عصری تعلیم کے اسکول کو زکوٰۃ کی رقم دینا

سوال :   کیا ایسے اسکول کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے جس میں قرآن مجید کے حفظ کے ساتھ اول سے لیکر دسویں جماعت تک انگریزی میڈیم میں تعلیم ہو ؟
نام مخفی ، حیدرآباد
جواب :  زکوٰۃ کی رقم کو غریب و مستحق زکوٰۃ کی ملکیت میں دنیا ضروری ہے۔ ایسے مدارس جہاں غریب و نادار طلبہ کے قیام و طعام کا نظم ہو ان مدارس کے ذمہ داروں کو بحیثیت وکیل زکوٰۃ کی رقم ادا کی جاسکتی ہے۔ ان مدارس کے ذمہ داروں پر لازم ہے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم کو اس کے حقیقی مصرف میں خرچ کریں۔
ایسے مدارس جہاں غریب و خوشحال طلبہ اور جہاں ان کے قیام و طعام کا انتظام بھی نہ ہو تو ایسے مدارس کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دینا چاہئے ۔ اگر ان مدارس کے ذمہ دار غریب و نادار طلبہ کے تعلیمی اخراجات پر اس رقم کو ان بچوں کی اطلاع سے خرچ کرتے ہیں تو درست ہے ورنہ نہیں بہرحال اس دور میں امانت و دیانت بہت مشکل مسئلہ ہوگیا ہے ۔ اس لئے زکوٰۃ کی رقم ادا کرنے میں نہایت محتاط رہنا ضروری ہے۔

مسجد میں سلام کرنا
سوال :  اکثر لوگ مسجد میں داخل ہوتے وقت بہ آواز بلند سلام کرتے ہیں۔ بعض لوگ نماز میں کوئی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں تو کیا سلام کا جواب نہ دیں تو کیا حکم ہے ؟
محمد قاسم علی، ملے پلی
جواب :  مسجد میں لوگ  نماز ، تلاوت قرآن ، ذکر و شغل میں مشغول رہتے ہیں اس لئے بہ آواز بلند سلام نہ کریں۔ اگر کوئی بہ آواز بلند سلام کرے تو ذکر میں مشغول شخص کو سلام کا جواب دینا واجب نہیں۔ عالمگیری جلداول ص : 325 میں ہے : والذین جلسوا فی المسجد للقراء ۃ والتسبیح اولانتظار الصلوۃ ما جلسوافیہ لدخول الزائرین علیھم فلیس ھذا أوان السلام فلا یسلم علیھم و لھذا قالوا لو سلم علیھم الداخل وسعھم أن لا یجیبوہ۔

زلف مبارک
سوال :  ہمیشہ اس مسئلہ میں شبہ رہتا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اقدس کے بال مبارک کہاں تک رہتے تھے، اس سلسلہ میں مختلف باتیں سننے میں آتی ہیں۔ براہ کرم تشفی بخش جواب دیں، اس سے کئی حضرات کی الجھنیں ختم ہوں گی ؟
محمد اویس ، پرانا پل
جواب :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زلف مبارک نصف گوش تک رہتے۔ کان شعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی انصاف اذنیہ (مسلم : کتاب الفضائل، باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زلف مبارک کی صفت سے متعلق احادیث میں ’’وفرۃ ‘‘ ، ’’ لمۃ ‘‘ ، ’’ جمۃ‘‘ کے کلمات وارد ہوئے ہیں۔ وفرہ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زلف مبارک کان کی لو سے متجاوز نہیں ہوتے تھے۔ ’’ لمۃ ‘‘ کی تفسیر اس بال سے کی گئی جو کان کی لو سے نیچے اترتے ہیں اور ’’ جمۃ‘‘ ایسے بال کو کہتے ہیں جو مونڈھوں پر اترتے ہیں۔سیرت حلبیہ ج : 3 ص : 333 میں ہے : لم یجاوز شعرہ شحمۃ اذنہ اذا ھو وفرۃ… و حاصل الاحادیث ان شعرہ وصف بانہ ’’ جمۃ ‘‘ ، و وصف بانہ ’’ وفرۃ ‘‘ و وصف بانہ ’’ لمۃ ‘‘ ۔ و فسرت اللمۃ بالشعر الذی ینزل علی شحمۃ الاذن و الجمۃ بالذی ینزل علی المنکبین۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زلف اقدس مختلف احوال میں مختلف ہوا کرتے۔ کبھی کم رہتے اور کبھی طویل ہوجاتے۔ جب زلف مبارک کی اصلاح میں تاخیر ہوجاتی تو وہ مونڈھوں تک پہنچ جاتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح فرماتے تو کبھی وہ کان کی لو سے نیچے اترتے اور کبھی نیچے نہیں اترتے۔
اسی میں ہے۔ قال بعضھم : کان شعرہ صلی اللہ علیہ وسلم  یقصر و یطول بحسب الاوقات، فاذا غفل عن تفصیرہ وصل الی منکبہ ، و اذا قصرہ تارۃ ینزل عن شحمۃ اذنہ و تارۃ لاینزل عنھا۔

