عقلی بازآبادکاری

ڈاکٹر مجید خان
ماہرینِ اردو زبان کو یہ اصطلاح گراں گذرے گی مگر یہ میری مجبوری ہے۔ آخر میں COGNITIVE REMEDIATION کا ترجمہ کروں تو کس طرح کروں ۔ میں یہ ترکیب اپنے مریضوں کے لئے استعمال کرتا ہوں اور اس کا حیدرآبادی نمونے تیار بھی کرلیا ہوں ۔ مگر تعلیم یافتہ مریضوں اور ان کے سرپرستوں کو بھی سمجھانا آسان کام نہیں ہے ۔ اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ اچھے تعلیم یافتہ ماں باپ کا اکلوتا لڑکا اس لئے لایا جاتا ہیکہ اسکی تعلیمی حالت گررہی ہے ۔ جہاں پر وہ 80,90 کے درمیان نمبرات لایا کرتا تھا اب وہ 40,50 پر آچکا ہے ۔ میں نے جب لڑکے سے پوچھا کہ آپ کے گرتے ہوئے تعلیمی معیار پر کیا آپ کو پچھتاوا نہیں ہوتا ؟تو اس کا جواب صرف والدین کو خوش کرنے کے لئے تھا ۔ اس میں صداقت نہیں دکھائی دے رہی تھی ۔ گذشتہ ہفتے حیدرآبادکا ایک ہونہار لڑکا جس کو دہلی میں M.Tech میں داخلہ ملا تھا وہ ایرپورٹ کے ایکسپریس وے سے کود کر خودکشی کرلیا ۔ وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ والد کا اصرار تھا کہ وہ یہ کورس کرے ۔

اب اولاد اتنی حساس ہوتی جارہی ہے کہ معمولی ٹھیس کو وہ برداشت نہیں کرپارہی ہے ۔ خودکشی کے واقعات نوجوانوں میں عام ہورہے ہیں۔
لڑکے کے مزاج کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے میں نے والد کی ہی جرح شروع کردی ۔ دور سے ان ہی کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کیا ۔ ان کو بھی ان کی مرضی سے مریض نمبر 2 بنادیا ۔
واقعات یہ ہیں کہ اس لڑکے کو ایک مشہور انٹرنیشنل اسکول سے نکال کر دوسرے نامور انٹرنیشنل اسکول میں حال ہی میں شریک کرایا گیا ۔ وجہ یہ کہ دوسرا اسکول گھر سے نسبتاً قریب تھا ۔ان کی چھوٹی لڑکی کو بھی وہاں سے نکال لیا گیا ۔ بغیر احتجاج کے دونوں بچے والد کے اس فیصلے کو قبول کرلئے ۔ لڑکی کے تعلیمی معیار میں کوئی گراوٹ نہیں آئی مگر لڑکے کی پڑھائی میں دلچسپی کم ہوتی گئی ۔

یہ تو ایک متمول گھرانے کا واقعہ ہے ۔ عام لوگوں میں بھی میں یہ صورتحال دیکھتا ہوں کہ ہونہار لڑکے اور لڑکیاں ذہین ہونے کے باوجود نصابی تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے ۔ ایک بار کم نمبرملنے لگیں تو شرمندگی کی وجہ سے اسکول جانا بند کردیتے ہیں اور زندگی میں کمتر مقام پر ہی اکتفا کربیٹھے ہیں ۔ یہ انکی صلاحیتوں کی بربادی ہے مگر نوجوان یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہی ان کا معیار ہے اور پھر اس کے اطراف احساس کمتری ان پر غالب آنے لگتی ہے ۔ یہیں پر حساس اساتذہ ان کیفیات کو سمجھ سکتے ہیں اور ان بچوں کی صلاحیتوں کی بازآبادکاری کی جاسکتی ہے ۔ ہم مریضوں کیلئے جو ہوسکتا ہے وہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر وہ نقصان ہونے کے بعد یعنی بیماری کہنہ ہونے کے بعد ۔ اس سے قبل اس عمل کی حالات حاضرہ میں ضرورت ہے مگر سمجھنا شرط ہے ۔ آخر اس نتیجے پر کیسے پہنچے ۔ ہمیشہ سے ہم صحت کی اہمیت ، بیماریوں کی وجوہات اور علامات سے سمجھتے ہیں ۔ Schizophrenia جو خیالات اور حرکات و سکنات کا مرض ہے اس میں مریض آہستہ آہستہ اپنی عقلی صلاحیتوں سے معدوم ہوتا جاتا ہے ۔ اس کی ابتدائی علامتوں میں تعلیمی معیار میں گراوٹ اور علحدگی پسندی شامل ہیں ۔

