عمران خان کے ساتھ تال میل

چدمبرم
سابق وزیر داخلہ و فینانس
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان 11 اگسٹ 2018 کو پاکستان کے آئندہ وزیر اعظم کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے ۔ ان کی کامیابی پہلے سے طئے شدہ نہیں تھی ۔ حالانکہ یہ طاقتور اشارے مل رہے تھے اور یہ افواہیں بھی چل رہی تھیں کہ وہ چونکہ پاکستانی فوج کے پسندیدہ امیدوار ہیں اس لئے ان کی کامیابی یقینی ہے ۔ عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کو کامل کامیابی نہیں مل سکی ہے لیکن وہ اکثریت کیلئے درکار 137 نشستوں سے نسبتا قریب ہے اور اسے 116 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔
انتخابات کے موقع پر یہ پیش قیاسی کی جا رہی تھی کہ مسٹر نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کو دوبارہ اقتدار ملے گا ۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی کامیابی کے تعلق سے بھی شرطیں لگائی گئی تھیں کیونکہ ان کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کی کچھ ریلیاں بہت کامیاب ہوئی تھیں۔ تاہم بالآخر عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف ہی واحد بڑی جماعت بن کر ابھری ہے ۔
شدت پسند خیالات غلط
ہندوستان میں کچھ گوشے ہیں جنہیں نئی حکومت سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو انتخابات کو غیر اہم قرار دیتے ہیں اور حکومت ہند کو خبردار بھی کرتے ہیں کہ وہ چوکس رہے ۔ یہ دونوں ہی غلط ہیں۔
ہمیں پاکستان کے وفاقی حکومت کے طرز کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ آزادی کے بعد کے 71 برسوں میں 31 برس وہاں فوج کی حکمرانی رہی ہے وہاں کی سیویلین حکومتوں کی مدت کم رہی ہے ۔ بیشتر حکومتوں کا انحصار فوجی حکام کے رحم و کرم پر رہا ہے ۔ فوج اور سیویلین حکومت ( اگر رہے تو ) اور پھر غیر مملکتی عناصر پاکستان میں اقتدار کے حصے دار ہوتے ہیں۔ ہندوستان اور خاص طور پر جموں و کشمیر سے متعلق امور میں تینوں عناصر میں کسی کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اقتدار کی رسہ کشی میں حیرت انگیز تبدیلیاں بھی رونما ہوں اور مسٹر خان ( عمران ) اپنے لئے کچھ زیادہ جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔
نئی حکومت کا آغاز کچھ یقینی خیر سگالی سے ہوگا ۔ عمران خان کی حکومت بات چیت کریگی اور اس نے امن ‘ ترقی ‘ نشو ونما اور پڑوسیوں تک رسائی ‘ بین الاقوامی قبولیت اور مسٹر خان کے الفاظ میں اہم ترین مسئلہ کشمیر کا حل دریافت کرنے کے تعلق سے اظہار خیال کرنا شروع بھی کردیا ہے ۔ آئندہ چھ تا بارہ مہینوں میں جو کوئی معمولی موقع مل سکتا ہے ہندوستان کو اس سے استفادہ کرنا چاہئے ۔ ہندوستان کو پاکستان پر اس بات کیلئے زور دینا چاہئے کہ جموں وکشمیر کے مسئلہ کے سوا بھی دوسرے مسائل پر دونوں ممالک کام کرسکتے ہیں۔ یہاں دوسرے امور جیسے تجارت ‘ بس اور ٹرین سروسیس ‘ ثقافتی تبادلے ‘ زائرین کی رسائی ‘ سیاحتی ویزے ‘ میڈیکل ویزے اور کھیلوں کے مقابلوں کا احیاء موجود ہیں۔ ان سے حالانکہ دیرینہ حل طلب مسئلہ جموں و کشمیر کی یکسوئی نہیں ہوگی لیکن اس سے ہندوستان و پاکستان کے عوام کو ایک دوسرے کو اختلافات کے ساتھ پڑوسی کی نظر سے دیکھنے کا موقع ملے گا اور ایک دوسرے کو ازلی دشمن کی نظر سے دیکھنے سے بچا جاسکے گا ۔ دونوں ممالک کو وسیع تر امور پر تعلقات کو معمول پر لانے کی معمولی کامیابیوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ یہ امور کسی بھی دو پڑوسی ممالک کے مابین معمول کے مطابق ہوتے ہیں۔
