علیگڑھ اولڈ بوائز فیڈریشن

کے این واصف
اج کی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں سر سید احمد خاں کا جنون اور وارفتگی سے تو سب واقف ہیں اور سر سید کے مشن کو آگے بڑ ھانے اور اورینٹل کالج کو یونیورسٹی کے درجہ تک پہنچانے والوں نے بھی کچھ کم جدوجہد نہ کی ہوگی لیکن بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ آج بھی اس کے طلبائے قدیم کی جو والہانہ وابستگی اور اپنی مادر درس گاہ سے محبت ہے ، اس کی مثال شاید ہی کوئی اور یونیورسٹی پیش کرسکتی ہے اور طلبائے قدیم کا یہ انس و محبت صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں بلکہ وہ عملی طورپر اپنی جامعہ کی ترقی اور کامیابیوں کیلئے ہمیشہ سرگرداں رہتے ہیں۔

علیگڑھ جس کو 1920 ء میں یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا، تقریباً ایک صدی کے اس طویل عرصہ میں بے شمار طلباء اس درسگاہ سے فارغ التحصیل ہوکر نہ صرف ہندوستان کے مختلف شہروں میں میدان عمل میں آئے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں علیگڑھ کے فارغین دنیا کے مختلف ممالک میں بھی جا بسے۔ بے شک ایسا ہندوستان کی دیگر جامعات کے طلباء نے بھی کیا ہوگا ۔ ہر طلب علم کے ذہن میں تادم حیات اپنے اسکول ، کالج یا یونیورسٹی کی یادیں ضرور رہتی ہیں لیکن علیگڑھ طلبائے قدیم کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ اپنی جامعہ کی یادیں صرف ان کے ذہن کے کسی کونے میں پڑی نہیں رہتیں بلکہ وہ اپنی جامعہ کی سربلندی اور ترقی کے بارے میں مسلسل سوچتے اور عملی اقدام بھی کرتے رہتے ہیں جس کیلئے انہوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں اور دنیا کے مختلف ممالک کے شہروں میں جہاں جہاں علیگز بستے ہیں، وہاں وہاں ’’علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن‘‘ قائم کر رکھی ہے۔ اولڈ بوائز کی یہ تنظیمیں ساری دنیا میں ہر سال ’’ سر سید ڈے‘‘ مناتی ہیں۔ یوم سر سید ایک تو سارے علیگز کو سال میں ایک بار اکھٹا ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ دوسرے اس موقع پر کچھ ایسے معاملات زیر بحث آتے اور ان پر عملی اقدام کئے جاتے ہیں جن سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی بھلائی اور ترقی ہوتی ہے یا بڑے یا چھوٹے پیمانے پر کوئی سماجی خدمت کا بیڑا اٹھایا جاتا ہے۔ ان دونوں امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں مقیم ایک سینئر علیگ سید حسن کمال سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ان کے دورے کا مقصد امریکہ اور سعودی عرب میں قائم علیگڑھ طلبائے قدیم کی انجمنوں کو آپس میں جوڑنا اور جامعہ علیگڑھ کی ترقی و سربلندی کی کاوشوں کو اجتماعی حیثیت دینا ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن (اموبا) ریاض نے ایک خصوصی اجلاس کا اہتمام کیا جس میں اموبا کے تمام سینئر اراکین نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی صدارت سینئر علیگ اور سابق صدر اموبا ڈاکٹر ندیم ترین نے کی۔

اجلاس کا آغاز ڈاکٹر انیس جمیل کی قرات کلام پاک سے ہوا۔ ناظم اجلاس اموبا کے خازن محمد ارشد علی خاں کے افتتاحی کلمات کے بعد صدر اموبا ڈاکٹر محمد احمد بادشاہ نے خیرمقدم کیا اور مہمان خصوصی سید حسن کمال کا تفصیلی تعارف پیش کیا ۔ ڈاکٹر بادشاہ نے بتایا کہ حسن کمال 1960 ء کی دہائی میں علیگڑھ سے فارغ التحصیل ہوئے اور امریکہ منتقل ہوئے ۔ انہوں نے امریکہ کے اسپتالوں میں بحیثیت مشیر ہاسپٹل اڈمنسٹریشن خدمات انجام دیں۔ حسن کمال نے 1975 ء میں دیگر علیگز کے تعاون سے ’’علیگڑھ المنائی اسوسی ایشن واشنگٹن‘‘ قائم کی اور پھر 2003 ء میں اٹلانٹا شہر میں طلبائے قدیم علیگڑھ کی انجمن کا قیام عمل میں لایا اور پھر اسی سال انہوں نے ’’فیڈیرنش آف علیگڑھ المنائی اسوسی ایشن‘‘ بھی قائم کی۔
اس خصوصی اجلاس سے مخاطب کرتے ہوئے حسن کمال نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی تدبیر پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم علیگز اگر اپنی کاوشوں کو اجتماعی شکل دیں تو ہماری کوششیں زیادہ ثمر آور ہوسکتی ہیں۔ ا نہوں نے بتایا کہ امریکہ میں مختلف شہروں میں قائم علیگڑھ المنائی کے اراکین نے اپنی فیڈریشن قائم کر رکھی ہے۔ ہر سال امریکہ کیکسی ایک شہر میں فیڈریشن کا اجلاس منعقد ہوتا ہے اور ہم جامعہ علیگڑھ کے مختلف شعبہ جات میں عام ترقی میں طلبائے قدیم کے رول پر غور و خوض کرتے ہیں۔ پھر جامعہ کے انتظامیہ سے راست طور پر رابطہ کر کے لائحہ عمل طئے کیا جاتا ہے۔ جس کمال نے کہا کہ خلیجی ممالک میں علیگرنیز کی ایک بڑی تعداد بستی ہے اور یہاں ہر شہر میں سابق طلباء کی انجمنیں بھی قائم ہیں اور یہ انجمنیں فعال بھی ہیں۔ خلیجی ممالک کی ساری انجمنیں ایک علاقائی فیڈریشن قائم کریں اور امریکہ کے فیڈریشن کی طرح ہر سال فیڈریشن کا اجلاس کسی ایک ملک میں منعقد کریں تو ہماری کاوشوں کے نتائج مزید بہتر ہوں گے۔