عقلی بازآبادکاری کا مطلب عقلی صلاحیتوں کی بازآبادکاری ہے ۔ یعنی وہ تمام ذہنی صلاحیتیں جو مدھم پڑتی جارہی ہیں ان کو ایک بار پھر روشن کیا جائے ۔
گم سمی کی طرح لوگ اس کیفیت کو مدھم ہوجانا کہتے ہیں ۔ یعنی اپنی حاصل کی ہوئی عقل و فہم کی صلاحیتوں کو آہستہ آہستہ کھوجانا ۔ یہ صلاحیتیں کیا ہیں اس پر غور کیجئے ۔ عقلی بازآبادکاری کا کام ہے کہ ان سلگتے ہوئے شعلوں کو بجھنے نہ دینا ۔ یہ صلاحیتیں ہیں توجہ ، یادداشت ، گفتگو ، خیالات اور ان کے لئے استعمال کی ہوئی زبان جو عام طور پر مادری زبان ہی ہوا کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ عقل و فہم کا اپنی زندگی کو سنوارنے اور پروان چڑھنے کیلئے صحیح استعمال مثلاً زندگی کی منصوبہ بندی ، اپنی شخصیت کی کارکردگی کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہتا ، مسابقت کا احساس اور مسابقتی جذبہ ، گھریلو ، خاندانی اور سماجی ذمے داریوں کا احساس ۔ اپنے خیالات اور برتاؤ میں مناسبت ۔ دوسروں کے مطمح نظر کوسمجھنا ۔ بالفاظ دیگر یہ ایک علم وآگہی ہے جو عقل و فہم کے نئے دریافت شدہ معلومات کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ علم مشاہدے اور بصیرت کے دانستہ طور پر کئے ہوئے امتزاج کا نتیجہ ہے ۔ اس کے لئے مشق کی ضرورت ہے ۔ نفسیاتی علم میں ادراک اس کا ایک جز ہے۔ خالی دواؤں کے استعمال سے مکمل شفا ممکن نہیں ۔

اب میں اس عمل کی افادیت کو روزمرہ کے مسائل کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کروں گا ۔ Schizophrenia جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ۔ اس میں نوجوان اوپر بیان کی ہوئی صلاحیتوں سے محروم ہونے لگتے ہیں ۔ ایک بار یہ عقلی فوارے جو قدرتی ہوتے ہیں ،کمزور پڑتے جائیں تو ان کو پھر متحرک کرنا عملاً ممکن نہیں ہے ۔ مثلاً صاحبزادے کو آپ آرزوؤں اورارمانوں سے انجینئرنگ میں داخلہ دلواتے ہیں ، جو وہ چاہتے بھی ہیں ۔ چند دنوں بھی تعلیمی دلچسپی کم ہونے لگتی ہے ۔ اور مضامین میں فیل ہونے لگتے ہیں ۔ جس کو Back log کہا جاتا ہے ۔ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ حیلے حوالے اور منطقی یا غیر منطقی وجوہات سے اس کیفیت کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سب فضول ہے ۔ عقلی آبشار سوکھنے شروع ہورہے ہیں ۔
زندگی کے بہت اہم فیصلے اب ناگزیر ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت ماہر امراض نفسیات سے ضرور مشورہ کیجئے اور میرا قیاس صحیح ہے تو ان کو کسی اور معمولی کورس میں شریک کرایئے ۔ سالہا سال اس میں ناکام ہوتے رہنے سے معمولی مصروفیت بھی دماغی صحت کیلئے ضروری ہے ۔ اس کے لئے ان کی بچی کھچی ذہنی صلاحیتوں کو محفوظ رکھنا اور ان کا صحیح تصرف بے حد فیصلہ کن مسئلہ ہے ۔

مگر ہمارے ذہنوں پر دقیانوسی خیالات اتنے غالب ہیں کہ ہم معلومات کی نئی روشنی کو دیکھنے سے قاصر ہیں اور اسکے قائل بھی نہیں ہیں ۔
اس لاپروائی کی دوسری منزل ہے ایدی پن ، کاہلی اور کام سے کترانا۔ انجینئرنگ تو دور کی بات ہے چھوٹے بچوں کو پڑھانے کے بھی یہ لوگ نااہل ہوجاتے ہیں ۔ سب سے پہلے یہ سمجھا جاتا ہیکہ جوان لڑکا یا لڑکی ہے ۔ فطری طور پر اکیلا پن محسوس کررہے ہوں گے ۔ ساتھی اور صحبت کی ضرورت ہے ۔ شادی کردینے کے بعد سدھر جائیں گے ۔ بچے ہوجائیں گے تو زندگی سے بامعنی وابستگی شروع ہوجائے گی وغیرہ جیسے واہیات مشورے دئے جاتے ہیں ، مگر شادی کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے ۔ شادی ہو بھی جاتی ہے مگر سب سے دوری برقرار رہتی ہے ۔ نہ بچوں سے قربت ، نہ بیوی سے اور کمانے کی کوئی فکر نہیں ۔ اب بتایئے کہ کیا یہ شادی مناسب تھی ۔ اگر اس کی شادی نہ کرتے تو کیا ہوتا اس پر غور کیجئے ۔ اس کے بیوی بچوں کی ذمے داری والدین پر نہ پڑتی اور اس شخص کو تو آپ ناکارہ کر ہی دئے ،اب اس پر کسی قسم کا بوجھ ڈالنا عقلمندی نہیں ہے ۔
میرا ایک زرین مشورہ یہ ہے کہ وہ شخص جو کماتا نہیں ہے اس کی شادی اس وقت تک نہیں کرنی چاہئے ،جب تک وہ کوئی ملازمت میں مصروف نہ ہوجائے ۔ ترقی پسند ممالک میں لوگ اپنی کمائی سے شادی کرتے ہیں نہ کہ والدین کی بچائی ہوئی پونجی سے ۔
معمولی مصروفیات کیلئے بھی جب ان لوگوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے مثلاً رشتے داروں کے پاس جانا ،یا تفریحاً کہیں جانا یا Gym جانا تویہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کام جان پر آتے ہیں ۔
بہرحال اپنی نوجوان اولاد پر نظر رکھئے ۔ اپنی ذمے داری اساتذہ وغیرہ پر مت چھوڑئے ۔ جیسے ہی تعلیمی حالت گرنے لگے اس کو نظر انداز مت کیجئے ورنہ مرض ناقابل علاج ہو کر رہ جائے گا ۔