ظفر آغا
سابق پاکستانی کرکٹر عمران خان آج کل عالمی خبروں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ خان صاحب جب تک کرکٹ کھیلتے رہے، اسپورٹس کے صفحات پر چھائے رہے۔ پھر کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوکر انگلستان کی خاتون جمیمہ سے شادی کرکے اخباروں کی زینت بن گئے، لیکن جب جمیمہ، خان صاحب کو چھوڑکر انگلستان واپس چلی گئی تو انھوں نے سیاسی کھیل شروع کردیا اور اس طرح ایک بار پھر وہ اخباروں کی زینت گئے۔ چنانچہ پچھلے برس پاکستان میں جو انتخابات ہوئے، عمران خان نے ایک سیاسی پارٹی بناکر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ خان صاحب خود تو انتخابات میں جیت گئے، لیکن ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو اتنی نشستیں نہیں مل سکیں کہ وہ ملک کے وزیر اعظم بن کر ہر وقت خبروں میں چھائے رہتے اور ان کی تشہیری خواہش پوری ہوتی رہتی۔ خان صاحب تشہیر کے بغیر خود کو اَدھورا سمجھتے ہیں، لہذا انھوں نے بوریا بستر سمیٹا اور اپنے حامیوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیا۔
پاکستان کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہاں اسلام کا پرچم بلند کئے بغیر کوئی بڑا مجمع نہیں اکٹھا کیا جاسکتا، اس لئے خان صاحب نے ایک عالم دین مولانا طاہر القادری کو مجمع اکٹھا کرنے کے لئے کناڈا سے بلایا اور اب عمران خان، مولانا طاہر القادری اور ان کے حامیوں کو ساتھ لے کر اسلام آباد میں احتجاج کر رہے ہیں۔ خان صاحب کا مطالبہ ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف جلد از جلد استعفی پیش کریں اور حکومت کی باگ ڈور ان (عمران خان) کے سپرد کردیں، تاکہ خان صاحب خبروں کی زینت بنے رہیں اور ان کی شہرت میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے۔
لیکن عمران خان کی دلچسپی اب شہرت کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی بڑھ گئی ہے، تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ خان صاحب جس طرح کی سیات کر رہے ہیں وہ انتہائی خطرناک ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خان صاحب گزشتہ انتخابات میں ناکام ہو چکے ہیں، اس کے باوجود انھیں اقتدار حاصل کرنے کی جلدی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پانچ سال سے پہلے ہی انتخابات ہو جائیں اور وہ جلد از جلد اقتدار حاصل کرکے خبروں میں برقرار رہیں۔ بھلا کون شخص ہے، جو اپنے ملک کا وزیر اعظم بننا پسند نہیں کرے گا؟، لیکن عمران خان وزیر اعظم پاکستان بننے کی خواہش لے کر جو سیاست کر رہے ہیں، وہ آگ اور پانی کا کھیل ہے۔ پاکستان میں جب کسی نے اقتدار حاصل کرنے میں جلد بازی کی ہے تو عموماً اسے فوج کے کاندھوں کا سہارا لے کر اقتدار تک پہنچنا پڑا ہے، یہاں تک کہ خود نواز شریف کی سیاست کی شروعات بھی فوج کے کاندھوں کے سہارے ہوئی ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق کی عوامی مقبولیت میں کمی ہوئی تو ان کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بے نظیر بھٹو اقتدار میں نہ آجائیں، لہذ جنرل ضیاء الحق نے نواز شریف کو تجارت سے کھینچ کر سیاست کے میدان میں اُتار دیا اور ایک پارٹی بنواکر ان کے سرپر وزارت عظمیٰ کا تاج رکھ دیا۔ لیکن نواز شریف نے جلد ہی سیاسی مہارت بھی حاصل کرلی اور اب وہ اپنے دم خم پر جب وزیر اعظم بنے تو عمران خان اپنے سیاسی حریف نواز شریف کا پرانا نسخہ استعمال کرکے فوج کی مدد سے وزیر اعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ نواز شریف اور پاکستانی فوج کے درمیان رسہ کشی کیوں بڑھی اور پاکستانی فوج کو عمران خان کیوں اچھے لگنے لگے؟۔