مسجد میں نکاح
سوال :   آج کل مسجد میں نکاح کو ترجیح دی جارہی ہے۔ کیا مسجد میں نکاح ضروری ہے ؟ اور اگر مسجد کے علاوہ شادی خانہ میں نکاح انجام پائے تو کیا وہ خلاف سنت ہے ؟
مراد نگر
جواب :  شریعت مطہرہ میں نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کا نام ہے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے اعلان کو پسند فرمایا ہے۔ امام نسائی نے نکاح کے اعلان سے متعلق ایک مستقل باب ’’ اعلان النکاح بالصوت و ضرب الدف‘‘ قائم فرمایا اور اس کے تحت ایک حدیث نقل فرمائی : ’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصل مابین الحلال و الحرام الدف والصوت فی النکاح ‘‘ (نسائی ج : 2 ص : 75 )
اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام میں تمیز  کے لئے نکاح کے اعلان پر زور دیا۔ چونکہ مسجد، خیر و برکت کی جگہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب مقام ہے اور اس میں نکاح ہونے سے لوگوں میں نکاح کا اعلان ہوجاتا ہے، اس لئے شریعت میں مسجد میں نکاح مستحسن و پسندیدہ ہے۔ چنانچہ ترمذی شریف، کتاب النکاح، باب اعلان النکاح میں بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اعلنوا ہذا النکاح  واجعلوہ فی المساجد الخ ‘‘نکاح کا اعلان کرو اور مسجد میں نکاح کرو۔
فقہاء کرام نے مسجد میں نکاح کو مستحب قرار دیا ہے۔ مسجد میں نکاح ہو تو آداب مسجد کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ لیکن مسجد میں نکاح کرنا ہی لازم و ضروری نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی صفیہ سے خیبر و مدینہ کے درمیان جبکہ آپ وہاں تین دن مقیم تھے نکاح فرمایا۔
’’ عن انس قال اقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین خیبر والمدینۃ ثلاثاً …‘‘ (البخاری ، کتاب النکاح ج : 2 ص : 775 )
اسلام میں نکاح از قسم عبادت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی پیروی ہے۔ اس میں مقام کی تعین شرعاً مقرر نہیں، بلکہ وہ عاقدین کی صوابدید اور سہولت پر موقوف ہے اس لئے صحابہ کرام مسجد نبوی کا التزام کئے بغیر حسب سہولت نکاح کیا کرتے۔چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر شادی کی بشاشت اور  پلساہٹ کے آثار ملاحظہ فرمائے تو ارشاد فرمایا ’’ کیا ماجرا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے شادی کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے برکت کی دعا کی اور ولیمہ کرنے کا حکم فرمایا ۔
’’ عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رأی علی عبدالرحمن بن عوف اثر صفرۃ قال : ماھذا ؟ قال تزوجت امرأۃ علی وزن نواۃ من ذھب قال بارک اللہ لک اولم ولو بشاۃ‘‘ (بخاری ۔ کتاب النکاح ج : 2 ص : 775-774 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خواتین اور بچوں کو شادی کی تقریب سے واپس آتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو ارشاد فرمایا : تم لوگ میرے نزدیک محبوب لوگوں میں سے ہو۔
’’ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال : ابصرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نساء و صبیانا مقبلین من عرس فقام فقمنا فقال : اللھم انتم من أحب الناس الی‘‘ (بخاری ، کتاب ال نکاح ج : 2 ص : 778 )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک غزوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب ہم مدینہ واپس ہورہے تھے تو میں جلدی کرنے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کیوں جلدی کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا : حال ہی میں میری شادی ہوئی ہے۔
’’ عن جابر قال : کنت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ فلما قفلنا تعجلت علی بعیر قطوف فلحقنی راکب من خلف فالتفت فاذا انا برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ما یعجلک ! قلت انی حدیث عھد بعرس…‘‘ (بخاری شریف ۔ کتاب النکاح ج : 2 ص : 789 )
ان احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے کہ نکاح کے لئے مسجد کا التزام ضروری نہیں اور اگر شادی خانہ میں سنت کے مطابق عقد کیا جائے تو عقد ، مسجد میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کو خلاف سنت نہیں کہا جائے گا۔

