’’علم تاریخ کی اہمیت‘‘

اسماء سعدیہ
ڈبل ایم اے (لکچرر)
آج کل کالجوں میں تاریخ کے طلباء کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ۔ حالانکہ دیگر علوم کے مقابل علم تاریخ کی اہمیت کم تر نہیں ہے ۔ البتہ اس بات کا قیاس کیا جاسکتا ہے کہ علم تاریخ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود حصول معاش کیلئے اس میں زیادہ کشش نہیں۔
تاریخ درحقیقت کچھ قصے کہانیوں کا نام نہیں، تاریخ صدیوں کے واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹتی ہے۔ تاریخ مختلف زبانوں اور ممالک کی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہوتی ہے۔ تاریخ بادشاہوں ، شہنشاہوں اور فاتحین عالم کے کارناموں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ابتدائی دور میں انسانی آبادی چونکہ مختصر محدود تھی، اس لئے زیادہ تر اس دور میں خاندانی یا قبائلی بنیادوں پر انسانی معاشرہ تشکیل پاتا تھا۔ خاندان یا قبیلے کے بڑے فرد ہی کو سردار کی حیثیت حاصل ہوتی تھی اور تمام معاملات کے سیاہ و سفید کا وہی مالک ہوتا تھا ۔
جوں جوں انسانی آبادی بڑھنے لگی، اورلوگ جنگلوں اور پہاڑوں سے ایسے مقامات پر جمع ہونے لگے جہاں جہاں ندیاں بہتی ہیں یا پانی کی سہولت ہوتی ہے ۔ آج بھی کئی شہر ندیوں اور دریاؤں کے کنارے ہی آباد ہیں۔ جب آبادیاں بڑھتے بڑھتے دیہات ، گاؤں اور شہروں کی صورت اختیار کرتے گئے، زندگی کے طور طریقے بھی بدلنے لگے۔
تہذیب و تمدن :
حالات اور ضروریات کے اعتبار سے رکھ رکھاؤ ، لباس ، وضع قطع ، مکانات کی تعمیر ہوتی تھی ۔اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رسم و رواج ، خوشیاں اور جشن ان کے تہوار وغیرہ منائے جاتے تھے ۔ خاندانی اور قبائلی زندگی ترقی کرتے ہوئے چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں تبدیل ہونے لگیں۔ ان میں بعض جنگجو اور بہادر قومیں اپنے اقتدار اور رقبہ میں وسعت پیدا کرتے رہے۔ کمزور قومیں ان کے ماتحت ہوتی گئیں۔
تاریخ میں زیادہ روشن پہلو بادشاہوں، شہنشاہوں اور فاتحین کا ہے ، بعض حکمراں ایک چھوٹے سے رقبہ پر حکومت کرتے رہے اور بعض بڑی بڑی ریاستوںکے مالک رہے ۔ بعض ایسے حکمراں بھی گزرے ہیں جو نہایت انصاف پسند اور عادل تھے جو ہمیشہ رعایا کی بھلائی چاہتے تھے۔ ان میں بعض سخت گیر اور ظالم بھی تھے ، بیشتر حکمراں نسلاً بعد نسلاً یعنی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے تھے ۔ کئی حکمراں ایسے بھی گزرے ہیں جن کا پس منظر حکمرانوں کا نہیں تھا ، بعض غریب اور معمولی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی ذہانت ، شجاعت اور وفاداری کی وجہ سے حکومت کے اہل بنے۔
تاریخ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ قوموں کا عروج و زوال ، حکومتوں کی ترقی و انحطاط اور اس کے اسباب وعلل پر روشنی ڈ الی جاتی ہے ۔ ماضی کے سبق آموز واقعات کا مطالعہ کر کے ہم اپنے مستقبل کو روشن بناسکتے ہیں۔ علم تاریخ کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کن کن قوموں نے کن کن میدانوں میں اپنے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ تاریخ سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کس ملک و قوم نے علوم و فنون ، تہذیب و تمدن میں کیا کیا کارنامے انجام دیئے ۔
تاریخ ہر دور کے عمارات ، ایوانات ، محل ، کھنڈرات ، مجسمے اور بے شمار ایسی نادر اور یکتائے روزگار چیزوں کی غیر معمولی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے۔ تاریخ کے دامن میں پیغمبروں کے قصص بھی ہیں، یہ واقعات نہایت عبرتناک اور سبق آموز ہیں، ایسی حکومتیں جن کے پاس نہ دولت کی کمی تھی ، نہ سامان عیش کی ، جن کے پاس نہ اسلحہ کی کمی تھی نہ فوجی سپاہیوں کی ، اس کے باوجود ان خدا کے پرستاروں کی مخالفت اور دشمنی کی وجہ سے نیست و نابود ہوگئیں۔ تاریخ میں ایسے بادشاہوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جنہیں بادشاہیت کے ساتھ ساتھ نبوت سے بھی سرفراز کیا گیا تھا جنہوں نے مظلوم انسانیت کے لئے رحمت کے سامان مہیا کئے۔
تاریخ میں ا یسے نادر الوجود شخصیتوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو کسی مخصوص شعبہ حیات میں ایسا کارنامہ انجام دے چکے ہیں جن کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔ علم و فنون کا شعبہ ہو کہ جو دو سخاوت کا ، فتوحات کا میدان ہو کہ تباہی کا ، زندگی کے ہر میدان میں وہ یکتائے روزگار نظر آئے ہیں۔