رحمن جامی
شعر و ادب کے میدان میں کئی ایسی مثالیں ہیں کہ میری دوستی باپ سے بھی اور بیٹے سے بھی کم وبیش برابر برابر کی تھی ۔ مثال کے طور پر جناب عبدالمعطی اور ان کے فرزند مصحف اقبال توصیفی ۔ ولد اور والد دونوں میرے ہم محلہ تھے ۔ مراد نگر میں ہم لوگ رہائش پذیر تھے ۔ معطی صاحب کو تاش کھیلنے کا بڑا شوق تھا ۔ ہماری نشستیں اکثر معطی صاحب کے دیوان خانے میں ہوتیں ۔میں اگر معطی صاحب کے ساتھ ہوتا تو ان کے فرزند مصحف اقبال توصیفی مجھ سے لاتعلقی کا اظہار کرتے اور اگر میں فرزند کے ساتھ ہوتا تو ان کے والد معطی صاحب مجھ سے انجان بنے رہتے ۔ میری باپ بیٹے کے ساتھ یکساں دوستی کی کئی اور مثالیں بھی ہیں ،جن کا تعلق شعر و ادب سے برائے نام رہا ہے ۔ لیکن جن کا شعر و ادب سے بڑا گہرا ہے ایک اہم مثال ، میری باپ بیٹے سے یکساں دوستی کی جس کا تعلق اس caricature سے ہے ، وہ ہے محترم و مکرم شاعر علامہ معز ملتانی اور ان کے بڑے فرزند مصلح الدین سعدی کی ۔ میرے دوست سعدی صاحب جو شعر و ادب میں اسلامی فکر کے حامل تھے (جو بعد میں ماہر اقبالیات کہلائے) اس وقت جماعت اسلامی کا ادبی محاذ سنبھالے ہوئے تھے۔ گوشہ محل کے دفتر میں ادبی و شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں ۔ ان میں میری شرکت اس لئے ضروری اور ناگزیر قرار پاتی تھی کہ میرے بڑے بھائی قاری محمد عبدالعلیم کو یہ ڈر تھا کہ اگر میں کامریڈوں کی صحبت میں رہوں گا (یعنی کامریڈ برق یوسفی وغیرہ جو اکثر میرے گھر آیا کرتے تھے) تو کہیں بے دین نہ ہوجاؤں ۔ چنانچہ ان کی ایما پر مرادنگر کے میرے ہم محلہ دوست ابوالفہم وحید علی خان (جو بعد میں بچوں کیلئے ایک مستقل پرچہ بھی نکالا اور کئی کتابیں لکھیں) میرے گھر آکر بالاصرار مجھے ادارہ ادب اسلامی کے جلسوں میں لے جایا کرتے ۔
ادارہ ادب اسلامی کی ادبی و شعری نشستیں مراد نگر میں بھی شریف صاحب (ماہر ریاضیات) کے گھر پر ہوا کرتی تھیں جن میں خصوصیت سے محمود انجینئر نظام شہری (جو اب لندن کے شہری ہیں) شجاع شرفی اور ان کے تینوں بڑے بھائی رحیم بھائی جو ٹیچر ہیں ان سے بڑے شفیع بھائی (محکمہ برقی) اور ان سے بھی بڑے رفیع بھائی انجینئر ان کے علاوہ شریف صاحب (جن کے گھر پر یہ نشستیں ہوتی تھیں) کے چھوٹے بھائی جن کا نام ضمیرالدین تھا جو بی ای کرکے غالباً امریکہ چلے گئے، پھر نہیں لوٹے برابر شریف رہا کرتے ۔ مذکورہ سارے ہی اصحاب ادارہ ادب اسلامی سے وابستہ تھے اور ان دونوں مقامات یعنی مرادنگر اور گوشہ محل کے جلسوں میں جناب مصلح الدین سعدی کا کلیدی رول ہوا کرتا تھا ۔یہ دور میرے عنفوان شباب کا دور تھا ۔ میں یار جامی کے نام سے رومانی نظمیں لکھتا تھا اور سارے ہند و پاک کے رسائل میں چھپا کرتا تھا ۔ میرا تعلق کٹر دینی گھرانے سے تھا ۔ میرے بڑے بھائی قاری محمد عبدالعلیم اور ان کے منہ چڑھے شاگردوں سے دیوان خانہ ہمیشہ بھرا رہتا تھا اور میں بھیا کی قرأت اور مذہبی بزم آرائیوں سے دور بھاگا کرتا تھا ۔ دور بھاگنے کی وجہ تھی میری شاعری سے انکا اختلاف ۔ ایک اور بات بھی یاد دلادوں کہ میرے بھائی کو میرے ادبی نام ’’یار جامی‘‘ سے بھی اختلاف تھا ۔ یار جامی سے رحمن جامی محترم محبوب حسین جگر کے مخلصانہ مشورہ پر ہوا۔
دراصل مصلح الدین سعدی سے میری دوستی اسی یار جامی والے دور سے شروع ہوئی اور مرتے دم تک قائم رہی ۔