نام رکھنا والد کا حق
سوال :  مجھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ لڑکا بڑا ہے ، اس کی پیدائش کے وقت اس کے والد نے اسکا نام اپنی پسند سے رکھا تھا۔ بعد میں مجھے لڑکی ہوئی اس کا نام میں اپنی پسند سے رکھنا چاہتی تھی لیکن میرے شوہر نے اپنی مرضی سے اس کا نام رکھا جو مجھے پسند نہیں ہے۔ اب وہ ایک سال کی ہے۔ ہم اگر اس کا نام بدلنا چاہیں تو بدل سکتے ہیں یا نہیں ؟
نام مخفی
جواب :   شریعت اسلامی میں نام رکھنے کا حق والد کو ہے ۔ چنانچہ احیاء العلوم ج : 2 ص : 147 حقوق الوالدین والولد میں ہے: قال صلی اللہ علیہ وسلم من حق الولد علی الوالد ان یحسن ادبہ و یحسن اسمہ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : والد پر اولاد کے حق میںسے یہ ہے کہ وہ اس کو حسن ادب سکھائے اور اس کا اچھا نام رکھے۔ اگر والد کا رکھا ہوا نام اچھا نہ ہو تو دوسرے اشخاص اس کو بدل کر اچھا نام رکھ سکتے ہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ برے نام بدل کر اچھا نام رکھا کرتے تھے ۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یغیر الاسم القبیح (ترمذی شریف بروایت سدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کا نام ’’ عاصیہ ‘‘ (نافرمان) تھا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام ’’جمیلہ ‘‘ (خوبصورت) رکھا۔ وعن ابن عمر ان بنتا کان لعمر یقال لھا عاصیۃ فسماھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمیلۃ رواہ مسلم (بحوالہ زجاجۃ المصابیح ج : 4 ص : 40 )
اس حدیث شریف کی تشریح کرتے ہوئے امام نووی نے برے نام کو بدل کراچھا نام رکھنا مستحب و پسندیدہ قرار دیا ۔ ’’ وفیہ استحباب تغییر الاسم القبیح کما یستحب تغییر  الاسامی المکروھۃ الی حسن ‘‘ ( حوالہ مذکور)
لہذا اگر آپ کے شوہر کا رکھا ہوا نام اچھا نہیں ہے اور آپ اس کو بدل کر اچھا نام رکھنا چاہیں تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلہ میں شوہر کو راضی کرلیں تو بہتر ہے ۔ ردالمحتار ج : 5 کتاب الحظر والاباحۃ میں ہے : وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یغیر الاسم القبیح الی الحسن جاء ہ رجل یسمی اصرم فسماہ زرعۃ وجاء ہ آخر اسمہ المضطجع فسماہ المنبعث وکان لعمر رضی اللہ عنہ بنت تسمی عاصیۃ فسماھا جمیلۃ