عشرت جہاں انکاؤنٹر، خصوصی ٹیم کیلئے سربراہ مقرر

گجرات ہائی کورٹ کی جانب سے مرکز کی سرزنش، ایک سال میں چار سربراہان تبدیل
احمد آباد 19 جولائی (پی ٹی آئی)گجرات ہائی کورٹ نے عشرت جہاں انکاؤنٹر مقدمہ کی تحقیقات کے لئے بہار کیڈر کے ایک آئی پی ایس آفیسر کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ مقرر کیاہے۔ اور مرکزی حکومت کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مقدمہ کو ’’معمولی نوعیت‘‘ کا واقعہ تصور کرتے ہوئے عام انداز فکر اختیار کررہی ہے۔ عدالت نے مسٹر راجیو رنجن ورما کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ اگرچہ یہ عہدہ اب ’’منحوس‘‘ سمجھا جانے لگا ہے کیونکہ ایک سال سے کم مدت میں اس ٹیم کے چار سربراہان تبدیل کئے جاچکے ہیں۔ آندھرا پردیش کیڈر کے آئی پی ایس آفیسر جے وی راموڈو بھی گزشتہ جمعہ کو اس عہدہ سے سبکدوش ہوگئے۔ مرکز نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ اس عہدہ کے لئے ان (راموڈو) کی رضامندی حاصل کی گئی ہے لیکن مسٹر راموڈو نے صحت کی وجوہات بتاتے ہوئے اس عہدہ کو قبل کرنے سے انکار کردیا اور عدالت کو مطلع کیا کہ مرکز نے اس عہدہ پر تعیناتی کے لئے ان سے رضامندی حاصل نہیں کی تھی۔ ان کے اس استدلال پر مرکز کو ایک اور دھکا لگا ہے اور الجھن و پشیمانی کا شکار ہونا پڑا ہے۔ مرکز نے آج اپنے اسسٹنٹ سالیسیٹر جنرل پنکج چمبانیری کے توسط سے جسٹس جئینت پٹیل اور جسٹس ابھیلاش کماری کے اجلاس پر درخواست پیش کی۔ جس میں مسٹر راموڈو کے انکار کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ان کے بجائے نئے ناموں کی فہرست پیش کی۔ جس میں مسٹر ورما کے علاوہ مدھیہ پردیش کے آر سی ارورہ، اور آندھراپردیش کیڈر کے ویویک دوبے کے نام بھی شامل ہیں۔ مسٹر ورما، عشرت انکاؤنٹر کیس کی تحقیقات کرنے والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے چوتھے سربراہ ہوں گے۔ یہ ٹیم گزشتہ سال تشکیل دی گئی تھی۔ سب سے پہلے دہلی کیڈر کے آئی پی ایس عہدیدار کرنیل سنگھ کو اس کا سربراہ بنایا گیا تھا جو بعد میں سبکدوش ہوگئے۔ بعد ازاں مہاراشٹرا کیڈر کے مسٹر ستیہ پال سنگھ اس کے سربراہ بنے احمدان کے بعد مسٹر راموڈو کا تقرر عمل میں آیا تھا۔ مرکز کی سخت سرزنش کرتے ہوئے اس عدالت نے کہا کہ اس (مرکز) کو مسٹر راموڈو کا نام تجویز کرنے سے قبل ان کی صحت کی خرابی سے باخبر ہونا چاہئے تھا۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمہ کی سماعت کو مذاق نہ بنایا جائے۔ اس مقدمہ میں مرکزی حکومت کا اندازہ فکر انتہائی عام نوعیت کا معلوم ہوتا ہے۔ جسٹس ابھیلاش کماری نے کہا کہ یہ تیسری مرتبہ ایسا ہوا ہے۔
اس سے کیا تاثر ملے گا۔