عزیز بھارتی ۔ ہمیشہ ودّیارتھی

رحمن جامی
سید عزیز الحسن نامی جس دبلے پتلے نوجوان سے میرا تعارف ہوا تھا وہ ایک شدھ ہندی کا ٹیوٹر تھا جو مراد نگر میں ہمارے پڑوسی کے بچوں کو ہندی کا ٹیوشن دینے آیا کرتا تھا ۔ ایک روز اس نوجوان نے میرے گھر پر دستک دی ۔ صبح سویرے یہ کون آگیا ، میں باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک سانولا سا نوجوان کھڑا مسکرارہا تھا ۔ سفاری میں ملبوس ، بدن چھریرا ، چہرے پر مسکان ، چھوٹی چھوٹی چمکدار آنکھیں ، سر میں گھنے بال ، دلیپ کمار اسٹائل میں پیشانی پر جھولتی ہوئی ایک لٹ ، وہ نوجوان آگے بڑھا اور بڑی گرم جوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا ’’میں بہت دنوں سے آپ سے ملنے کا خواہش مند تھا ۔ روزانہ آپ کے نام کی تختی پر نظر پڑتی اور روز یہ سوچ کر گزرتا رہا کہ آج نہیں تو کل مل لوں گا ۔ لیکن آج یہ تہیہ کرکے گھر سے نکلا تھا کہ آپ سے ملے بغیر گھر نہیں لوٹوں گا ۔ میرا نام سید عزیز الحسن ہے میں آپ کے پڑوسی کے بچوں کو ہندی پڑھاتا ہوں ۔ قریب ہی رہتا ہوں ، آصف نگر میں میرا گھر ہے اور شاعری سے مجھے بے حد رغبت ہے ۔ اسی لئے آپ سے ملنے کا مشتاق تھا‘‘ ۔ وہ نوجوان ایک ہی سانس میں ساری باتیں کہہ گیا ۔ ہم چبوترے پر بیٹھ گئے (دیوان خانے میں بھیا لیٹے ہوئے تھے) بہت دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں ۔ دوران گفتگو پتا چلا کہ ان کا وطن بھی رائچور ہی ہے ۔ میری تعلیم بھی میٹرک تک رائچور میں ہوئی کیونکہ میری ماں مدرسہ نسواں اندرون قلعہ رائچور کی ہیڈ مسٹریس تھیں ۔ اعلی تعلیم کیلئے مجھے اپنے بھائی بہنوں کے پاس لال ٹیکری حیدرآباد آجانا پڑا تھا ۔ رائچور کا نام سن کر ساری اجنبیت یک لخت شناسائی میں بدل گئی اور پھر ہماری ملاقاتیں تقریباً روزانہ ہی ہونے لگیں ۔ رفتہ رفتہ یہ اسرار بھی کھل گیا کہ موصوف بھی شاعر ہیں اور ہندی میں کویتا کہتے ہیں ۔ اور اسکے لئے قلمی نام ’’عزیز بھارتی‘‘ استعمال کرتے ہیں ۔

آپ کویہ جان کر حیرت ہوگی کہ تحت میں کلام سنا کر مشاعرے لوٹنے والے شاعر عزیز بھارتی کا ترنم بھی بہت اچھا تھا ، بلکہ میں یہ کیوں تو غلط نہ ہوگا کہ انکا ترنم لاکھوں میں ایک تھا لیکن یہاں بھی میں ہی قصوروار ہوں ۔ میں نے ہی انہیں مشورہ دیا تھا کہ اگر آپ شعر پر داد لینا چاہتے ہیں تو ترنم سے ہرگز مت سنایئے اور اگر آپ شعر پر نہیں صرف ترنم پر داد لینا چاہتے ہیں تو پھر ضرور ترنم سے سنایئے ۔

