علامہ سید ظہور الحق مظاہریؒ

نذیر نادر
جنوبی ہند کے معروف عالم مفسرا لقرآن الحکیم حضرت علامہ سید ظہور الحق حسینی مظاہریؒ (فرزند و خلیفہ حضرت علامہ سید عزیز علی حسینی قاسمی قبلہؒ) ساکن مراد نگر حیدرآباد 29 اکتوبر 2014 ء بروز چہارشنبہ رات 11.45 بجے مہدی پٹنم چوراہے پر ایک پرخطر حادثہ کے بعد رحلت فرماگئے، جس کے ساتھ ہی قدردانوں پر ایک بجلی سی ٹوٹ پڑی ، مولانا محترم کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو لڑکے (سید اظہار الحق عرفان حسینی اور مولانا سید حامد الحق مجتبیٰ حسینی القاسمی) اور دو لڑکیاں ہیں، مولانا محترم غیر معمولی استعداد کے حامل ، خوش مزاج، راست گو، معاملہ فہم ، نکتہ رس اور اسلامی افکار ، اطوار اور اقدار کا آئینہ تھے، آپ نے شہر کے مشہور مدارس اسلامیہ میں پوری تن دہی سے تدریسی خدمات انجام دیں، جن میں قابل ذکر جامعہ سبیل السلام بارکس اور المدرسۃ الدینیہ احیاء العلوم ٹپہ چبوترہ (کاروان) بھی ہیں ۔ آپؒ کی چالیس سالہ عملی زندگی میں شہر کی متعدد مساجد کی خطابت بھی تفویض رہی، دمِ واپسیں مسجد قادریہ مراد نگر کے خطیب تھے۔ آپؒ کی اردو تقاریر نہایت عام فہم ، زود اثر، مواد سے بھرپور اور مرتب ہوتی تھیں اور آپؒ کے عربی خطبات دینی تزک و احتشام سے معمور ہوتے تھے ۔ اللہ رب العزت نے آ پؒ کو کلام مجید کی ترجمانی اور تفسیر کا ملکہ بخشا تھا، مجمع کی سطح لیاقت کے لحاظ سے افہام و تفہیم فرماتے تھے، آپ کے گھر تفسیر کا نورانی سلسلہ جاری تھا، رمضان کریم کے مبارک مہینے میں پندرہ روزہ تفسیری دور مکمل کرتے تھے، دینی و علمی اجتماعات میں آپؒ کی جلوہ افروزی اور وعظ و موعظت سے ماحول روشن ہوجاتا تھا، ایک موڑ پر راقم الحروف نے اس بات کا ارادہ ظاہر کیا تھا کہ آپؒ کی ریکارڈ کردہ تفسیر ، کتابی شکل میں منظر عام پر آجائے تو بہت کارآمد ہوگی اور افادۂ عام ہوگا ، تو مولانا نے فرمایا تھا کہ اس کے بجائے ہر ربع پارہ سے چند آیات جو عقائد ، اعمال ، معاملات اور آخرت وغیرہ سے متعلق ہوں، منتخب کر کے کوئی کتاب ترتیب دو، جو (سوا پارہ) نمازِ تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد سنائی جائے،