دراصل یہاں میرے کیری کیچر کا موضوع علامہ معز ملتانی ہے ،لہذا میں نے علامہ معز کے تعلق سے جو معلومات مختلف ذرائع سے جمع کی ہیں وہ یہ ہیں ۔ علامہ معز الدین ملتانی کے والد حضرت مولانا معین الدین عربی و فارسی کے جید عالم تھے اور بلاشبہ قرآن کی تفسیر ،علم حدیث اور تصوف میں غیر معمولی دستگاہ رکھتے تھے گویا عالم باعمل تھے ۔
علامہ معین الدین کے جملہ تین لڑکے تھے۔ سب سے بڑے فرزند ہمارے سید معز الدین المعروف بہ معز ملتانی تھے جو یہاں ہمارا اصل موضوع ہیں ۔ علامہ معز الدین کے بارے میں تحقیق سے پتہ چلا کہ ان کی پیدائش 24 شعبان 1322 ھ مطابق 24 اکتوبر 1905 ء بروز منگل حیدرآباد میں ہوئی ۔ چونکہ علامہ معز کے آباء کا سلسلہ رشد و ہدایات سے معمور تھا ،اس لئے روز و شب گھر کی فضا تصوف و عرفانیات کی بحث و مباحث سے گونجتی رہتی تھی ۔ دوران تحقیق اس بات کا بھی علم ہوا کہ معز ملتانی صاحب کے والد نے بطور خاص اپنے بڑے فرزند حضرت معز ملتانی کو عربی ، فارسی ،تفسیر ، حدیث ،تصوف و عرفان مذہب سے کماحقہ روشناس کرایا تھا ۔ اور ساتھ ہی ساتھ انگریزی تعلیم سے بھی نابلد نہ رکھا ۔ معلوم ہوا کہ علامہ معز سے 1921-22 کے دوران ہی یعنی سولہ سال کی عمر میں ہی ان سارے علوم پر دسترس حاصل کرلی تھی ۔ اس کے علاوہ جامعہ نظامیہ (حیدرآباد کی مشہور عالم دینی درسگاہ) سے مولوی کامل کا امتحان کامیاب کرلیا ۔ دینی علوم سے ہٹ کردنیاوی علوم کی ڈگریاں بھی لیں یعنی جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ایم اے بھی امتیاز کے ساتھ حاصل کیں ۔
مشہور محقق و نقاد بانی ایوان اردو و بانی ادارہ ادبیات اردو ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ جو بعد میں کشمیر یونیورسٹی میں ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ آف اردو کے ذمہ دار عہدہ سے ریٹائر ہوئے مولانا معز ملتانی کے ہم جماعت تھے ۔ مولانا معز کے اساتذہ مولوی عبدالحق تھے جن کو بابائے اردو کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ ان کے ساتھ ہی سجا مرزا اور وحید الدین سلیم تھے ۔
مولانا معز کے گھر کا ماحول اگرچہ کٹر مذہبی تھا اس کے باوجود ان کا میلان فطری طور پر موسیقی سے بے حد قریب تھا ، لہذا مولانا معز ملتانی نے نہ صرف موسیقی کی تعلیم حاصل کی ، بلکہ اس فن میں ملکہ بھی حاصل کیا ۔ موسیقی سے ان کی گہری دلچسپی کا سبب اس وقت کے شاہی حیدرآباد کے ادبی اور فنون لطیفہ کی شاہی سرپرستی کو کہا جاتا ہے ۔ جبکہ ریاست حیدرآباد کا سارا ماحول نہایت پرامن ہوا کرتا تھا ۔ نہ چوری ہوتی تھی ، نہ کہیں ڈکیتی ، نہ مار کاٹ ، نہ خون خرابہ ، ریاست حیدرآباد کی رعایا نہ صرف خوش حال تھی بلکہ مسرور و مطمئن زندگی گزارتی تھی ۔ پولیس کے محکمہ میں سپاہی اور پولیس عہدہ دار تھانوں میں بقول کسے مکھیاں مارا کرتے تھے ۔ راوی ہر طرف چین لکھتا تھا ۔ ہر طرف عیش و عشرت کا ماحول تھا ۔ ایسے میں مولانا معز ملتانی کا گھرانا کٹر دینی تھا ،جس پر خانقاہی اثرات زیادہ حاوی تھے ۔ خانقاہوں میں جہاں تصوف کی محفلیں سجتیں وہیں موسیقی یا سماع یا قوالیوں کی بزم آرائیاں بھی ہوتیں ۔ ان محفلوں کا پرجوش نوجوان معز ملتانی پر خاص اثر پڑا ،چنانچہ اسی اثر کے تحت نوجوان معز نے فن موسیقی میں صوتی موسیقی اور ستار نوازی میں خاص ملکہ حاصل کیا ۔ اس کے علاوہ معز ملتانی ایک فطری شاعر بھی تھے ۔ شاعری اور موسیقی کے ملاپ نے آگ پر تیل کا کام کیا ۔ ان کی شہرت جوانی ہی میں چار دانگ عالم میں پھیل چکی تھی ۔