حسن کمال نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ جامعہ علیگڑھ کی روایتی تہذیب ماند پڑ رہی ہے ۔ جامعہ سے اٹوٹ وابستگی ، اساتذہ کا احترام ،سینئر اور جونیئر کے درمیان ادب و لحاظ وغیرہ جامعہ کی تہذیب کا خاصہ تھی جس کی بازیابی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق طلباء کی انجمنیں ہندوستان اور دنیا کے دیگر شہروں میں قائم ہیں۔ یہ انجمنیں علیگڑھ تہذیب کی بازیابی اور بقاء کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے والے نوجوانوں کو روانگی سے قبل علیگڑھ کی تہذیب ان کے ذہن نشین کرائیں اور جامعہ میں موجود سینئرز بھی علیگڑھ کے تہذیبی ورثہ کو جونیئرز میں منتقل کریں۔ حسن کمال نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں یا دنیا کے دیگر ممالک کے شہروں میں ایسے بہت سارے حضرات ہیں جو علیگ نہ ہونے کے باوجود سر سید احمد خاں کے مداح اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کیلئے اپنے ذہن و قلب میں نرم گوشہ رکھتے ہیںاور اس کی فلاح و بہبود اور ترقی کے خواہاں ہیں۔ ہم ان حضرات کو بھی اپنے ساتھ شامل کر کے اپنی طاقت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) انڈیا نے یونیورسٹی رینکنگ میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو تیسرا نمبر دیا ہے ۔ حسن کمال نے کہا کہ اب ہمارا مشن یہ ہونا چاہئے کہ ہم کس طرح جامعہ علیگڑھ کو نمبر ایک کے درجہ پر لایا جاسکتا ہے ۔اس موضوع کو ہم ہمارے فیڈریشن کے اجلاس میں زیر بحث لائیں۔ آخر میں حاضرین اور حسن کمال کے درمیان سوال ، جواب اور تجاویز کی پیشکشی کا سیشن بھی رہا۔ اس سیشن کے ماڈریٹر کے فرائض ڈاکٹر محمد احمد بادشاہ نے ادا کئے ۔ اس دوران یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ امریکہ ’سعودی عرب اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے درمیان ایک تحقیقی شعبہ قائم ہو جو "Root Cause of global Terrorism and its Solution” کے موضوع پر کام کرے۔

صدر اجلاس ڈاکٹر ندیم ترین نے اس موقع پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے امریکہ کے دورے کے موقعوں پر علیگڑھ المنائی اسوسی ایشنز کے زیر اہتمام منعقد تقاریب اور دیگر خصوصی اجلاسوں میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ خلیجی علاقائی فیڈریشن برائے المنائی آف علیگڑھ کے قیام کی تجویز سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں۔ انہوںنے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ فیڈریشن کے پہلے اجلاس کے مکہ مکرمہ میں انعقاد کے خواہاں ہیں جس کی میزبانی وہ خود کریں گے ۔انہوں نے مہمان خصوصی حسن کمال کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ تمام المنائی انجمنوں کی پہلی ترجیح جامعہ علیگڑھ کی تعلیمی ترقی اور اسے یو جی سی رینکنگ میں کسی طرح پہلی پوزیشن پر لایا جائے ۔ یونیورسٹی کے تمام بہی خواہوں اور وائس چانسلر کی بھی یہی خواہش ہے ۔ ہم یونیورسٹی کے ارباب مجاز سے رابطہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ان کے اس مشن میں ہم این آر آ ئیز کس طرح معاون و مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے ماحول کو پرامن بنانا بھی ایک اہم اقدام ہے جس پر انتظامیہ کو کام کرنا چاہئے کیونکہ پرامن ماحول ہی تعلیمی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے ۔ ندیم ترین نے آخر میں یہ بھی کہا کہ خود علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اندر کچھ ایسی طاقتیں موجود ہیںجوا یک منفی سوچ رکھتی ہیں اور جامعہ کی ترقی کی راہوں میں روڑے اٹکانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ ہمیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم کس طرح ان منفی سوچ رکھنے والوںکو اپنا ہمنوا بناسکتے ہیں تاکہ جامعہ علیگڑھ کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹیں نہ رہیں۔ ریاض کی ایک ریسٹورنٹ کے ہال میں منعقد اس اجلاس کا اختتام نائب صدراموبا نسیم اختر کے ہدیہ تشکر پر ہوا۔
knwasif@yahoo.com