عزیز بھارتی جب ہندی کویتاؤں کی جگہ اردو میں غزل کہنے لگے اور بڑی لگن اور جستجو سے غزلیں کہنے لگے تو میں ان کو اپنے ساتھ مشاعروں اور اردو کی محفلوں میں لے جانے لگا اور میرے مخصوص اور مخلص احباب سے ان کو ملوایا جو میرے رات دن کے ملنے والوں میں شامل تھے جن میں پروفیسر غنی نعیم (انوار العلوم کالج) ، حسن یوسف زئی (صدر اردو سوسائٹی) ، پروفیسر سید سراج الدین ، ماہر اقبالیات و صدر اقبال اکیڈیمی و پروفیسر انگریزی عثمانیہ یونیورسٹی ، انکے چھوٹے بھائی سید ناظر الدین ناظر جو ٹاؤن پلاننگ میں سیکشن آفیسر تھے ۔ مشہور ڈرامہ نگار اور سیریل نگار جمیل شیدائی ، انکے علاوہ مشہور منجم ایس ٹی ایم عاصم (ماہر علم نجوم ہونے کے ساتھ ساتھ شارٹ اسٹوری رائٹر بھی تھے) مشہور کامریڈ شاعر برق یوسفی اور انکے دوست جاوید حیدرآبادی ، شفیع اقبال ، عثمان ناقد (جو بعد میں کسی سعودی کمپنی میں گئے) اور دوسرے کئی احباب کے یہ بھی بہت قریب ہوگئے ۔

عزیز بھارتی کو مشاعروں کا چسکہ لگ گیا ۔ یہ بڑھ چڑھ کر ان میں حصہ لینے لگے ۔ آدمی تھے ملنسار طبیعت کے ، بہت جلد گھل مل جاتے تھے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں مشاعروں میں تواتر کے ساتھ بلایا بھی جانے لگا۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ مشاعروں کی وجہ سے ان کی ٹیوشن دینے کی مصروفیات پر اثر پڑنے لگا جو ان کی آمدنی کا اہم حصہ تھا ، وہ ٹیوشن کے اوقات کو ایڈجسٹ کرنے لگے ۔ دراصل انکی اصل آمدنی ٹیوشن کی کمائی تھی ۔ اگرچہ وہ انوار العلوم میں ہندی کے ٹیچر تھے لیکن یہاں کی تنخواہ ناکافی تھی۔ عزیز بھارتی نہایت باسلیقہ شخص تو تھے ہی محتاط زندگی بھی گزارتے تھے ، اسلئے کہ وہ کنبہ پرور تھے ۔کفایت شعاری سے گھر چلاتے تھے ۔ بقول عزیز بھارتی کے ان کی شادی بڑی کم عمری میں ہوئی تھی ۔ کثیر العیال بھی تھے ۔ اسکی وجہ سے ہمیشہ تنگ دست رہے لیکن وہ اپنی تنگ دستی کو کبھی ظاہر ہونے نہیں دیتے تھے ۔ عزیز بھارتی کو اپنی بیوی بچوں سے بے حد پیار تھا وہ انکی ذرا ذرا سی بات کا خیال رکھتے تھے ۔ ان کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سی چھوٹی فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتے چاہے ان کو دور دراز کا ٹیوشن بھی کیوں نہ قبول کرنا پڑے ۔ دور دور تک اپنی سائیکل پر ہی جاتے ۔ ہمیشہ اپنی سائیکل کی صفائی اپنے ہاتھوں سے کرتے اس کے لئے ایک مخصوص کالے رنگ کا کپڑا اپنے بیگ میں رکھ چھوڑا تھا ۔ کہا کرتے کہ بیوی اور سواری دونوں کو اچھی حالت میں ہونا اسلئے ضروری ہے کہ دونوں ہی ’شریک حیات‘ کا درجہ رکھتی ہیں ۔ عزیز بھارتی کا رکھ رکھاؤ بھی ہمیشہ صاف ستھرا تھا ۔ ہمیشہ آئرن کیا ہوا لباس زیب تن کئے رہتے ۔ نفاست پسند تھے ، صفائی اور اپنے کپڑوں کا خاص خیال رکھتے ۔ اکثر پتلون شرٹ کے ساتھ واسکوٹ کا استعمال ان کی انفرادیت تھی ۔ یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ واسکوٹ ان کا امتیازی نشان تھا ۔ لیکن خاص خاص مواقع پر سفاری بھی زیب تن کرتے تھے ۔ کبھی کبھار عید اور شادی بیاہ میں شیروانی پہنے ہوئے میں نے دیکھا ہے جو انکی اکلوتی شیروانی تھی ۔ ایک سوٹ بھی سلوارکھا تھا ۔