مولانا معز ملتانی سے جب بھی شرف ملاقات حاصل ہوتا ،انکی کوئی نہ کوئی پوشیدہ صلاحیت کا انکشاف ضرور ہوتا ،جن کا اجمالی ذکر اوپر ہوچکا ہے ۔ اب ان کے تبحر علمی کے بارے میں جو معلومات مجھے مشہور شاعر و صحافی جناب خواجہ مصطفی علی صوفی سے حاصل ہوئیں وہ ملاحظہ فرمائیں ۔ صوفی صاحب نے بتایا کہ حضرت معز ملتانی کا انداز تعلیم و تفہیم بالکل منفرد اور انقلابی نوعیت کا حامل تھا ،جو طالبان حق کیلئے سلوک طے کرنے میں ممد ومعاون ہوتا تھا اس طرح مقصد تخلیق انسانی کی تکمیل کی راہ ہموار ہوتی تھی ۔ حضرت معز ملتانی کی مختصر ،لیکن جامع ارشادات بھی گویا معنویت کا بحر عمیق ہوتے تھے ۔ احسن کما احسن اللہ الیک کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ کس طرح ممکن ہے کہ بندہ اللہ کے مثل احسان کرے پھر اس گتھی کو سلجھاتے ہوئے فرماتے کہ اس آیت میں نکتہ یہ ہے کہ ہر طرف ظاہر و موجود رہنے کے باوجود اللہ تعالی نے خود چھپ کر تجھ کو ظاہر کیا ہے ۔ اب تو چھپ کر اس کو ظاہر کر یعنی تو فنا فی الحق ہوجا پھر ’’جو ہے سو ہے‘‘ ۔
حضرت معز ملتانی کے چہیتوں میں خواجہ مصطفی علی صوفی کا بڑا منفرد اور خاص مقام ہے ۔ وہ آگے یوں وضاحت کرتے ہیں کہ الغرض نظم ہو یا نثر عرفانی مفاہیم کے اظہار میں علامہ معز ملتانی کی مثال انکے عہد میں مشکل ہی سے ملتی ہے ۔ صوفی صاحب ایک مشاعرے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مشاعرے میں طرح دی گئی تھی ؎ ’’اک زمانہ ہوگیا سیر گلستاں چھوڑ کر‘‘ ۔ معاصرین کا خیال تھا کہ ردیف بڑی امتحانی ہے ۔ حضرت معز نے طبع آزمائی فرمائی ۔ مطلع ہی پر محفل کی جو حالت ہوئی اس کے لئے الفاظ نہیں ملتے مطلع ملاحظہ ہو
’’ہم تو کیا جاتے حدود بزم امکاں چھوڑ کر
آپ دکھلادیں ذرا قرب رگِ جاں چھوڑکر
سامعین پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ کلام شاعر بزبان شاعر کے حقیقی معنی کیا ہوتے ہیں ۔ ایک نعتیہ مشاعرے میں حضرت کے ان اشعار پر سامعین کی جو کیفیت تھی وہ بیان سے باہر تھی ۔ اشعار یوں تھے۔
یہ جی میں ہے کہ مدح محمد سناؤں میں
ٹھہرو خدا سے لوح و قلم مانگ لاؤں میں
معراج ہی کے راز سے ملتی ہے میری بات
کیا تم یہاں نہیں ہو جو طیبہ کو آؤں میں
ایسا محسوس ہوتا ہے بفضلہ تعالی اور بہ وسیلہ رحمت عالمﷺ حضرت معز ملتانی کا فیضان آج بھی جاری ہے اور طالبان حق اس سے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ آخر میں علامہ معز ملتانی کے وہ اشعار ملاحظہ کیجئے جن میں معرفت کا کوئی نہ کوئی نکتہ پوشیدہ ہے ۔
تو وہ واجب کہ ہر ممکن تری ہستی کا پردہ ہے
تو وہ حاجِب کہ ہر پردے سے ظاہر تیرا جلوہ ہے
تو رہ کر پاس ذوقِ جستجو دیتا ہے طالب کو
یدبیضا بغل میں پھر بھی موسیٰ کو تمنا ہے
حجابِ حسن سے تیرے ہوئے یہ حادثے برپا
کہ یوسف آج بھی معصوم ہے رسوا زلیخا ہے
غلافِ کعبہ کو دیکھا تو یہ ظاہر ہوا مجھ پر
کہ کعبہ خود تری موجودیت پر ایک پردہ ہے
معز صاحب نہ سمجھے خود کو کیا سمجھو گے خالق کو
جو غرقِ بحر عرفاں ہے وہ ابھرے گا نہ ابھرا ہے
ساتھ ہی دو نعتیہ مقطعے بھی ملاحظہ ہوں
اس دامن رحمت کا صدقہ تقدیرِ معزؔ بن کر چمکا
انوارِ محمد سے بڑھ کر مرقد میں اجالا کیا ہوگا
ہے سب کو معزؔ امیدِ کرم اس دامنِ رحمت سے ہردم
لیکن وہ جسے اپنا کہدیں اس شخص کی قسمت کیا کہئے