علم و عمل کا روشن چراغ

قاری محمد یٰسین علی عاصم

حضرت مولانا محمد حمیدالدین حسامی عاقلؒ امیر ملت اسلامیہ داغی و مبلغ ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی قائد بھی تھے۔ واعظ دکن ہی نہیںحیدرآباد دکن کی آواز اور پہچان تھے۔ آپ کے مواعظ میں فصیح البیانی، شوخیٔ تقریر کی مہک دلوں کو چھو لیتی، آپ کو اللہ تعالیٰ نے حسن تقریر سے نوازا تھا۔ اپنی تقریروں، خطباتِ جمعہ و عیدین اور سیرت نبی ﷺ کے جلسوں سے جب آپ وعظ بیان کرتے، آسان زبان استعمال کرتے، جملے چھوٹے چھوٹے ہوتے، لیکن تراشے ہوئے ہوتے۔ جس میں جذبہ کی حرارت ہوتی، انداز مزاحیہ ہوتا۔ دینی تعلیمات کو آسان طریقے سے بیان فرماتے جس سے سامعین پر اس کا اثر ہوتا اور اسے قبول کیا کرتے۔ ان کے اندر عبادت کا ذوق و شوق پیدا ہوتا۔ ان کیلئے دینی احکامات پر عمل کرنا آسان ہوجاتا۔ دوران تقریر پُراثر واقعات آسان پیرائے میں بیان کرتے ہوئے پُرلطف انداز میں اس کو سننے والوں کے ذہن نشین کرادیا کرتے تھے کہ وہ خود بخود فکر و عمل کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ آپ کے بے باک بیانات پر ارباب حکومت بھی فوراً متوجہ ہوجاتے۔ حضرت کے بیانات کا اثر اپنوں کے علاوہ غیروں پر بھی اتنا ہوتا تھا کہ ہزاروں غیر مسلم آپ کے بیانات پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
جو بات کہو صاف ہو ، ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو ، کھٹی نہ ہو ، مصری کی ڈلی ہو

حضرت مولانا عاقلؒ امیر ملت اسلامیہ آندھراپردیش شہر حیدرآباد کی ہردلعزیز مذہبی و سیاسی حرکیاتی شخصیت تھے۔ جنھوں نے 60 برس سے زیادہ مذہبی، تعلیمی، ملی، سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور خود کو کبھی کسی خاص مکتب فکر سے وابستہ نہیں کیا۔ اسی لئے آپؒ ہر مکتب فکر و سیاسی جماعتوں کے پروگراموں میں شرکت فرماتے اور تقریباً تمام جلسے آپ کی صدارت و نگرانی میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ شہ نشین پر تشریف فرما حضرات میں آپ سب کی نگاہوں کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ جب آپ صدارتی خطاب فرماتے تو اپنے طنزیہ و مزاحیہ انداز بیان سے سامعین کو اپنی جانب متوجہ کرلیتے۔ آپ کی گفتگو میں بڑی برجستگی ہوتی اور سامعین کو متاثر کرنا جانتے تھے۔ آپؒ اپنی زندگی کے شب و روز وعظ و نصیحت کیلئے وقف کردیئے تھے۔ امیر ملت اسلامیہ کئی مذہبی و سیاسی اداروں سے وابستہ رہ کر اور کئی انجمنوں اور تنظیموں کے ذریعہ قوم و ملک کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ کئی سوسائٹیاں آپ کی سرپرستی و نگرانی میں چلا کرتی تھیں۔ آپ مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی اور ان کی دینی و دنیاوی فلاح و بہبود کیلئے ہمیشہ فکرمند رہا کرتے تھے۔ امیر ملت حضرت مولانا عاقل صاحب تاحیات صالح معاشرہ کی تشکیل کیلئے اپنی بہترین صلاحیتوں اور توانائیوں کے ذریعہ بے انتہا ایثار و قربانی سے ملت اسلامیہ کی تعلیمی، اصلاحی، سماجی و سیاسی خدمات انجام دی تھیں۔ محبت و مروت، ہمدردی و اخلاص، غمخواری و دلجوئی ، دیانت داری و امانت داری، فراست و تدبر کے علاوہ آپ بات میں بات کرنے میں خاص کمال رکھتے تھے اور آپ نے حافظہ بھی بلا کا پایا تھا اور مسئلہ کو فوراً سمجھ کر حل کردیا کرتے تھے۔ ایک صاحب جو سیندھی پینے کے عادی تھے۔ مولانا سے مسئلہ دریافت کرنے آئے اور سوال کیاکہ مولانا کیا درخت کا دودھ پینا جائز ہے، مولانا نے جواب دیا کہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔
آپ کی زیرسرپرستی و نگرانی کئی دینی مدارس چلا کرتے تھے اور آپ نے کئی مدارس کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کا افتتاح انجام دیا اور اسی طرح آپ نے کئی مساجد کا سنگ بنیاد رکھا اور اُن مساجد کا افتتاح نماز کی امامت فرماکر کیا کرتے تھے۔

