے بہبودی اسکیمات شروع کرنے میں حکومت کے نیم دلانہ رویہ پر احتجاج کیا جارہا ہے۔ پارٹی خطوط سے بالاتر ہوکر تمام اپوزیشن ارکان نے حکومت کی توجہ اس موضوع کی جانب مبذول کرائی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ 1969 ء میں پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے والے تلنگانہ شہیدوں کے بشمول تمام تلنگانہ شہیدوں کو مجاہدین آزادی کا موقف دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مطالبہ پورا ہوسکے گا کیوں کہ کے سی آر نے شہیدوں کے ارکان خاندان میں سے ایک فرد کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا جو ہنوز زیر غور ہی ہے۔ اس نئی ریاست کی نئی حکومت کے لئے اپنے تمام انتخابی وعدوں کو پورا کرنا مشکل ہے کیوں کہ ریاستی بجٹ اور مالیہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ فلاحی اقدامات کرے۔ تاہم چیف منسٹر کے سی آر نے حصول تلنگانہ کے ساتھ اقتدار کے خواب کو پورا کرنے کے لئے بہت زیادہ وعدے کرکے عوام میں امیدیں پیدا کی تھیں۔ اب عوام کو محسوس ہورہا ہے کہ انہیں نئی ریاست تلنگانہ میں بھی ایسی ہی سیاسی چالبازیوں کا شکار ہونا پڑرہا ہے، جو برسوں سے ہوتا آرہا ہے۔ تلنگانہ ریاست کے بجٹ کا جائزہ لینے والوں نے اندازہ کرلیا ہے کہ سرکاری مصارف اور مالیہ کے حصول کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ حکومت نے نیا ٹیکس عائد نہیں کرکے سرکاری خزانہ میں رقومات جمع ہونے کی رفتار کو کم کردیا تو اب اسے احساس ہونے لگا کہ ٹیکسوں میں اضافہ کے بغیر وہ عوامی فلاحی کام انجام نہیں دے سکے گی۔

اب درمیان میں وہ دھیرے دھیرے ہر چیز پر ٹیکس نافذ کرنے کا ارادہ کررہی ہے۔ حکومت کے پاس ٹیکس میں اضافہ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ کیوں کہ مرکز نے بھی نئی ریاست کے لئے مالیاتی پیاکیج دینے میں سردمہری کا مظاہر کیا ہے۔ ایسے میں ریاستی حکومت کو وسائل متحرک کرنے کے لئے متبادل اقدامات کرنے ہوں گے اور یہ متبادل اقدام عوام کی جیب کاٹنے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ جب ٹیکسوں کے نام پر عوام کی جیب ہلکی کی جائے تو عوامی ناراضگی مول لینی پڑے گی۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو نے اس ماہ کے اوائل میں ہی مرکزی وزیر فینانس ارون جیٹلی کو مکتوب لکھ کر نئی ریاست تلنگانہ کے لئے مالیاتی ذمہ داریاں اور بجٹ انتظامات کے قواعد میں نرمی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ کھلے مارکٹ کی واجب الادا رقومات کے ذریعہ 17,774.30 کروڑ روپئے حاصل کرنے کی اجازت دینے پر زور دیا گیا تھا لیکن مرکز نے اس مکتوب کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس طرح حکومت کو مرکز کے جواب کا انتظار ہی رہے گا۔ آئندہ چار ماہ تک رقومات کو احتیاط کے ساتھ خرچ کرنا پڑے تو عوامی اسکیمات پر عمل آوری غیر یقینی ہوگی۔ تلنگانہ حکومت کے پاس رقومات اکٹھا کرنے کے لئے معاشی ترقی پر توجہ دینے کی ایک راہ موجود ہے۔ اگر حکومت نے حیدرآباد کے وسائل کو دیانتداری سے متحرک کیا تو اس کی مالی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ کے سی آر کو اپنی ریاست کی ترقی کا دیگر ریاستوں کی ترقی سے تقابل کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ازخود ریاست کی ترقی کو یقینی بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔ تلنگانہ حاصل کرنے سے پہلے تک کے چندر شیکھر رائو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ تلنگانہ میں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر آندھراپردیش کو تقسیم کردیا جائے تو تلنگانہ کے وسائل سے یہاں کے عوام کو ترقی دینے میں آسانی ہوگی۔ ہر چیز قابل حصول بن جائے گی۔ کیوں کہ آندھرائی قیادت نے تلنگانہ والوں کے حقوق سلب کرلئے ہیں اور تلنگانہ عوام کے وسائل خود ہڑپ رہے ہیں۔ اب انہیں ریاست مل گئی ہے اور اقتدار کے مزے بھی لے رہے ہیں تو شکایات کا انبار برقرار کیوں ہے؟

گزشتہ تین چار ماہ سے ان شکایات کے درمیان حکمران طبقے کی ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی اور کشاکش کی سیاست کے درمیان آندھراپردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو نے مرکز سے اپنی قربت کا فائدہ اٹھالیا ہے۔ ان کی ایک معتدل سوچ اور اپروچ چیف منسٹر کی حیثیت سے تاثر نمایاںہورہا ہے۔ انہیں اپنے علاقہ کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ انہوں نے بھی اپنے عوام کو ریاست کے نئے صدر مقام کی تعمیر کے لئے میٹھے خواب دیئے ہیں جبکہ آندھرا میں اراضی کی سرکاری قیمتوں کو اونچے دام کرکے کسانوں کو بے زمین کردیا جارہا ہے۔ جب زمین ہی نہیں ہوگی تو اناج کی پیداوار کم ہوگی اس کے بعد مہنگائی کے لئے کون ذمہ دار ہوگا۔ چاول کی پیداوار میں سرفہرست سمجھے جانے والی ریاست کی زرعی اراضی دن بدن سکڑ رہی ہے تو آے چل کر اناج کی قلت کے مسائل پیدا ہوں گے۔ چندرا بابو نائیڈو کی سیاسی حکمت عملی سے اختلاف کرنے والوں نے درست کہا ہے کہ نائیڈو بھی اپنے علاقے کو لوٹ رہے ہیں۔ ریئل اسٹیٹ کے ذریعہ ایک خطیر رقم حاصل کرکے عوام کو کنگال بنایا جارہا ہے۔ ہوشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ عوام کو اپنی بھلائی کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہمارے بھولے بھالے عوام سے سیاسی جماعتیں صرف وہ وعدہ کرتی ہیں جن کے پورا نہ کرنے پر سینکڑوں جواز پیش کرسکیں۔ جو مسائل ہم کو درپیش ہیں، یوں ہی برقرار رہیں گے۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کو حسین ساگر کے اطراف بلند وبالا عمارتیں بنانے کا شوق ہے تو چندرا بابو نائیڈو کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانے کے لئے زرعی اراضیات اجاڑنے کی دھن سوار ہے۔
kbaig92@gmail.com