عرفان صدیقی کی شاعری جہانِ معنی کی روشن جہتیں

آشوتوش شریواستو
عرفان صدیقی کو 1970 کے بعد کی غزل کا اہم ترین شاعری تسلیم کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موجودہ عہد میں ان کا سا شاعر پورے ہندو پاک میں کوئی دوسرا نہیں ہے ۔ لیکن نئے شعر و ادب سے متعلق رسالوں کی ورق گردانی میں ان کے فن سے انصاف کرنے والے مضامین خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ یعنی بڑے ناقدین میں بیشتر کے قلم عرفان کی شاعری کے سلسلے میں اب بھی خاموش ہیں ۔
اردو غزل کے وہی موضوعات و مضامین جو بارہا غزل میں بیان کئے جاچکے ہیں عرفان صدیقی کے یہاں بھی موجود ہیں یعنی عشق (عشق مجازی) ، تصوف ، فقر ، آزادی ، مزاحمت ، یاد پرستی ، حسن پرستی ، بے سر و سامانی ، اداسی ، شادمانی ، بے حوصلگی  ، بلند حوصلگی ، جنسی و نیم جنسی شاعری وغیرہ ۔ ان میں کون سا ایسا موضوع ہے جس پر عرفان صدیقی سے قبل شدومد کے ساتھ طبع آزمائی نہیں کی گئی ، لیکن عرفان صدیقی کے یہاں ان موضوعات کے بغور مطالعے کے بعد معلوم ہوگا کہ یہ موضوعات اپنی دوررس معنویت میں ماقبل کی شاعری سے بہت مختلف ہیں اور اس نکتے کی جستجو اور وضاحت کے لئے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔ اس بحث میں ہم ان موضوعات پر گفتگو کریں گے جنھیں عرفان کا خصوص کہا جاسکتا ہے ۔

سب سے پہلے عرفان صدیقی کے عشق کی طرف رجوع کرتے ہیں  ۔یہ عشق ہماری شاعری میں تقریباً ایک صدی سے نزع کے عالم میں تھا ، خواہ وہ علی گڑھ تحریک ہو یا ترقی پسند تحریک ، سب میں عشق بیزاری غالب تھی ۔ اگر کہیں عشق تھا بھی تو وہ بڑی کسمپرسی کے عالم میں اور بڑی قدغنوں کے درمیان ۔ دوسری طرف رومانیت کی تحریک میں عشق میں افلاطونیت غالب آگئی تھی ۔ اس طرح انھیں یہ محسوس ہوا کہ دونوں صورتوں میں عشق کو وہ مقام نہیں ملا جو اسے ملنا چاہئے ۔ اسی احساس کی بنا پر عرفان عشق کی طرف آئے اور اس کو اصل مقام دلانے کے لئے ہی انھوں نے اپنی شاعری میں اسے ایک مستقل موضوع (عشق نامہ) کے طور پر اختیار کیا ۔ عرفان صدیقی سے قبل کچھ شعراء مثلا مومن ، حسرت اور فراق بھی عشق کو ایک مستقل موضوع کے طور پر اختیار کرچکے تھے ۔ مگر عرفان صدیقی کا معاملہ ان شعراء سے مختلف ہے ۔ ان کا محبوب  بازاری ،عمومی اور سوقیانہ جذباتی والا نہیں ہے ، اس کی مثال ان کے وہ اشعار ہیں جن میں انھوں نے محبوب کی بود و باش ، اس کے آداب و اطوار ، اس کے درجے اور مرتبے کو ظاہر کیا ہے اور یہی وہ منزل ہے جہاں عرفان صدیقی فراق سے بازی مار لے جاتے ہیں اور جو ’ارضیت‘ فراق صاحب کے نام سے منسوب ہوگئی تھی وہ اصلاً عرفان صدیقی کے یہاں ’مکمل ارضیت‘ میں تبدیل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ یہی مکمل ارضیت اصل میں ہندوستانی کلچر سے میل کھاتی ہے ۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ عرفان صدیقی کا عشق حقیقی ہے جس میں انسانی روح کا سوز و ساز ہے ۔
عرفان صدیقی کے یہاں نظم و ضبط کے ساتھ ارتقاء نظر آتا ہے جو عشق کے مختلف shades کو نمایاں کرتا ہے ۔ اس کے لئے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔ جس سے میرا موقف واضح ہوجائے گا:
