عمرو بن حسین بازہر اطہر

ہر دور اور ہر عہد میں نعت گوئی ہوتی رہی عموماً اردو کے ہر شاعر نے اس صنف پر طبع آزمائی کرتے ہوئے گل ہائے عقیدت کے نمونے پیش کئے ہیں ۔ نعت گوئی ہماری شاعری کی محبوب اور پاکیزہ صنف ہے چونکہ اس کار است تعلق حضور پاکؐؐ سے ہوتا ہے ۔ وہی اس صنف پر طبع آزمائی کرسکتا ہے جو سچا عاشق رسولؐ ہو ۔ اس صنف کے لئے حد ادب ، حضورؐ سے عقیدت و محبت ، ارادت اور عزت و احترام لازمی ہے ۔ جب تک ذہن و دل عشق رسول سے معمور ہو کر توحید رسالت اور معبودیت کے نہایت نازک رشتوں میں مکمل ہم آہنگی پیدا نہ کرے کوئی بھی نعت گو نعت گوئی کے منصب سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا اور ساتھ ہی ساتھ پاک جذبات ، سوز و گداز ، درد ، ذوق جمال اور بیان کی بلندی کا کمال بھی شامل ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن ان تمام میں ’’محمد سے محبت شرط اول ہے‘‘۔
مذکورہ شرائط کی بنیاد پر ہم تہنیت النساء تہنیت کی نعتوں کو پرکھتے ہیں تو وہ بالکل کھری ثابت ہوتی ہیں ۔ ان کا نعتیہ کلام حب رسولؐ سے معمور ہے ۔ وہ عشق رسولؐ میں سرشار نظر آتی ہیں اور صہبائے الفت کے جام پر جام نوش فرمانا چاہتی ہیں ۔
پیوں جام پر جام صہبائے الفت
نہ اترے گا سر سے خمار مدینہ
تہنیت النساء تہنیت نواب نصیر جنگ کی ہمشیرہ کی دختر نیک اختر تھیں اور ددھیال کی جانب سے آپ کی نسبت نواب رفعت یار جنگ اول سے ہے ۔ اسی طرح تہنیت النساء اعلی تعلیم یافتہ اور مہذب گھرانے میں پیدا ہوئیں پڑھنے لکھنے کا شوق ابتداء سے رہا اور جب ڈاکٹر زور کی نصف بہتر بنیں تو انھیں ذوق مطالعہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی ۔ چونکہ ڈاکٹر زور خود بھی تصنیف و تالیف کے رسیا تھے ۔ ڈاکٹر زور اور تہنیت النساء کا گھرانا شروع سے ہی مذہبی تھا ۔ دینی فرائض کی ادائیگی میں کبھی بھی کسی قسم کی چوک نہیں برتی جاتی تھی ۔ اس طرح تہنیت النساء تہنیت کی پرورش ، ادبی ، مذہبی اور دینی ماحول میں ہوئی ۔ اور اسی ماحول میں آپ نعت گوئی کی جانب مائل ہوئیں اور کم عرصے میں تین نعتیہ مجموعے ’’ذکر و فکر‘‘ ’’صبر و شکر‘‘ اور ’’تسلیم و رضا‘‘ منظر عام پر آئے اور ادبی حلقوں میں کافی مشہور و مقبول ہوئے ۔
تہنیت النساء تہنیت نے اپنی تمام نعتوں کو غزل کی ہئیت (Ghazal Formate) میں لکھا ہے ۔ اسی لئے ان کی نعتیں غنائیت سے بھرپور ہیں ۔ دوسری جانب ان کی نعتیں  ،نکہت فکر اور ندرت جمال کی غماز ہیں وہ حساس دل کے ساتھ روح کی بیداری کی شاعری کرتی ہیں ۔ ان کے کلام سے موزونیت اور مضمون آفرینی کے چشمے ابل پڑتے ہیں ۔ مجموعی طور پر کہا جائے تو وہ ایک قادر الکلام نعت گو شاعرہ کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہیں ۔ ان کی نعتوں کی خاص خوبی یہ بھی ہے کہ وہ خاص فضا میں ندرت خیال اور بیان کی شگفتگی کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں اور انکی نعتیں شعری پیکروں کی دلپذیری سے بھی معمور ہیں ۔
اے دل وہ بہاریں کیا ہوں گی وہ رنگ گلستاں کیا ہوگا
محبوب جہاں ہو جلوہ فگن اس بزم کا ساماں کیا ہوگا
رہیں محو حیرت تمام اہل محفل
