عظیم آفاقی شاعر فراق کی جمالیاتی کائنات

ڈاکٹر مسعود جعفری
انسان ابتدائے آفرینش ہی سے حسن و عشق کے جذبات کی پیکر تراشی کرتا رہا ہے ۔ فنون لطیفہ اس کا نگار خانہ رہے ہیں پتھروں کے غاروں کی تصویریں تصور جمال کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ موسیقی ، رقص ، سنگ تراشی ، مصوری اور شاعری میں عورت کے حسن و جمال کا جادو دکھائی دیتا ہے ۔ میر و غالب سے لے کر فراق تک عارض و لب اور قد و قامت کا سلسلہ ملتا ہے ۔ بقول شخصے
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہونچی تری جوانی تک
جس شاعر نے رومانی احساسات کی ترجمانی کی ، دل کی دھڑکنوں کو زبان عطا کی ، وہ کوئی اورنہیں رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری تھا جس نے اردو شاعری کے سرمایہ میں یہ رنگارنگ تصورات سے اضافہ کیا ۔ اس میں افلاطونیت کے بجائے ارضیت بھردی ۔ مجازی نہیں حقیقی باتیں کیں ۔ گنگ و جمن کے دھاروں کو اپنی غزلوں میں بہنے دیا ۔ حسن عجم کی نغمہ سرائی کی ۔ شاعری کی علمی سطح کو بلندکیا ۔ اس میں تفکر ،گہرائی و گیرائی پیدا کی ۔ اسے چیز دیگر است بنادیا ۔ اسی لئے ہم جب بھی اس کے شعر گنگناتے ہیں تو دل و دماغ تر و تازہ ہوجاتے ہیں ۔ ایک انجانی خوشبو سے مہک اٹھتے ہیں ۔ سماعتوں میں رس گھلنے لگتا ہے ۔ نطق زبان کے بوسے لینے لگتا ہے ۔ لاشعور کے تہہ خانے میں روشنی پھیل جاتی ہے ۔ روح ہولے ہولے وجد کرنی لگتی ہے ۔

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
اس شعر میں غضب کی کسک اور آنچ ہے ۔ لفظ سی سے جان نکلی جاتی ہے ۔ ایک اور تاثراتی لہر دیکھئے۔
تم نہیں آئے اور رات رہ گئی راہ دیکھتی
تاروں کی محلفیں بھی آج آنکھیں بچھا کے رہ گئیں
فراق کو پرانی یادیں ستاتی رہتی ہیں ۔ انہوں نے ان یادوں کو گرہ میں باندھ رکھا ہے ۔ انہیں سے زندگی کا لمبا سفر سہل سا ہوجاتا ہے ۔ ہمیں فراق کے اس تصور سے روشناس ہونا ہوگا ۔
یہ زندگی کے کڑے کوس یاد آتا ہے
تری نگاہ کرم کا گھنا گھنا سایہ
فراق کافر ادا معشوقہ کو بھول نہیں سکے ۔ اس کا عکس ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ غم زمانہ میں کھو کر بھی اسے بے طرح سوچتے رہے ۔ انہوں نے اس کا اعتراف شاعرانہ انداز میں یوں کیا ہے ۔
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
فراق اپنے چاہنے والے کے انداز دلربائی کو اپنے حافظہ میں محفوظ رکھتے ہیں ۔ اسی سے ان کے دل کے نہاں خانے بہاریں رہتی ہیں اور وہ دنیا کی جفاؤں کو سہہ لینے کی طاقت جٹا پاتے ہیں ۔ وہ محبوب کے نقش قدم پر گامزن رہتے ہیں ۔ اس سفر میں وہ راہ کی دشواریوں کی پراہ نہیں کرتے ۔ وہ اپنی جمالیاتی کائنات میں کھوئے رہتے ہیں ۔ البیلے خیالات کی قوس و قزح ملاحظہ کیجئے ۔

تو پاس سے گزرا کہ لپٹ مشک کی آئی
بجھتی ہوئی نظریں تھیں کہ آہو تھے گریزاں
اے دوست مہکتی ہیں ابھی تک وہ فضائیں
جن میں تھا کھلا تیرے تبسم کا گلستاں
عارض کی جھلک ہے کہ چھلک جاتے ہیں ساغر
ماتھے کی دمک ہے کہ طلوع مہہ تاباں
ابرو کی لچک ہے کہ لپک جاتی ہے شمشیر
گیسو کی لٹک ہے کہ گھٹائیں ہیں خراماں
فراق نے حسن و جمال کی بھرپور عکاسی کی ہے ۔ اس کی خوبصورت تشبیہات ، دلکش استعارے اور نادر تمثیلیں قلب و ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں ۔فراق کی غزلوں کی غنائیت ، نغمگی ، بانکپن ، شوخیاں ، الھڑپن سے جینے کی امنگ بڑھ جاتی ہے ۔ دیدہ و دل کے نجات کا ساماں مل جاتا ہے ۔ فراق حقیقی معنوں میں ایک ایسا شاعر ہے جس نے عرفان و آگہی کے چراغ جلائے ۔ شاعری میں آفاقیت کا پہلو اجاگر کیا ۔ اپنی شناخت بنائی ۔ ان کارنگ سخن سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے ۔ وہ میر سے متاثررہے ۔ مکمل میریت کی راہ پر چلے نہیں البتہ یہ دعوی ضرور کیا
غالب و میر و مصحفی
ہم بھی فراق کم نہیں
فراق کو اپنے عجمی پس منظر پر بھی ناز تھا ۔ عرب اہل عجم کو گونگا کہتے تھے ۔ فراق نے اپنی بڑائی کا برملا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے ان کی تعلی قابل دید ہے ۔
ائے اہل عرب آؤ یہ جاگیر سنبھالو
میں مملکت لوح و قلم بانٹ رہا ہوں
فراق کی جمالیاتی حس اس وقت نقطہ عروج پر پہونچ جاتی ہے جب انہوں نے ایسی سبک و حسین رباعی کہی اور محبوب کے ملکوتی حسن کو خراج تحسین دیا ۔ یہ خیال ، یہ تخیل ، یہ سوچ ، یہ احساس فراق کو ابدیت کی سرحد پر کھڑا کردیتا ہے ۔
لہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے
دوشیزہ صبح گنگنائے جیسے
یہ روپ یہ لوچ یہ سج دھج یہ نکھار
بچہ سوتے میں مسکرائے جیسے