دراصل پاکستانی فوج کو یہ بات بالکل ناپسند ہے کہ کوئی جمہوری سیاست داں اپنے دم خم پر سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کرے۔ ایک دور وہ بھی تھا، جب فوج کو ذوالفقار علی بھٹو بہت اچھے لگتے تھے، کیونکہ وہ سابق مشرقی پاکستان کے عوامی لیڈر شیخ مجیب الرحمن کو وزیر اعظم بننا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ چنانچہ فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کو مجیب الرحمن کی مخالفت کے عوض میں پاکستان کا اقتدار سونپ دیا تھا، جب کہ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کی رسہ کشی میں پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ پاکستانی فوج کو کبھی اس بات کی پروا نہیں رہی کہ پاکستان کے ٹکڑے بھی ہوسکتے ہیں۔ بھٹو نے مغربی پاکستان کو جمہوری نظام کے تحت بچا لیا، اس لئے وہ اس وقت فوج کے ہیرو بن گئے، لیکن جب بھٹو نے پاکستان میں اتنی مقبولیت حاصل کرلی کہ وہ اپنے دم خم پر انتخابات میں کامیاب ہوکر وزیر اعظم بن گئے تو اسی پاکستانی فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کو سولی پر چڑھا دیا۔ اسی طرح ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو جب فوج کسی طرح روکنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو ان کو گولی کا نشانہ بنوایا، کیونکہ فوج کی مخالفت کے باوجود بے نظیر بھٹو اپنے دم خم پر حکومت بنانے کی صلاحیت رکھتی تھیں، لہذا ان کا زندہ رہنا پاکستانی فوج کے لئے خطرہ بن گیا تھا۔
بس یوں سمجھئے کہ پاکستانی فوج کے منہ کو خون کا چسکا لگ چکا ہے، جیسے ہی کوئی لیڈر اپنے دم خم پر انتخابات جیتنے کا موقف حاصل کرتا ہے، وہ پاکستانی فوج کی نظروں میں چڑھ جاتا ہے۔ نواز شریف کا سب سے بڑا قصور یہی ہے کہ وہ اب جمہوری سیاست میں اس قدر کامیاب ہو چکے ہیں کہ انھوں نے اپنے دم خم پر گزشتہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی، لہذا اب نواز شریف کو اللہ ہی بچا سکتا ہے، کیونکہ فوجی نقطۂ نظر سے ان سے ایک نہیں بلکہ دو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ اولاً یہ کہ انھوں نے اپنے دم خم پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور دوسری یہ کہ انھوں نے فوج کی مرضی کے بغیر ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ لہذا پاکستانی فوج کے نقطۂ نظر سے کسی لیڈر کا اس سے بڑا گناہ کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ وہ ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔نواز شریف کو ابھی حال حال تک ایسی کوئی پریشانی نہیں تھی، لیکن جب وہ نریندر مودی کے بلاوے پر ہندوستان آئے تو ان کی قسمت بدل گئی، کیونکہ انھوں نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی ٹھان لی تھی اور ہندوستان سے واپس جانے کے بعد انھوں نے ہندوستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان بھی کردیا تھا، اس طرح ان کا یہ اعلان پاکستانی فوج کے نزدیک گناہِ عظیم سمجھا گیا۔
ایک طرف ہند۔ پاک مذاکرات کی تاریخیں طے ہوئیں اور دوسری طرف عمران خان اور مولانا طاہر القادری نے نواز شریف کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کردیا۔ اب عمران خان اور مولانا طاہر القادری اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر نکل کر نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ اب نواز شریف پاکستانی فوج کے کام کے نہیں رہے، کیونکہ وہ اپنے دم خم پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے ہندوستان کے ساتھ دوستی کا خواب دیکھنے لگے ہیں۔ اسی لئے پاکستانی فوج نے نواز شریف کے خلاف ایک جمہوری مہرے کا استعمال کیا، جس کا نام ’’عمران خان‘‘ ہے۔ عمران خان شہرت حاصل کرنے اور خبروں میں رہنے سے دلچسپی رکھتے ہیں، اس لئے وہ موجودہ حالات سے کافی محظوظ ہو رہے ہیں، جب کہ پاکستانی فوج کو یہ خوشی ہے کہ اس نے نواز شریف کے پر کتر دیئے ہیں۔ فی الحال ہند۔ پاک مذاکرات تو رُک گئے ہیں، تاہم راقم السطور کی دعا یہ ہے کہ نواز شریف کا حشر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسا نہ ہو۔