عمر عبداللہ کی گورنر سے ملاقات، ریاست میں گورنر راج کے نفاذ کی وکالت

سری نگر۔ 19 جون ۔( سیاست ڈاٹ کام ) نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو ریاست میں نئی حکومت بنانے کیلئے حمایت نہیں کریگی۔ انہوں نے کہا کہ ’’نہ کسی نے ہم سے رابطہ کیا ہے اور نہ ہم کسی کو یہاں سے اپروچ کرنے جارہے ہیں‘‘۔ عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار آج یہاں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ریاستی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کے اراکین کی تعداد 15 ہے ۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ انہوں نے ریاستی گورنر این این ووہرا سے ملاقات کرکے ان سے کہا ہے کہ ریاست میں گورنر راج نافذ کیا جائے اور حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ انہوں نے کہامیں نے گورنر صاحب سے کہا کہ ریاست میں زیادہ وقت تک گورنر راج نافذ نہیں رہنا چاہیے اور حالات کو جلد از جلد درست کرکے اسمبلی انتخابات کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔نیشنل کانفرنس نائب صدر نے کہا کہ اچانک دوپہر ڈھائی بجے یہ خبر آئی کہ بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ اپنا سیاسی رشتہ توڑ دیا ہے ۔ اور موجودہ حکومت کی اب اکثریت نہیں رہی۔ اس کے بعد سے پریس کے ساتھی ہم سے لگاتار پوچھ رہے تھے کہ نیشنل کانفرنس کا اس کے بعد کیا رول رہے گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں ابھی ابھی راج بھون سے واپس آیا ہوں۔ میں نے وہاں گورنر صاحب سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گورنر صاحب کو وہی کہا جو میں اب آپ کے سامنے دہراؤں گا۔نیشنل کانفرنس کو 2014 میں حکومت بنانے کا منڈیٹ حاصل نہیں ہوا۔ اگر 2014 میں ہمیں حکومت بنانے کا منڈیٹ نہیں ملا تو آج 2018 میں بھی ہمارے پاس حکومت بنانے کا منڈیٹ نہیں ہے ۔ ہم کسی اور سیاسی تنظیم کے ساتھ ریاست میں حکومت بنانے کی بات چیت نہیں کررہے ہیں ۔ نہ کسی نے ہمیں اپروچ کیا ہے اور نہ ہم کسی کو یہاں سے اپروچ کرنے جارہے ہیں۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ میں نے گورنر سے کہا کہ ریاست میں گورنر راج نافذ کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گورنر صاحب سے کہا ہے کہ ان حالات میں جب کہ کسی پارٹی کے پاس حکومت بنانے کا منڈیٹ نہیں ہے ، تو پھر گورنر صاحب کے پاس کوئی آپشن نہیں بچے گا، ماسوائے اس کے کہ انہیں گورنر راج نافذ کرنا پڑے گا۔ اور کوشش کرنی ہوگی کہ ریاست کے جو خراب حالات ہیں، ان کو آہستہ آہستہ درست کیا جائے۔نیشنل کانفرنس نائب صدر نے کہا کہ میں نے گورنر سے یہ بھی کہا کہ ریاست میں گورنر راج زیادہ وقت تک نافذ نہیں رہنا چاہیے ۔ ان کا کہنا تھاکہ میں نے گورنر صاحب کو اپنی پارٹی کی طرف سے پورا یقین دلایا ہے کہ ہم انہیں مکمل تعاون دیں گے ۔ ان کی حمایت کریں گے ۔ ہم نے یہ بھی گزارش کی کہ زیادہ دیر تک گورنر راج نافذ نہیں رہنا چاہیے ۔ آخر کار لوگوں کو حق ہے کہ وہ اپنی حکومت چنیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ گورنر صاحب اور ان کے ساتھی کوشش کریں کہ جموں وکشمیر حالات جلد از جلد سازگار بنیں۔ نئے سرے سے انتخابات ہوں۔ اس کے بعد لوگوں کا جو فیصلہ ہوگا، وہ ہمیں قبول ہوگا۔ یہی گورنر صاحب سے میری بات چیت ہوئی۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ایک ذمہ دار سیاسی جماعت کی حیثیت سے نیشنل کانفرنس کا کام ہوگا کہ کشمیر اور جموں میں حالات کو ٹھیک کیا جائے ۔ انہوں نے میں بی جے پی کے فیصلے سے حیران نہیں ہوں مگر اس فیصلے کے ’وقت‘سے حیران ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس اتحاد کے اتنا جلد ٹوٹنے کی توقع نہیں تھی۔عمر عبداللہ نے کہا کہ دونوں جماعتوں نے اقتدار کے لالچ میں تین سال نکالے ۔ اگر انہیں اقتدار اتنا پیارا نہیں ہوتا تو محبوبہ مفتی کب کی استعفیٰ دے چکی ہوتی۔ محبوبہ مفتی کی کرسی تلے سے قالین اچانک کھینچ لی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم جموں وکشمیر میں جمہوریت کی موت ہوجانے کا غم منارہے ہیں۔ ہم اس پر خوش نہیں ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ ان کی جماعت نے ایک وقت پی ڈی پی کو حکومت بنانے کی آفر پیش کی تھی، تو ان کا اس پر کہنا تھا کہ وہ ون ٹائم آفر تھا۔ وہ آفر اسی دن ختم ہوگئی جس دن بی جے پی اور پی ڈی پی نے ہاتھ ملایا۔ ان کو میرے ساتھ کی ضرورت نہیں ہے ۔ عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ جموں وکشمیر میں حالات کی خرابی کے لئے دونوں جماعتیں ذمہ دار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے ۔ وہ ریڈ کلائزیشن میں اضافے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ میں اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اگر بی جے پی کہتی ہے کہ ریاست کی صورتحال خراب ہوگئی ہے تو اس کے لئے وہ بھی ذمہ دار ہے ۔ پی ڈی پی اکیلے اس کے لئے ذمہ دار نہیں ہے۔