یہ زیادہ مناسب رہے گا (راقم الحروف کو یہ تجویز بے حد پسند آئی ، انشاء اللہ مستقبل میں اس کی تکمیل ہوگی) مولانا محترم عالم اسلام کے بزرگ شیخ الحدیث الشریف حضرت علامہ الشیخ یونس قبلہ مدظلہ العالی اور حضرت علامہ محمد اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے خصوصی شاگردوں میں سے تھے ، خود مولانا محترم بھی کثیر التلامذہ اور وسیع الحلقہ تھے، فکر و نظر کے قد آور معمار تھے ، ہر شعبۂ زندگی میں مذہبی فوقیت کے نقیب تھے ، ریاستی ، ملکی حتیٰ کہ عالمی نشیب و فراز پر بھی مولانا کی دقیق نگاہ تھی، نسل نو کے ذوق اور مستقبل کی ضرورتوں کو خوب سمجھتے ہوئے ایک ذاتی انگریزی روزنامے کے خواہاں تھے کہ جس کے ذریعہ دین فطرت کی صحیح ترجمانی کی جاسکے، اگرچہ کہ وہ شاعر نہیں تھے مگر شاعری کا پاکیزہ ذہن رکھتے تھے، مولانا محترم ، مردم شناس اور سخی دل تھے، فیاضی آپؒ کی فطرت میں تھی، ’’الدّین یسر‘‘ والی حدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے ملت بیضاء کی رہنمائی فرماتے تھے، غلو اور شدت کو ناپسند کرتے تھے ، امکان کی آخری حد تک دینی علوم و معارف سے مانوس کرنے کی سعی کرتے تھے، دینی خدمتگاروں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے، آپ کی شخصیت کا ایک یہ پہلو بھی تھا کہ آپ ایک کہنہ مشق خطاط بھی تھے، استاد الکاتبین جناب سلام خوشنویسؒمرحوم اور انیس الخطاط محمد ضمیر الدین خدری نظامی سے بھی آپؒ نے اکتساب فن کیا تھا، عربی ، فارسی ، اردو اور انگریزی فن کتابت میں زبردست مہارت رکھتے تھے۔ خصوصاً ثلث ، نسخ ، نستعلیق(لاہوری اور لکھنوی) خطوط میں بد طولیٰ رکھتے تھے۔ راقم کے بار بار فنی نمونوں کے استفسار پر فرمایا تھا کہ آج سے تیس سال پہلے شہر میں ایک عظیم الشان پیمانے پر ایک دینی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں ہزاروں مرد و خواتین نے شرکت کی تھی

اس کیلئے مجھے ہزاروں میٹر کی کپڑے کی تھان پر گیارہ انچ برش سے آیات قرآنی رقم کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا ( یہ محض فضل الٰہی سے ہوا) کمپیوٹر کی ایجاد سے پہلے مولانا روزنامہ سیاست اور روزنامہ رہنمائے دکن کے شعبہ کتابت سے بھی وابستہ تھے، نئی پیڑھی کیلئے آپ نے خوش نویسی کی ایک نئی صنف نکالی جس میں نہ برش کی ضرورت ہے نہ بروقلم کی احتیاج بلکہ کوئی بھی پنسل ، ایک پین ، بال پین اور جیل پین سے تحریر کی تمرین ہوتی ہے، جس کی اچھی سی مشق کے بعد قلمکار کی انگلیوں میں گرفت آجاتی ہے اور جو بھی ذہن میں ہوتا ہے وہی آناً فاناً نقش قرطاس ہوجاتا ہے کہ ہر حرف اپنی نشست پر براجمان ہوجاتا ہے ۔ مولانا محترم ایک سریع الفہم کتبہ شناس بھی تھے ، عبارت کتنی ہی گنجلک اور پیچیدہ کیوں نہ ہو جب وہ فرفر پڑھتے تھے تو عقلیں دنگ رہ جاتی تھیں۔ مولانا محترم نے کئی سمتوں سے علم و فن کے پیاسوں کو سیراب فرمایا اور شہر و بیرون میں ان گنت بندگانِ خدا آپؒ سے مستفید ہوئے پھر ناگہاں وہ گھڑی آئی کہ متعلقین ، محبین اور معتقدین نے بادیدۂ نم (62 برس سے) مسلسل جلتے اس چراغ کو گل ہوتے دیکھا (حق مغفرت فرمائے اور درجے بڑھائے ۔ آمین) شاید ایسوں کے بارے میں ہی علامہ فاصلؒ نے کہا تھا کہ
فاضل جفا کشانِ محبت کی موت کیا ؟
جب تھک گئے تو سو گئے آرام کیلئے