جسم و جاں کی آگ سے منظر بہ منظر روشنی
اس کا پیکر روشنی میرا مقدر روشنی
یہ مشک ہے کہ محبت مجھے نہیں معلوم
مہک سی میرے ہرن کی طرف سے آتی ہے
ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے
چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے
یاد آئیں جو تری کم سخنی کے انداز
اپنے ہی آپ سے مصروف سخن ہوجاؤں
پہلے شعر میں محبت میں عاشق اپنے جسم و جاں کی آگ سے پورے منظر کو روشن پاتا ہے ۔ اس عشق میں محبوب کا پیکر ہی روشن نہیں ہوا ہے بلکہ عاشق اس عشق میں اپنا مقدر بھی روشن ہوتا ہوا دیکھتا ہے ۔ اقبال نے عشق کی یہ خوبی بتائی تھی کہ عشق کی مستی سے پیکر گل تابناک ہوتا ہے مگر عرفان صدیقی نے یہ بتایا کہ عشق سے مقدر بھی روشن ہوتا ہے ۔ دوسرے شعر میں محبت اور مشک دونوں کو یکجا اور آمیز کرنے کا بہترین تجربہ پیش کیا ہے ۔ محبت کی مناسبت سے مشک اور مشک کی مناسبت سے ہرن اور ہرن سے محبوب کو تشبیہ دے کر انھوں نے اپنا رشتہ روایتی شاعری سے بھی جوڑا ہے اوراپنے جدت پسند ذہن کی عکاسی بھی کی ہے ۔ تیسرے شعر میں عرفان صدیقی کا محبوب عشق میں فعال نظر آتا ہے ۔ وہ محبت کا قدر آشنا ہے سو اپنے عاشق سے ربط نوا چاہتا ہے ۔ اس پر عاشق کو حیرت اور مسرت کا احساس ہوتا ہے کہ محبوب میں غرور نام کو بھی نہیں ہے اور اپنی جان سخن کے لئے حیرت سے کہہ اٹھتا ہے ’چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے‘ ۔ چوتھے شعر میں عرفان صدیقی نے محبوب کی کم سخنی کو آداب محبت کا دستور جانا ہے ۔ وہ محبوب کی کم گوئی سے نالاں نہیں بلکہ محبوب کی یہ ادا انھیں بہت کچھ غور و فکر کرنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ خلوت میں محبت کے اس انداز پر خود سے کلام کرتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں ۔ اس شعر کی کیفیت لاجواب ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ محبت کا یہ پہلا مرحلہ تھا ان کی اگلی منزل کا ارتقاء ان اشعار میں ملاحظہ ہو:
ہم نے ان لفظوں کے پیچھے ہی چھپایا ہے تجھے
اور انھیں سے تری تصویر بنا چاہتی ہے
مرے لفظوں میں بھی چھپتا نہیں پیکر اس کا
دل مگر نام بتانا بھی نہیں چاہتا ہے
ان دو شعروں میں شاعر محبوب کو دنیا سے چھپانے اور اپنے عشق کی تشہیر سے بچنے کی ناکام کوشش میں مبتلا نظر آتا ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں عشق باعث ننگ یا باعث رسوائی نہیں بلکہ اس پوشیدگی کے عمل میں شاعر کا تکلف کارفرما ہے ۔ شاعر کو ہمیشہ اس بات کی فکر رہتی ہے کہ اس کا عشق دنیا کے سامنے نہ آنے پائے ، نیز وہ اپنے جذبات کو لفظوں میں ڈھالتا ہے تو بہت سنبھل کر اور بہت محتاط ہو کر ۔ اس کے باوجود محبت کی کافرمائی یہ ہے کہ وہ جس محبوب کا پیکر چھپاتا ہے اور جس کا نام بتانے سے بھی گریز کرتا ہے ، اس کی تصویر انھیں لفظوں سے بنتی چلی جاتی ہے ۔ عرفان صدیقی کے عشق کی اگلی منزل ان اشعار میں ملاحظہ ہو :

وہ جاگنا مری خاک بدن میں نغموں کا
کسی کی انگلیوں کا نَے نواز ہوجانا
سکوت شب تم آواز کا شیشہ گرادینا
فضا سنسان کمرے کی ندا سی ہوتی جاتی ہے