امیر ملت اسلامیہ حضرت مولانا عاقلؒ ایک ایسی مثالی و اعلیٰ کردار کی حامل شخصیت کا نام ہے جو ہر محاذ پر انگنت کارناموں کے انفرادی نقوش چھوڑے۔ جس کا تذکرہ بار بار ہونا چاہئے ؎
بھلا سکے نہ زمانہ وہ یادگار ہوں میں
آپ بہترین واعظ و مقرر ہی نہیں تھے بلکہ متقی، پرہیزگار و معلم الاخلاق تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی سادگی، نفاست پسندی، رکھ رکھاؤ، آداب و لحاظ اور اپنے حسن و اخلاق و کردار سے سلفِ صالحین کا عملی نمونہ پیش کیا تھا اور اپنی زندگی میں شریعت و سنت رسول ﷺ کا حد درجہ پاس و لحاظ رکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کوئی عمل سنت نبوی ﷺ کے خلاف نہ ہو اور بدعات و خرافات سے بے حد نفرت کرتے تھے اور اپنے مریدوں و معتقدین کو سنت رسول ﷺ کی اتباع و پیروی کرنے اور بدعات و خرافات سے پرہیز کرنے کی بڑی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ آپ ہر ایک سے ملا کرتے۔ آپ کی نظر میں سب خاص و عام یکساں تھے۔ آپ ہنسانا ہی جانتے تھے کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے۔ لوگوں کا رویہ آپ کے ساتھ کیسا بھی ہو آپ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملاقات کیا کرتے تھے۔ آپ کے اِنھیں اوصافِ حمیدہ نے لوگوں کے دل جیت لئے تھے۔ حضرت مولانا عاقلؒ کی شخصیت کا ایک اور روشن پہلو نعتیہ شاعری ہے۔ آپ کے نعتیہ کلام پڑھنے اور سننے سے نبی پاک ﷺ کی محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق زندگی سنوارنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

عاشق محمد ہے غیر کا نہیں عاقلؔ
عشق مصطفی باقی عشق غیر فانی
لے چل اے جذبہ دل رہبرِ کامل بن کر
میرے پیارے میرے آقا ، میرے سرکار کے پاس
ہو بسر عمر مری روضہ سرکار کے پاس
خلد میں بھی رہوں میں احمدِ مختار کے پاس
رویا میں ان کی دید نہیں ہوسکی ابھی
عشقِ نبی میں اپنی ہے شاید کمی ابھی
غفلت میں عمر کٹ گئی کچھ کرلے نیکیاں
عاقلؔ ہے تیرے قبضے میں کچھ زندگی ابھی
حضرت مولانا عاقلؒ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود عبادت و ریاضت اور راتیں ذکر الٰہی میں گذارا کرتے تھے اور ہر ہفتہ حسامیہ منزل میں ذکر الٰہی کی محفل منعقد کیا کرتے اور اپنے خاص مریدوں کے ساتھ رات بھر ذکر جہری میں بسر کرتے تھے ۔ آپ کے دست حق پر تقریباً 50 ہزار لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔
بلاشبہ عالم اسلام ایک مایہ ناز شخصیت حضرت مولانا عاقلؒ کی پاکیزہ زندگی اور دینی و ملی ناقابل فراموش خدمات کا تذکرہ صاحب شعور اور عام لوگوں کے رشد و ہدایت اور اطاعتِ حق کے راستہ پر چلنے کا وسیلہ ہے۔ آپ کی یہ خوبیاں و نیکیاں تھیں جس میں آپ کو اپنے دور کے دانشوروں اور ارباب کمال شخصیتوں میں ایک الگ پہچان بنائی اور نمایاں مقام حاصل کیا تھا۔
حیدرآباد شہر اب علماء و مشائخ اور اولیاء اللہ سے خالی ہوتا جارہا ہے۔ انہی میں سے حضرت مولانا عاقل ہیں جن کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ جس کا اظہار ایک زمانہ ہی نہیں کررہا ہے بلکہ اس کا اظہار شہر کے مشہور روزناموں سے بھی ہوتا ہے۔ اخبار منصف میں مدینہ پبلک اسکول کے ہفتہ واری کالم ’’ذرا غور کیجئے‘‘ سے ہوتا ہے جس میں لکھا ہے کہ حضرت مولانا محمد حمیدالدین عاقل حسامی کے گذر جانے کے بعد حیدرآباد میں مسلم دانشوروں اور بے باک علماء کی بہت کمی محسوس کی جارہی ہے اور اخبار سیاست نے سرخی اس طرح دی ہے کہ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں شب معراج النبی ﷺ کا خشوع و خضوع سے انعقاد، مکہ مسجد میں سب سے بڑا اجتماع، مولانا عاقل کی کمی کا شدت سے احساس اور تفصیل اس طرح شائع کی کہ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں معراج النبی ﷺ کا انعقاد عظیم الشان پیمانہ پر عمل میں آیا لیکن دونوں شہروں کے عوام نے جلسہ ہائے معراج النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقررین کی فہرستوں میں حضرت مولانا محمد حمیدالدین عاقلؒ کی کمی کو شدت سے محسوس کی۔ مولانا عاقلؒ کے مقدس راتوں میں جامع مسجد دارالشفاء و جامع مسجد چوک میں منعقد ہونے والے بصیرت افروز خطابات کو سماعت کرنے کیلئے دور دراز مقامات سے اُمت مسلمہ کی بڑی تعداد شرکت کیا کرتی تھی۔
کچھ ایسے بھی اُٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے