علاّمہ اقبال

نسیمہ تراب الحسن
19نومبر کو علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے ۔ بڑے بڑے مضامین لکھ کر اقبال کو نذرانہ عقیدت پیش کئے گئے ۔ علامہ اقبال پر نہ جانے کتنی کتابیں لکھی جاچکی ہیں ،جو ادب میں قابل قدر سرمایہ ہیں ،لیکن ان کا عام قاری تک پہنچنا ممکن نہیں اور اگر کسی کو مل بھی جائیں تو ان کا معیار اتنا اونچا ہوتا ہے کہ پڑھنے والے کا دماغ اقبال کے فلسفے میں کھوجاتا ہے چنانچہ میں نے سوچا کہ عام قاری کو اقبال سے واقف کروانے کے لئے مضمون لکھوں جو ظاہر ہے سیدھا سادا رہے گا کیونکہ نہ تو میں ادیب ہوں اور نہ ہی دانشور ۔ بس اسی خیال سے قلم اٹھالیا ۔

سرمحمد اقبال 1877 ء کو پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ ان کا خاندان کشمیری برہمن تھا لیکن ان کے اجداد ،ان کی پیدائش سے سالوں قبل اسلام قبول کرچکے تھے ، خود ان کے والد ایک صوفی صفت انسان تھے ۔ اقبال نے تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی پھر لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا ۔ انگریزی ،عربی اور فلسفہ کے ساتھ بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ وہاں مسٹر آرنلڈ اور سرشیخ عبدالقادر جو مخزن کے مدیر تھے ، سے ملاقات ہوئی ۔ اس وقت اقبال شاعری کرنے لگے تھے ۔ ان کی نظمیں مخزن میں شائع ہونے لگیں اور مقبول ہوئیں ۔ اسی عرصے میں انہوں نے فلسفہ سے ایم اے کیا ۔ ان کی ذہانت اور سید میر حسن صاحب جیسے قابل استاد کی سرپرستی نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا اور انھیں تاریخ ، فلسفہ اور سیاسیات کے لکچرر کی حیثیت سے اورینٹل کالج لاہور میں ملازمت مل گئی ۔ اپنی محنت ، جانفشانی اور قابلیت سے اقبال نے محکمہ تعلیمات کے عہدیداروں کا اعتماد حاصل کرلیا ۔

1905ء میں انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفہ و معاشیات سے ڈگریاں حاصل کیں اور تین سال تک لندن میں رہے اور وہاں اسلامی موضوعات پر مقالے لکھے اور تقاریر کیں ،جس سے ادبی حلقوں میں ان کی شہرت پھیلتی گئی ۔ پھر انھوں نے میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اور لندن آکر وکالت کا امتحان دیا اور کامرس کالج لندن میں بہ حیثیت استاد ملازمت کرنے لگے مگر ان کا دل پڑھائی سے جڑا رہا تو انھوں نے اقتصادیات و سیاسیات کی ڈگریاں حاصل کیں اور وطن لوٹ آئے ۔ ابھی وہ صرف 32، 33 برس کے ہی تھے کہ وطن واپس آکر انھوں نے وکالت شروع کی ، لیکن اس سے انھیں تشفی نہ ملی ۔ وہ زیادہ تر انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں شریک ہوتے ۔ ایک مرتبہ اسی کے ایک جلسے میں اپنی نظم ’’شکوہ‘‘ اور دوسرے جلسے میں ’’جواب شکوہ‘‘ پڑھی جو ایک قومی نظم مانی گئی۔
اقبال مغربی تعلیم حاصل کرچکے تھے اور وہاں کی تہذیب کو قریب سے دیکھا تھا ۔ وہاں کے عالموں کی صحبت میں رہے تھے ۔ جب وہ جرمنی میں تھے تو گوئٹے کے زبردست شیدائی تھے ۔ساتھ ہی دانتے جو اطالوی شاعر تھا ، سے بھی متاثر رہے ۔ وہ وہاں کے بڑے بڑے شعراء نیتشے ، دانتے وغیرہ کی صحبت میں بھی رہے اور ان کے علاوہ دوسرے عظیم صوفیوں جیسے بایزید بسطامی اور ابن العربی کے نقش قدم پر اقبال نے اپنا روحانی سفر مختلف منزلوں میں طے کیا تاکہ اس جہاں کے رہنے والوں سے اہم مسائل پر بحث کی جاسکے ۔ نیتشے کے متعلق اقبال کا کہنا تھا کہ ’’نیتشے کا دل تو مومن کا ہے لیکن اس کا ذہن کافر‘‘ ۔

1910ء میں طرابلس و بلقان کی جنگوں سے اقبال کے احساسات کو تکلیف پہنچی اور انہیں مغربی تہذیب سے شدید نفرت ہوگئی جس کے باعث انھوں نے ایسی پرجوش نظمیں لکھیں جو مسلمانوں کے غم میں گرم آنسو اور مغرب کے لئے تیر و نشتر تھیں ۔ انقلاب کا یہ جذبہ ان کی اس زمانے کی تمام نظموں میں پایا جاتا ہے ۔ جیسے جیسے اقبال نے مشرقی اور مغربی کے افکار کا آزادانہ موازنہ کیا وہ مشرق کے معاشرہ کی پستی اور اہل مشرق کی ذہنی مرعوبیت سے افسردہ ہوگئے ،کیونکہ لوگ ہر شعبہ حیات میں مغرب کی تقلید کو ایک فرض سمجھنے لگے تھے ۔ اقبال کے دل و دماغ پر اس گمراہی کا گہرا اثر ہوا اور انھوں نے اصلاح معاشرہ کے لئے قرآن و حدیث اور تصوف کے حوالے سے انسان کے دل و دماغ کی تربیت کو اپنا مقصد حیات بنالیا ۔ انھوں نے عرفان خودی کا نظریہ پیش کیا اور بتایا کہ انسان اپنی ذات سے جڑی تمام کمزوریوں اورطاقتوں سے پوری طرح آگاہ رہے اور اپنے وجود کو ان کمزوریوں سے آزاد کرلے یعنی فاتح نفس ہوجائے ، نفس کا غلام نہ رہے ۔ اب وہ اپنے کلام کے سہارے اسی نکتہ کو سمجھانے لگے ۔ لوگوں کو یہ فلسفہ سمجھنے میں دقت ہوئی کیونکہ ماحول سازگار نہ تھا ، لیکن ان کے نظریہ فکر کی جھلک خود ان کی زندگی میں دکھائی دینے لگی۔

عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ اقبال کا سیاسی نصب العین اکثر بدلتا رہا ۔ بے شک ان کے خیالات میں مختلف حالات کے ساتھ تبدیلی ہوتی گئی جیسے ایک زمانہ میں وہ ہندوستانیت کے جذبہ سے سرشار تھے ، جس کے تحت انھوں نے ’’ترانۂ ہندی‘‘ ’’نیا شوالہ‘‘ اور ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ لکھے ۔ اس کے بعد ان کے خیالات میں بدلاؤ آیا اور انھوں نے ’’بلاد اسلامیہ‘‘ ’’ترانۂ ملی‘‘ ’’خطاب بہ نوجوانان اسلام‘‘ وغیرہ جیسی نظمیں لکھیں پھر جب اٹلی میں فاشزم سے متاثر ہوئے تو اس کا رنگ ان کی شاعری میں جھلکنے لگا ۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کے تجربات ، مشاہدات اور دنیا کی سیاست کے گہرے مطالعہ کا نتیجہ تھا ۔
علامہ اقبال ایک انوکھی اور غیر معمولی شخصیت کے حامل تھے ۔ اللہ نے انھیں ایک فلسفی کا دماغ ، ایک شاعر کا تخیل اور مرد مومن کا احساس اور بصیرت عطا کی تھی ۔ وہ اپنی خداداد قابلیت و صلاحیت کی وجہ سے زندگی کے نقیب ، نباض وقت کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ شاعری میں ان کی دوربینی ہر دور میں بنی نوع آدم کو پیغام انفس و آفاق سے روشناس کراتی رہی ہے اور رہے گی ۔ ان کی شاعری ایک طرف حسن پرستی ، لذت اندوزی اور تسکین بہم پہنچاتی ہے تو دوسری طرف ہمارے شعور و احساس قلب کو وجدان ، سوز وگداز ، حرکت و حرارت ، درد و تپش اور اس سے بھی زیادہ ’’ایمان و ایقان‘‘ کی تعلیم دیتی ہے اور اسی حق و صداقت ، ایمان وایقان سے انسان کو اپنی پیدائش کا مقصد سمجھ میں آجاتا ہے ۔ اقبال کے تخلیقی سفر کو تین حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے ۔ (۱) وطن پرستی (۲) اسلامی شاعری (۳) انقلابی شاعری ۔
اقبال کا کہنا تھا کہ انھیں شاعری سے کچھ سروکار نہیں ۔ ان کا مقصد شعرو سخن نہیں بلکہ یہ ایک ذریعہ ہے اسرار و رموز کو بے نقاب کرنے کا ۔ ان کے اس شعر سے ان کا مطلب واضح ہوتا ہے ۔