عزیز بھارتی ہر اتوار کو بلاناغہ میرے گھر ’’الحرا‘‘ آیا کرتے اور آتے ہوئے کچھ نہ کچھ بازار سے کھانے پینے کی چیزیں بھی خرید لاتے کبھی خالی ہاتھ نہ آتے ۔ میری وابستگی کسی نہ کسی صورت سے فلموں سے بھی برقرار تھی اور میں مختلف فلموں میں گیت لکھنے کے علاوہ سیریلس بھی لکھتا رہا ہوں ، اس بات سے عزیز بھارتی اچھی طرح واقف تھے ۔ چنانچہ عزیز بھارتی نے ایک روز مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی فلموں میں گیت لکھنا چاہتے ہیں ۔ میں نے اس مرحلہ پر عزیز بھارتی کو عبدالرب عارف میوزک ڈائرکٹر اور رائٹر ڈائرکٹر سرتاج معانی کے حوالے کردیا ۔ یہ دونوں اس وقت ایک مزاحیہ سیریل ’’جھٹکے ذرا ہٹ کے‘‘ کررہے تھے ۔ اس سیریل کے ہر ایپی سوڈ میں مشہور گانوں کی پیروڈیز شامل تھیں ۔ میرے شاگرد قدیر انصاری پہلے ہی اسکے تین چار گیت لکھ چکے تھے جو ریکارڈنگ کے مرحلے میں تھے ۔ میری ایما پر قدیر انصاری کے ساتھ عزیز بھارتی کو بھی ٹیم میں شامل کرلیا گیا ۔ پھر ایشین ہوٹل نامپلی میں بیٹھ کر عزیز بھارتی اور قدیر انصاری نے مختلف ایپی سوڈس کیلئے گیت لکھے جنھیں میں نے finalise کیا اور اسکا معقول معاوضہ بھی انہیں پروڈیوسرز رمیش جین اور راجیش اگروال سے دلوایا گیا ۔ جب میرے شاگرد سرتاج معانی بمبئی واپس چلے گئے تو عزیز بھارتی کو بمبئی آنے کی دعوت دے گئے اور ساتھ ہی یہ تیقن بھی دے گئے کہ وہ بمبئی میں فلموں میں لکھنے کے مواقع دلوائیں گے ۔ عزیز بھارتی نے وظیفہ کے بعد بمبئی منتقل ہونے کا پروگرام بنایا تھا ۔ لیکن عمر وفا نہ کرسکی انکے سارے منصوبے ادھورے رہ گئے ۔ اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش قابل مبارکباد ہے کہ انکے ایک ادھورے منصوبے کو کتابی شکل دے کر پورا کیا ۔ اس طرح میرے ایک دیرینہ مطالبہ کی تکمیل ہوئی ۔ جو میں اکیڈیمی کے روز قیام سے کرتا آرہا تھا کو جزوی امداد کئی جگہ مستحق شاعروں اور ادیبوں کی کلّی امداد کے ذریعہ کتابیں شائع کرکے سرکاری سطح پر نکاسی کا بندوبست بھی کرے اردو اکیڈیمی نے لائق تحسین کارنامہ کتاب کی اشاعت کا انجام دیا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عزیز بھارتی کا مجموعہ کلام’’لہجہ کا سفیر‘‘ اردو اکیڈیمی من و عن شائع کرتی ۔