علاقائی پارٹیوں کے قومی خواب

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ حکومت اپنی مالیاتی خرابیوں اور مرکز کے سوتیلے پن کے باوجود گذشتہ چار سال سے پسندیدہ اسکیمات کو روبہ عمل لانے میں دن بہ دن دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہے ۔ غریب لڑکیوں کی شادی کے لیے اسکیم شروع کی گئی تھی جس کے تحت فی کس 50 ہزار روپئے رقم مقرر کی گئی ۔ گذشتہ 3 سال میں اس اسکیم کی رقم میں بتدریج اضافہ کیا گیا جس کے ساتھ ہی تلنگانہ حکومت کے وقار میں بھی بالواسطہ طور پر اضافہ ہی ہوا ۔ اب حکومت نے گذشتہ سال مقررہ 75,116 روپئے میں بڑھاکر 1,00,116 روپئے کردیا ہے ۔ اس ملک کی سب سے نوخیز ریاست نے جون 2014 میں 18 سال کی عمر والی لڑکیوں کی شادی کے اسباب فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا جو مسلسل کامیاب طریقہ سے جاری ہے ۔ حکومت ایک طرف اپنی اسکیمات کے لیے پیسوں کا بندوبست کررہی ہے تو دوسری طرف مرکز سے ملنے والے فنڈس جاری نہیں کئے جارہے ہیں ۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ دونوں کو یہی شکایت ہے کہ مرکزی حکومت نے ریاستوں کا ان کا حق دینے میں کوتاہی سے کام لیا ہے ۔ خسارہ سے دوچار ریاست تلنگانہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی زیر قیادت این ڈی اے حکومت سے تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے حصہ کا فنڈس ملنا باقی ہے ۔ مرکز کی جانب سے کسی بھی قسم کی خصوصی امداد نہ ملنے کی وجہ سے آندھرا کو مالیاتی سال 2017-18 میں 2,25,234 کروڑ روپئے کا خسارہ ہوا ہے اس لیے تلگو دیشم کے صدر اور چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو نے آندھرا پردیش کے لیے خصوصی موقف دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج شروع کیا ۔ اس احتجاج کے باوجود مرکز نے آندھرا کو اس کا حصہ نہیں دیا ۔ حکومت تلنگانہ نے بھی مرکزی بجٹ میں ریاست کے لیے خاص فنڈس فراہم نہ کرنے پر اظہار ناراضگی ظاہر کرنے کے باوجود مرکز سے اتحاد کو اپنی بقا کا ضامن سمجھ لیا ہے ۔ علاقائی پارٹی تلگو دیشم نے مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا تو اس موقع پر اپنے علاقائی جذبہ کا ثبوت دیتے ہوئے ٹی آر ایس کو بھی تحریک عدم اعتماد کے حق میں تائید کا اعلان کرنے کی ضرورت تھی مگر ایسا نہیں ہوا ۔ تلنگانہ حکومت کے سربراہ نے اپنے قومی عزائم کو بروئے کار لانے کے لیے تیسرے محاذ کی تشکیل پر محنت شروع کی ہے ایک طرف وہ مودی حکومت کی حمایت کررہے ہیں ، دوسری طرف غیر بی جے پی غیر کانگریس اتحاد بنانے کے لیے کام کررہے ہیں ۔ شاید وہ عوام کو احمق سمجھ کر دو کشتیوں میں سوار ہورہے ہیں ۔ ان کو یہ گمان ہوچلا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کریں گے اسے عوام پسند کریں گے اور وہ اپنی چالاکی سے عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اپنے دوہرے سیاسی معیار کو جاری رکھیں گے ۔ ان کی اس طرح کی حرکتوں سے عوام کا ان پر اب اعتبار اٹھتا جائے گا ، جانے کون کون سے کھیل عام انتخابات سے پہلے کھیلے جائیں ۔ کون کون سے سانپ پٹاری سے نکالے جائیں گے ۔ ملک کی سب سے بڑی قومی جماعت یا زعفرانی پارٹی پر انتخاب میں ہار و جیت کی بازی لگ جائے ، کیا معلوم چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیاں ہی قومی شان بن کر ابھر جائیں ، کیا معلوم اتحاد و فرنٹ کے نام پر کیا تماشے کئے جائیں ، کیا معلوم کے سی آر اور ممتا بنرجی مل کر اتحاد بنانے میں کامیاب یا ناکام ہوجائیں ، کیا معلوم چندرا بابو نائیڈو پھر ایک بار قومی سطح پر بادشاہ گر کا رول ادا کرنے لگیں ، کیا معلوم کیا ہوجائے لیکن آپ تمام کے ذہنوں میں ایک بات معلوم اور یاد رہنی چاہئے یعنی ملک کی فرقہ پرست تنظیمیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہیں اور کسی بھی حد تک یہ علاقائی پارٹیاں ان کے اشاروں پر کام کرسکتی ہیں ۔ سیکولر کا ڈھونگ رچانے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے کہ قومی عزائم کو تقویت دی جارہی ہے ۔ دوسری طرف پارلیمنٹ میں مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو پیش ہونے سے روکنے کے لیے ٹی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ مسلسل احتجاج کررہے ہیں ۔ 5 مارچ کو بجٹ سیشن کا آغاز ہوا ، ٹی آر ایس نے اس وقت یہ احتجاج شروع نہیں کیا جب تلگو دیشم نے تحریک عدم اعتماد پیش کیا تو ٹی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ کو تلنگانہ پسماندہ طبقات ، دلتوں اور اقلیتوں کے بارے میں احتجاج کرتے ہوئے نو ویں شیڈول میں شامل کرنے پر زور دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ بظاہر ٹی آر ایس کے ارکان آندھرا پردیش کے مطالبات کے ساتھ ہمدردی دکھا رہے ہیں ۔ وہ اپنی پڑوسی ریاست کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے ٹی آر ایس کو اپنے مطالبہ کی تکمیل کے لیے احتجاج جاری رکھنا ہے ۔ قومی پارٹی کے سایہ میں رہ کر اس کی مرضی پر کام کرنا ہی ٹی آر ایس کا منشا ہے تو پھر وہ تیسرے محاذ کے لیے ڈیرہ ڈالنے یا جال پھیلانے کی بھی کوشش قومی حکمران پارٹی کے اشاروں پر کرسکتی ہے ۔ پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد سے بچنے کی کوشش کرنے والی بی جے پی کی کوشش ایک سیاسی خود کشی کے مترادف کہی جارہی ہے ۔ بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت اپنی حلیف پارٹیوں کو استعمال کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو پیش کرنے ہی نہیں دے رہی ہے جب کہ کئی اپوزیشن پارٹیوں نے اس تحریک کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ پارلیمنٹ میں انا ڈی ایم کے اور ٹی آر ایس کے احتجاج کے باعث اس تحریک کو پیش نہیں کیا جاسکا تھا ۔ مرکزی حکومت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایوان کی کارروائی کو پر امن چلائے تاکہ عوام کے مسائل پر توجہ دی جاسکے لیکن حکومت نے ایسا ہونے نہیں دیا ۔ اسپیکر لوک سبھا نے ہی اپوزیشن کے احتجاج کے فوری بعد کارروائی ملتوی کرنے کی حکمت عملی پر عمل کیا ہے ۔ بی جے پی یہ سمجھ گئی ہے کہ اگر تلگو دیشم کے لیے پارلیمنٹ کو پرامن چلایا جائے تو کسی صورت میں اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہے ۔ وہ ہر صورت میں تحریک پیش کرنے نہیں دینا چاہتی ۔ تلگو دیشم بھی کل تک بی جے پی کی کٹر حامی پارٹی تھی مرکز میں چندرا بابو نائیڈو کا موقف مضبوط تھا مگر راتوں رات تلگو دیشم کے سربراہ کا یہ موقف تبدیل کس طرح اور کیوں ہوا یہ ایک سیاسی وجہ کا حصہ ہے ۔ دراصل 16 مارچ تک بھی تلگو دیشم قومی سطح پر این ڈی اے کا حصہ ہی تھی اور آخر تک بھی یہ گمان ہی نہیں تھا کہ وہ این ڈی اے سے علحدہ ہوجائے گی ۔ لیکن ایک ہی دن میں ایسا کیا ہوا کہ صدر تلگو دیشم چندرا بابو نائیڈو کو یہ قدم اٹھانا پڑا ۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات گشت ہورہی ہے کہ فلم اسٹار اور جناسینا پارٹی کے لیڈر پون کلیان نے آندھرا پردیش میں اپنے سیاسی عزائم کو مضبوط بنالیا ہے اور انہوں نے تلگودیشم حکومت کے علاوہ نائیڈو کے فرزند نارا لوکیش کے خلاف کرپشن کے سنگین الزامات عائد کئے ہیں ۔ بی جے پی نے بھی پون کلیان کی سرپرستی کرنے لگی ہے ۔ جیسے ہی چندرا بابو نائیڈو کو پتہ چلا کہ بی جے پی نے پون کلیان کو سیاسی سہارا دینے کا فیصلہ کیا ہے تو آندھرا پردیش کی سیاسی منظر ہی بدل گیا اور تلگو دیشم کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا ۔ نائیڈو کو شاید اس حقیقت کا اندازہ ہوچکا تھا کہ آئندہ عام انتخابات ان کے لیے مشکل ثابت ہوں گے ۔ لہذا فوری انہوں نے اپنا موقف بدل کر اپنے رائے دہندوں کے لیے ایک پیغام پیش کیا کہ انہوں نے آندھرا پردیش کے حق میں مرکزی حکومت کو چھوڑا ہے ۔ آندھرا پردیش کے حقوق کو داؤ پر لگانے کے لیے وہ تیار نہیں تھے ۔ اس لیے انہوں نے مرکز کی گھناؤنی سازش کو ناکام بنانے کے لیے یہ قدم اٹھایا ۔ سیاسی شخصیت پرستی کے اس ماحول میں بی جے پی نے بھی اپنے پینترے بدل کر آندھرا پردیش کی سیاست میں پون کلیان کو مہرہ بنانے کا ارادہ کرلیا ہے تو اس ہیرو کی حقیقت تو انتخابات کے بعد ہی کھل جائے گی ۔