سید محمود خاور
ملکوں ، قوموں اور تہذیبوں کے مطالعے و مشاہدے سے یہ ثابت ہے کہ تاریخ عالم میں وہی قومیں زندہ تابندہ اور قائم و دائم ہیں جنھوں نے نظام فطرت کو سمجھا ، اس کے اصولوں کو انایا ، انسانیت کو فروغ اور احترام انسانیت کو ترجیح دی ۔ جن اقوام نے ان اصولوں سے اختلاف وانحراف کیا وہ تباہ وبرباد ہوگئیں ۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ معاشرتی ، تہذیبی ، اخلاقی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنی ذات اور ذاتی صفات و اوصاف کو نکھارنا ، سنوارنا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ہر ترقی کھوکھلی ،غیر پائیدار اور بے معنی ہے ۔ انسانیت کے فروغ ، خودداری ، انا اور حمیت کے فروغ کے سلسلے میں دنیا کے بیشتر مشاہیر ،مفکرین ، فلسفی اور اکابرین اپنے اپنے طور پر کوشش کرچکے ہیں ۔ مشرق کی بہ نسبت مغربی معاشرہ زیادہ ترقی یافتہ اور سہولتوں والا ہونے کے سبب وہاں اس ضمن میں خاصا کام برسہا برس سے جاری ہے لیکن چونکہ مغربی دنیا کے لوگ جذبہ ایمانی اور حرارت ایمانی سے عاری ہیں اس لئے ان کی کوششوں اور جذبوں میں وہ صلاحیت ،طاقت اور دلکشی پیدا نہ ہوسکی جو ہمیں اہل مشرق کے نظریات و خیالات میں ملتی ہے ۔
علامہ اقبال برصغیر کے عظیم ترین اور عصری احساس والے ایسے مفکر فلسفی اور مبلغ ہیں جن کی نظریں مسلمانوں کے تابناک ماضی ، حال اور مستقبل پر یکساں تھیں اور انھوں نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ دنیاوی مادی ترقیوں کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی ذات ، صلاحیت ،صفات اور راز حیات سے بھی بخوبی آشنا رہے ۔ اگر مسلمان خود کو پہچان لے تو انا ، خودداری اور غیرت و حمایت کی کامل حفاظت کرے ،شریعت محمدی کی پیروی کرے ، احکام خداوندی کی تابعداری کے ساتھ سوز یقین اور حرارت ایمانی کو فروغ دے تو نہ صرف انسانی معاشرے کو ہر قسم کی لعنتوں اور برائیوں سے پاک کرسکتا ہے بلکہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو نیکی ، سچائی ،خداشناسی اور اخلاق عالیہ کی لازوال روشنی بھی دے سکتا ہے ۔
علامہ اقبال نے اپنے نظریہ فوق البشر میں خودی اور فلسفہ کے سربستہ رازوں کو واشگاف کرتے ہوئے ان کی تشریح کی ہے ۔ انسان خودی کے بغیر ایسا ہی ہے جیسے بے روح بدن ، خودی انسان کو حیا ، انا اور آب ہے جو اتر جائے یا ختم ہوجائے تو اس میں کچھ نہیں رہتا ۔ خودی کے ذریعے انسان نہ صرف اپنی ذات و صفات کو پہچانتا ہے بلکہ معبود حقیقی کو بھی پہچان کر اس کے قرب اور رضا کیلئے کوشاں رہتا ہے ۔ بددیانتی خود غرضی ،بدعنوانی اور نفس پرستی کو ترک کرکے بنی نوع انسان کی خدمت ، اللہ تعالی کی خوشنودی اور اتباع سنت رسول اللہ کو ترجیح دیتا ہے ۔ اقبال کے بموجب ہر انسان میں عظمت و بزرگی کے پیدائشی جوہر موجود ہوتے ہیں جنہیں پہچان کر وہ انہیں فروغ دیتا ہے اور جو لاعلم رہتا ہے وہ تہی دست و تہی دامن رہتا ہے ۔