مری نوائے پریشان کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ
بقول ڈاکٹر عقیل ہاشمی ، اقبال کی شاعری نعرہ رندانہ نہیں بلکہ اس کا مقصد ان کا فلسفہ ، ان کا تصوف ، ان کا آرٹ سب ایک مقصد کے تابع ہیں ۔ اور وہ مقصد اسلامی تعلیم کی اشاعت ، قرآن ، اصولوں کی ترویج اور حقیقی اسلامی طرز معاشرت سکھانا ہے‘‘ ۔ انھوں نے اسلام کی روح اور حقیقت سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو واقف کرانے کی ہر ممکنہ کوشش کی ۔ اس کے لئے انھوں نے مشرق و مغرب ہر دو نظام تعلیم سے استفادہ کیا لیکن بعد میں مشرق نے ان کو اپنی طرف کھینچ لیا ۔ مذہب ، فلسفہ ، تاریخ ،تمدن اور دیگر علوم حاصل کرنے کے بعد بھی ان کی روح بے چین رہی جس تسکین کی انھیں تلاش تھی اور جس حقیقت کی جستجو تھی وہ انھیں قرآن حکیم میں مل گئی ۔ وہ مسلسل قرآن مجید پڑھتے اور نئے نئے علوم سے بہرہ ور ہوتے رہتے اور نئے عزم و حوصلے کے ساتھ علم و عمل کی قوت حاصل کرتے گئے ۔ اب ان کی فکر میں بلندی اور ایمان میں ترقی ہوتی گئی ۔ وہ دوسروں کو بھی اس کا مشورہ دیتے رہتے ۔ ان کا یہ شعر اس بات کی غمازی کرتا ہے ۔

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جرأت کردار
اقبال ایمان کی اس منزل پر پہنچ چکے تھے کہ انھیں یقین کامل ہوگیا کہ قرآن ہی وہ جامع صحیفہ آسمانی ہے جو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے حرف آخر ہے ، قرآن ہی زندہ جاوید کتاب ہے جو انسان کو ابدی علم اور ابدی سکون و سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے ۔ انھوں نے خداوند عالم سے دعا مانگی کہ ’’میرا نور بصیرت عام کردے‘‘ انھوں نے اپنے کلام میں درس قرآنی دیا ۔ دین اسلام کی تعلیم ان کی رگ و پے میں رچ بس گئی تھی ۔ وہ اعمال کے ساتھ عقائد اور اقدار کی اصلاح ضروری سمجھتے تھے ۔ اس کے لئے عشق خدا اور عشق رسولؐ میں ڈوب جانا ہی واحد ذریعہ ہے ۔ ان کے پاس مرد مومن کا ذکر بارہا آتا ہے ۔ ان کے نزدیک مرد مومن کا مطلب انسان کامل ہے جو اخلاق کا بہترین نمونہ ہو ۔ انھوں نے کبھی قوم ، رنگ ، نسل اور تہذیب میں فرق نہیں کیا ۔ وہ بکھرے ہوئے دانوں کو ایک دھاگے میں پرونے کی کوشش میں لگے رہے ۔ انھوں نے اسلامی نکتہ نظر سے انسانی اخلاق و کردار کی شائستگی کے مدنظر قلب و دماغ اور روح تینوں کی تربیت کے لئے یقین محکم ، ایمان و ایقان ، تزکیہ نفس ، صبر و قناعت ، جودو سخا ، عشق الہی اور عشق رسولؐ کا سبق بڑے موثر انداز میں دیا ۔ اقبال اجتماعی زندگی کو اہم سمجھتے تھے ۔انکا کہنا ہے ۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں ، اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اقبال کے متعلق میں نے تو کچھ بھی نہیں لکھا ، ان کا فلسفہ حیات کا کینوس اس قدر وسیع ہے کہ ایک مضمون میں بھلا کہاں اس کی تفصیل سما سکتی ہے ۔ دانشورانِ علم ادب کتابیں لکھتے جارہے ہیں اور پھر بھی تشفی نہیں ہورہی ہے ۔ اقبال کی فارسی شاعری کے بارے میں اتنا ہی لکھ سکتی ہوں کہ ’’اسرار خودی‘‘ نقطہ آغاز تھا اور ’’ارمغان حجاز‘‘ اقبال کی ساری فکری زندگی کو سمیٹنے والی روداد اور ’’جاوید نامہ‘‘ افکار کی معراج ہے تو ارمغان حجاز اس معراج فکر کی وہ تجلی ہے جہاں اقبال عشق رسالت مآبؐ کی تکمیل کی آرزو سے سرشار ہیں ۔