محبت کا اثر شاعر کی خاک کو بھی نغمہ زن کردیتا ہے ۔ دوسرے شعر میں شاعر رات کے سکوت میں محبوب کی آواز سننے کو بے چین ہوجاتا ہے ۔ اسے یقین ہے کہ رات کے پُرشور سناٹے سے صرف محبوب کی کھنکتی ہوئی آواز نجات دلاسکتی ہے ۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ شاعر نے محبوب کی آواز کو ’شیشے کے گرنے‘ سے تشبیہ دی ہے جو ہمارے علم میں اردو شاعری میں نادر تشبیہ ہے ۔ عرفان صدیقی کے عشق کی اگلی منزل ’دیدار‘ ہے ۔
ایک ستارہ ادا نے یہ کیا کردیا
میری مٹی کو مجھ سے جدا کردیا
ان دنوں پاؤں میرے زمیں پر نہیں
اب مری منزلیں آسمانوں میں ہیں
اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحر چمن لگنے لگا
کتنا اچھا اپنا من، اپنا بدن لگنے لگا
ہم کہاں کے یوسف ثانی تھے لیکن اس کا ہاتھ
ایک شب ہم کو بلائے پیرہن لگنے لگا
دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب
میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے
پہلے شعر میں شاعر اس ’ستارہ ادا‘ کے معجزوں کا معروف نظر آتا ہے ۔ وہ حیرت میں ہے کہ یہ کیا ہوگیا ہے کہ اب میرے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے ۔ دوسرے شعر میں صحرا کے چمن معلوم ہونے میں یہ پہلو ہے کہ شاعر کو ابھی تک احساس ہی نہیں تھا کہ وہ کیا ہے اور کیا ہوسکتا ہے یعنی اسے اپنے وجود کے صحرا ہونے کا احساس نہیں تھا ، محبت کی کرامت سے جب صحرا چمن میں تبدیل ہوتا ہے تو اسے اس کا احساس ہوتا ہے ۔ شاعر کا من اور بدن جو خود فراموشی کے عالم میں تھے انھیں انتہائے حیرت کے ساتھ بیان کررہا ہے ۔ تیسرے شعر میں وہ خود کو یوسف ثانی کہتا ہے ۔ ابھی تک کہ ہماری اردو غزل کا محبوب تشنہ خوں ظالم و جابر اور عاشق کو استخواں کا ڈھانچہ بنادینے والا ہی نظر آتا تھا ، مگر اس طرح کا محبوب ہمیں پہلی بار نظر آتا ہے جس کے عشق میں عاشق آباد ہورہا ہے ۔ چوتھے شعر میں شاعر محبوب کی کرم فرمائیوں کا اعتراف اس طرح کرتا ہے کہ اس کا بدن محض محبوب کے دیکھ لینے سے گل کش ہوا جارہا ہے ۔ ذیل کے شعروں می عرفان صدیقی کا عشق باصرہ کی حدوں سے نکل کر لامسہ کی سرحدوں میں بڑی آہستہ روی سے داخل ہوتا ہے ۔ شعر ملاحظہ ہوں :

اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں
دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے
مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی
میرے وجود کا جنگل ہرا بھرا ہوجائے
وہ رات بھی آئے کہ اس کا بدن گھٹا ہوجائے
ہوا گلاب کو چھو کر گذرتی رہتی ہے
سو میں بھی اتنا گنہگار رہنا چاہتا ہوں
عرفان صدیقی کے عشق کی اس منزل تک بیشتر شعراء کی رسائی نہیں ہوسکی ہے اور اگر ہوئی بھی تو وہ اپنی بات کو اتنی آسانی اور صناعی سے نہ کہہ سکے ۔ عرفان کے عشق کا اگلا مرحلہ وہ ہے جس میں وصال کے تجربات کو نغمگی ہے ۔ ان اشعار پر غور کیجئے :
جسم کو  جسم سے ملنے نہیں دیتی کمبخت
اب تکلف کی یہ دیوار گرا کر دیکھیں
ہم تو صحرا ہوئے جاتے تھے کہ اس نے آکر
شہر آباد کیا  ،نہر صبا جاری کی
ان اشعار میں شاعر نے تکلفات کی دیوار گرادی ہے ۔ اب اسے اپنی تکمیل کا احساس ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ محبوب نے ’شہرآباد کیا نہر صبا جاری کی‘ ۔ چونکہ شاعر یہاں پہلے جسم کو صحرا کہتا ہے اور پھر اسی مناسبت سے بدلی ہوئی صورت حال میں شہر اور نہر صبا کا ذکر کرتا ہے اس کے باوجود شاعر کو محبوب کا جسم ابھی بھی پراسرار معلوم ہوتا ہے ۔