جو لوگ اپنے اس وصف کو پہچان لیتے ہیں وہ بے مثال منارہ نور بن جاتے ہیں ، خدمت انسانیت اور بہبود انسانیت کے فرائض انجام دیتے ہوئے بڑے بڑے کام کرجاتے ہیں ۔ اقبال کے نزدیک خود شناسی اور فروغ حودی کے لئے ضروری نہیں کہ انسان مسلمان ہی ہو کیونکہ یہ عمل اہل یوروپ میں بھی موجود ہے اور وہاں بھی عظیم انسان پیدا ہوئے ہیں اور ان لوگوں نے تعلیمات اسلامی سے استفادہ کیا اور روح ایمانی کو سمجھا تھا گویا یہ ثابت ہوا کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو بنی نوع انسان کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا کرتا ہے ۔ اقبال یوروپ کی ایسی شخصیات کو ’’سپرمین‘‘ قرار دیتے ہیں جو کہ اقبال ہی کے ’’مرد مومن‘‘ کا دوسرا عکس ہیں ۔ اقبال کا نظریہ فوق البشر دراصل انسان کی خودی کے فروغ کی بات ہے جو قرب الہی بخشتی اور کائنات کے راز منکشف کراتے ہوئے انسان کو بلند و ارفع درجات عطا کرتی ہے اور یوں رفتہ رفتہ انسان ’’اشرف المخلوق‘‘ کا حقیقی نمائندہ بن جاتا ہے ۔ اقبال کے ’’مرد مومن اور شاہین‘‘ میں یہی صفات ہیں ۔ سوز و جذبہ ایمانی کے حصول سے مومن ایک بلند مقام اور درجے پر پہنچ جاتا اور اس پر ایک ایسا وقت آجاتا ہے کہ وہ قدرت کی تفسیر بن جاتا ہے ۔ اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر حرف اسم اعظم بن جاتا ہے ، اس کا ہاتھ اور زبان اللہ کی زبان بن جاتی ہے ۔
ہاتھ سے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کارآفرین کارکشا، کارساز ، مرد مومن صرف اللہ کا نمائندہ ہی نہیں بلکہ نیکی ، بہبود و سلامتی کا پیامی بھی ہوتا ہے ۔ مرد مومن ہی انسانیت کے لئے نمونہ و مثال ہوتا ہے کیونکہ اس کا ہر کام و فعل رضائے الہی کے عین مطابق ہوتا ہے ۔
علامہ اقبال کے کلام کی گہرائی و گیرائی ، ہمہ گیری ، غیر خیالی ، شش جہتی پرواز فکر اور جامعیت کا کون ہے جو معترف نہیں ، افکار کے تنوع اور تصورات کی ثروت میں شاید ہی کوئی شاعر اقبال کے منصب ، مقام و مرتبے تک پہنچ سکے ۔ قدیم و جدید فلسفے اور استدلال ، مختلف تہذیبوں کے نظام حیات ، تمدنی قواعد و ضوابط ، انفرادی اور اجتماعی سلوک کے طور طریق ، اخلاقی اصول و سیاسی رجحانات کے اظہار ، زبانوں اور مذاہب کے مسائل ، اسلامی و غیر اسلامی تصوف کے جائزے وغیرہ جیسے جامع موضوعات اور خیالات کو اقبال نے شعری پیکر عطا کیا اور ان میں ایک نئی روح پھونک دی ۔
اقبال کے کلام کی فکری و ہئیتی ساخت کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ان کے ہال بھی بڑے بڑے عالمی مفکرین کی طرح چند بنیادی تصورات و نظریات کی تکرار ملتی ہے لیکن یہ تکرار ایسی لطیف اور روح افزا ہے جو قطعاً گراں نہیں گزرتی ۔ اقبال کا پسندیدہ موضوع تصوف اور نظریہ فوق البشر ہے جس کے باعث انھیں صوفی شاعر کہنا زیادہ مناسب ہے ۔
کلام اقبال کے مطالعے سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اکابر صوفیائے کرام خصوصاً مولانا روم ، شیخ محمد شوستری ،عراقی اور سید علی ہمدانی کی تصنیفات اور اسلامی تصوف کا اقبال نے گہرا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ان کے دل میں تصوف کا نہایت نکھرا ہوا ذوق ہوگیا ۔ وہ دیگر صوفیوں کی طرح اس بات کو قبول کرتے نظر آتے ہیں کہ خودی کے بعد بے خودی کا مقام ہے جسے صوفیا نے جدائی اور فناکا نام دیا ہے ۔