فراق صنف رباعی کو افلاک ، جنت و دوزخ سے نکالا کر روئے زمین پر لے آئے ۔ امجد و جذب عالم پوری نے تصوف ، نصیحت آمیز موضوعات کو رباعی کے ماتھے کا جھومر بنایا تھا ۔ فراق نے محبوب کے سراپے کے مختلف رخوں کو رباعی میں جذب کیا اور اسے لازوال کیا ۔ کچھ عرصہ بعد جاں نثار اختر نے گھر آنگن کے نام سے رباعیات کا مجموعہ تخلیق کیا ۔ اختر نے فراق کے چراغ سے روشنی لی ۔ اس نے ملکی روایتوں ، رتوں ، رسوم اور کلچر کو ادب میں پیش کیا ۔ اس کی رباعیات کا مجموعہ روپ دنیائے شاعری میں اضافہ کی روشن مثال ہے ۔ روپ پڑھنے کے بعد کسی کو اجنتا ایلورہ کے دیواری تصویریں دیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ فراق کا شعری کینوس وطن کی مٹی سے بنا ہوا ہے ۔ اس کی غزلیات ذہن سے نہیں وجدان کے سرچشموں سے بالیدگی و توانائی پائیں ۔ اس کی فکریات کے خد و خال نئے ، انوکھے ، پراثر اور بے نظیر ہیں ۔ اس کے شاعرانہ تجربے کامیاب ہیں ۔ ان میں صدیاں سانس لیتی ہیں ۔ زمانے کے دل دھڑکتے ہیں ۔ وقت کی چاپ سنائی دیتی ہے جھٹپٹے کی جاذبیت ، شام کے جگنو اور شبوں کی مستی و طلسماتی ساعتیں ملتی ہیں ۔ اب ہم فراق کی چند رباعیوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں ندرت خیال اور جذبہ و احساس کی چنگاریاں دبی دبی ہیں ۔ فراق ستاروں پر کمندیں پھینک رہے ہیں ۔
حمام میں زیر آب جسم جاناں
جگمگ جگمگ یہ رنگ و بو کا طوفاں
ملتی ہیں سہیلیاں جو مہندی رچے پاؤں
تلوؤں کی گدگدی ہے چہرے پہ عیاں
حسن خوابیدہ میں بھی ایسی سج دھج
زنجیر ہو بجلیوں کی جیسے کچھ کج
یہ بستر نرم و صاف پہ جسم کی جوت
تکیوں پر بادلوں کے جیسے سورج
ان اشعار کا مرکزی تھیم جدید سے جدید تر ہے ۔ فراق نے تخیلات کی نئی دنیا بسائی ہے ۔ فراق کے وہ متفرق اشعار دیکھتے ہیں جن سے روح اپنی پیاس بجھاتی ہے ۔

کون سکون دے سکا غم زدگان عشق کو
بھیگتی راتیں بھی فراق آگ لگا کے رہ گئیں
چھیڑدیا غزل میں آج میں نے وہ نغمہ زمیں
اٹھ گئے گھونگھٹ اے فراق زہرہ و مشتری کے بھی
مری نظر میں ہیں سب جلوہ ہائے ظلمت و نور
نہ ہر اندھیرا اندھیرا نہ ہر چراغ چراغ
دیکھئے زندگی کا تاج محل
ہر طرف مکڑیوں کے جالے میں
گرنے والوں کی یہ خبر بھی نہیں
کس بلندی سے گرنے والے ہیں
کیا رہا مے کدے میں بعد فراق
چند ٹوٹے ہوئے پیالے ہیں
فراق نے خود کو کبھی دہرایا نہیں ۔ ہر پل نئے خیالات کی سوغات دیتے رہے ۔ ان کی پرواز تخیل بلندیوں کو چھوتی رہی ۔ انہوں نے اپنے افکار عالیہ سے اقلیم سخن کو سدابہار کردیا ۔ انہیں گیان پیٹھ انعام سے نوازا گیا تھا ۔ انہیں تو گروویو کی طرح نوبل ایوارڈ دیا جانا چاہئے تھا ۔ فراق جیسے تخلیق کار روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔ ان کے وجود کو متاع بے بہا سمجھا جانا تھا ۔ ہندوستان کی تمام جامعات میں فراق چیرکا قیام عمل میں لایا جانا وقت کی اہم پکار ہے ۔ فراق کی وراثت گوناگوں تصورات میں مضمر ہے ۔ ان کی فلاسفی کو محفوظ رکھنا ہوگا ۔ اگر ناولوں میں پریم چند icon ہیں تو شاعری کے میدان میں فراق ایک عہد آفریں شخصیت کے مالک ہیں ۔ فراق نے جوش کو شاعراعظم تسلیم کرکے اپنے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے ۔ فراق کا علمی تبحر ، ان کی بصیرت لاثانی تھی ۔ فراق ہمیشہ شاعری کے افق پر تابناک ستارے کی طرح چمکتے رہیں گے ۔