جدید دور میں ہماری اردو شاعری میں نئے افق نمودار ہوئے ہیں ۔ اب اس کے احاطہ اظہار میں بہت سارے قومی و بین الاقوامی مسائل ہیں ۔ ان پیچیدہ اور المناک مسائل کو پیش کرنے کے لئے شعراء واقعات کربلا کے سانحے کی طرف گئے کیونکہ یہی وہ موزوں استعارہ تھا جو ان مسائل کی المناکی اور سنگینی کو زیادہ بامعنی طریقے سے پیش کرسکتا تھا ۔
عرفان صدیقی کی غزل میں واقعہ کربلا کا بیان دو طرح سے ہوا ہے ۔ ایک طرف ان کے یہاں کھلی ہوئی علامتیں ہیں جن کے مفاہیم کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی ہے اور دوسرے نوع کے بیان میں ان علامتوں کے مفاہیم آسانی سے نہیں کھلتے ۔ دونوں طرح کے بیانوں سے متعلق اشعار ملاحظہ ہوں :
یہ سرخ پھول سا کیا کھل رہا ہے نیزے پر
یہ کیا پرند ہے شاخ شجر پہ وارا ہوا
تم جو چاہو اسے تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ  ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا
نوک سناں نے بیعت جاں کا کیا سوال
سر نے کہا قبول ، نظر نے کہا نہیں
یہ کس نے دست بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخل دعا نکل آئے
کوئی مشکیزہ سر نیزہ علم ہوتا ہے
دیکھیے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
تری تیغ تو میری ہی فتح مندی کا اعلان ہے
یہ بازو نہ کٹتے اگر میرا مشکیزہ بھرتا نہیں

اس نوع کے اشعار کے تجزیے کی مطلق ضرورت نہیں کیونکہ ان کے معنی بالکل صاف ہیں ۔ اب ان اشعار کو دیکھتے ہیں جو گہری مفاہیم کے حامل ہیں ۔
آخری امید کا مہتاب جل بجھنے کے بعد
میرا سوجانا مرے دیوار و در کا جاگنا
اجنبی جان کے کیا نام و نشاں پوچھتے ہو
بھائی ہم بھی اسی بستی کے نکالے ہوئے ہیں
پانی پہ کس کے دست بریدہ کی مہر ہے
کس کے لئے یہ چشمہ کوثر لکھا ہوا
انقلاب ، تقسیم اور ہجرت کے مسئلے کو ترقی پسندوں اور جدیدیوں نے اپنی اپنی آنکھ سے دیکھا اور اپنے اپنے بنائے ہوئے منظر پیش کئے ۔ ترقی پسندوں نے ان مسائل کے بیان میں ساری قوت لہجے کو پرجوش بنانے میں صرف کردی ۔ اب بچے جدیدیے ، انھوں نے سماجی مسائل سے یکسر منہ موڑ لیا تھا اور اپنے درون کے دکھ ہی کو اہم جانا تھا ۔ مگر عرفان صدیقی نے بین بین راہ اختیار کی ۔ تقسیم اور ہجرت کے موضوعات سے متعلق ان کی شاعری میں زیادہ صداقت اور زیادہ اثر آفرینی ہے ۔ دراصل ان مسائل و حوادث سے وہ براہ راست متاثر ہوئے تھے اسی لئے ان کے کلام میں احساس کی آنچ اتنی تیز ہے اور یہی آنچ عرفان صدیقی کی شاعری کو انفرادیت عطا کرتی ہے ۔
آخر میں عرفان صدیقی کی غزل گوئی کے فن کے سلسلے میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ انھوں نے کلاسیکی شاعری کا تتبع اس طور کیا ہے کہ ان کی شاعری میں حسن پیدا ہوگیا ہے ۔ ایسی شاعری میں وہ بڑے شاعروں کے محض مقلد نظر نہیں آتے ۔ اس ضمن میں انہوں نے بڑے پتے کی بات کہی ہے :
نقش پا ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے
ہم نے ایسی تو کوئی راہ نکالی بھی نہیں