جو ہو جلوہ آرا نگار مدینہ
نعت گوئی میں عشق رسول کو انفرادی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ نعت گو کو حضورؐ سے جس قدر والہانہ محبت ہوگی اور جس قدر وہ عشق رسول میں سرشار ہوگا اتنا ہی اسکا کلام پرکیف اور اثر انگیز ہوگا ۔ اور تہنیت کی نعتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضور پاکؐ سے انھیں قلبی تعلق تھا یہی وجہ ہے کہ ایک ایک شعر عشق نبیؐ سے سرشار ہے اور احترام و عقیدت سے معمور ہے ۔ انکی نعتوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ عشق نبیؐ میں فکر کی بلندیوں اور قلب کی پاکیزہ کیفیتوں میں مسرور و سرشار ہو کر نعتیں کہتی ہیں ۔ سچ ہے کہ نعت گوئی کی نعمت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی اس کے لئے حضور اکرمؐ دے دلی لگاؤ اور ذہنی وابستگی ہونا ضروری ہے اور ساتھ ہی ساتھ نعت گو پر اللہ تعالی کا کرم اور حضورؐ کی نظر عنایت کا ہونا بھی لازمی ہے تب کہیں جاکر نعت گوئی کی کوشش ثمر آور ہوسکتی ہے ۔ اور تہنیت النساء تہنیت بھی اپنی نعت گوئی کو حضور اکرمؐ کا کرم اور فیضان سمجھتی ہیں اور خود کو اس نعمت سے بہرہ ور ہونے پر خوش نصیب سمجھتی ہیں ۔
کہاں ہم اور کہاں یہ نعت گوئی
ملا ہے فیض شاید ان کے در سے
یہ ہم جو آپؐ کے مدحت طراز ہوتے ہیں
حضور آپؐ ہی ذرہ نواز ہوتے ہیں
ان کے مدحت سرا جو کہلائے
تہنیت! یہ نصیب کم کیا ہے
ہے ہم کو یقین تہنیت اس طرح نہ لکھتے
کچھ ان کی طرف سے اشارے نہیں ہوتے
حضور اکرمؐ کی ذات و صفات چار سو محیط ہے اور آپ کی ذات مبارک ، صفات ہمارے لئے نور علی نور کی حیثیت رکھتی ہے اور آپ کی عظمت ، برتری و بزرگی کی کوئی نظیر نہیں ۔ اللہ تعالی نے تمام انبیائے کرام ، تمام مخلوقات و موجودات ، ارض و سما اور تمام کائنات پر آپ کو بزرگی و برتری عطا کی ہے  ۔ میر حسن نے بھی حضور کی عظمت رسالت اور رتبہ کے متعلق کہا تھا
کروں اس کے رتبے کا کیا میں بیاں
کھڑے ہوں جہاں باندھے صف مرسلاں
محمد کے مانند جگ میں نہیں
ہوا ہے ایسا نہ ہوگا کہیں
میر حسن
اس ضمن میں تہنیت النساء تہنیت فرماتی ہیں کہ
ایک سے ایک ہیں جہاں میں حسیں
پر کوئی آپ سا نہیں ملتا
محمدؐ سا کوئی نہیں بحر و بر میں
خدا کی خدائی ہے ساری نظر میں
جو یہ کہتے ہیں کہ ہیں ہم بھی بشر وہ بھی بشر
کیا وہ کرسکتے ہیں ان سے ہمسری کردار میں
گزرے ہیں نبی اور ولی یوں تو ہزاروں
رتبہ مرے سرکار کا ان سب سے سوا ہے
تہنیت النساء تہنیت اپنی نعتوں میں دلی اظہار کرتی ہیں کہ مدفن کے لئے انھیں خاک طیبہ نصیب ہو ۔ چند اشعار اس ضمن میں ملاحظہ کیجئے:
یثرب میں اگر مل جائے زمین تھوڑی اسے مدفن کے لئے
پھر تہنیت خوش قسمت کا یاں اور کوئی ارماں کیا ہوگا
غرض تہنیت النساء تہنیت نے اپنے نعتیہ کلام میں نعت کے تمام موضوعات کو فنکارانہ انداز میں برتا ہے ۔ تقدس ، عقیدت اور پاکیزگی جو صنف نعت کے لئے ایک خاص فضا ہوتی ہے جس کے لئے عشق رسول کی بیکراں روشنی درکار ہوتی ہے جو نعت گوئی کے فن کو ارفع و اعلی بنادیتی ہے ۔ اور یہ تمام کیفیات تہنیت النساء تہنیت کے نعتوں میں حددرجہ کمال تک شامل ہیں ۔