امن کی تشریح
اس کے آگے ہندوستان کے مفادات سرحد پر دراندازی روکنے ‘ دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے اور وادی کشمیر پر جو تنازعہ ہے اس کا قابل احترام حل دریافت کرنے میں بھی مضمر ہیں۔ سیاچن اور سرکریک کے تعلق سے بھی کچھ متنازعہ مسائل ہیں۔ اگر ان تمام مسائل کو ختم کرنے کو امن کا نام دیا جاتا ہے تو مجھے کوئی شک نہیں کہ عمران خان اور ان کی حکومت بھی حرکت میں آئیگی ۔ ایسے میں ہمیں چاہئے کہ پہلے قابل رسائی مقاصد حاصل کریں۔ اگر ہم امن کی تشریح سرحد پر جنگ بندی سے کرتے ہیں ‘ جیسا کہ ہم کئی برسوں تک کرتے رہے ہیں ‘ اگر ہم امن کی تشریح در اندازی کو روکنے کی کرتے ہیں ‘ جو ممکن بھی ہے اور یہ کام مشترکہ پٹرولنگ اور دوسرے سرحدی سکیوریٹی اقدامات کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے ‘ اگر ہم امن کی تشریح پاکستانی حکام کو یہ ترغیب دینے میںکرتے ہیں کہ وہ دہشت گرد گروپس کی کوئی سرگرم مدد نہ کرے ‘ تو یہ کام صبرآزما سفارتکاری سے جزوی حد تک ممکن ہے ۔
ممبئی دہشت گرد حملے کی یاد ہمارا تعاقب کرتی ہے ۔ جب تک اس کے خاطیوں کو سزا نہیں دی جاتی اس وقت تک یہ برہمی ختم نہیں ہوسکتی ۔ اس حملے میں 166 جانیں تلف ہوئی تھیں۔ اس کے خاطیوں کی شناخت ہوچکی ہے اور وہ پاکستان میں رہتے ہیں۔ عمران خان شائد ( میں یہاں مشورتا ’ شائد ‘ کا لفظ استعمال کر رہا ہوں ) اپنی شناخت ایک جمہوریت پسند اور دہشت گردی کے مخالف کے طور پر بنانے میں دلچسپی رکھیں گے ۔ اگر ہم عمران خان کی حکومت پر زور دیں کہ وہ حافظ سعید اور دوسرے خاطیوں کے مقدمہ کی سماعت کا احیاء کریں اور انہیں سزائیں دلائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ عمران خان نے کہا تھا کہ اگر ہندوستان ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو وہ دو قدم آگے آنے تیار ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ وزارت عظمی کی ذمہ داری سنبھالنے سے قبل دیا گیا بیان ہو لیکن اگر ہم عمران خان کو ان کے الفاظ یاد دلائیں اور ان سے اپیل کریں کہ ان الفاظ کو پورا کیا جائے تو ہمارا اس میں کوئی نقصان نہیں ہے ۔
معمولی فائدوں پر توجہ
غیر اہم اقدامات پالیسی کا حصہ نہیں ہوتے ۔ موقف کی تبدیلی بھی پالیسی نہیں ہوتی ۔ ممبئی دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا ۔ نہ ہی یہ اعلان کیا کہ پاکستان سے بات چیت نہیں ہوگی ۔ یہ موقف ابتداء میں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا تاہم اس سے معمولی فائدے ہوئے ۔ ہندوستان میں 2008 سے 2014 کے درمیان جو دہشت گردانہ واقعات ہوئے ان کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا ۔ اس وقت پاکستان نے شائد کچھ تحمل سے کام لیا تھا ۔ جموں و کشمیر میں بھی 2010 سے 2014 کے درمیان اموات میں کمی آئی تھی ۔
عمران خان ایک مشکل میدان پر ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کمزور ہے اور شدید مسائل کا شکار ہے ۔ اس کے علاوہ بیرونی قرض بڑھتا جا رہا ہے ۔ بین الاقوامی برادری میں ملک ایک طرح سے یکا و تنہا ہوگیا ہے ۔ عمران خان کو حکومت کا کوئی تجربہ نہیں ہے ۔ وہ بھی ہوسکتا ہے کہ معمولی بہتری کی خواہش کرینگے ۔ یہی سب سے اہم بات ہے ۔ معمولی سی پہل ‘ معمولی سے امیدیں اور معمولی سے نتائج ۔ یہی کچھ نتائج عمران خان اور ان کی حکومت کے ساتھ تال میل اور کام کرنے کے ہوسکتے ہیں۔