عرب مسلمانوں کو مغرب کی پناہ اسلام کو خطرہ!

جرمنی، جرمنی! یہ تھی وہ صدائیںجو شام اور دیگر ممالک سے اپنا اپنا ملک چھوڑ کر جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں پناہ لینے والے پناہ گزینوں کے لب پر تھی اور اس صدا کا یہ اثر ہوا کہ ہزاروں جرمن باشندے سڑکوں پر نکل پڑے اور اس صدا کے جواب میں ان جرمن باشندوں کی زبان پر جو نعرہ تھا وہ یہ تھا ’’خوش آمدید ، خوش آمدید‘‘۔ بس پھر جرمن عوام کے دباؤ میں آ کر جرمنی کی صدر انجیلا مرکل نے عرب پناہ گزینوں کے لئے جرمنی کی سرحدیں کھول دیں اور اس طرح لاکھوں شامی، عراقی اور افریقوں کو اسی یورپ یعنی مغرب میں پناہ نصیب ہوگئی جس کے خلاف داعش جیسی اسلامی خلافت نے جہاد چھیڑ رکھا ہے اور جن کی دہشت سے تنگ آ کر لاکھوں عرب اپنا گھر بار چھوڑ کر یورپ میں پناہ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔

یہ تو ہے یورپ یعنی مغرب کا وہ دوسرا رخ جو اس اکیسویں صدی میں اگر اس کے نظام نہیں تو اس کے عوام کی انسانیت دوستی کا ثبوت پیش کرتا ہے لیکن وہی مغرب جس کی حکومتوں کی فوجوں نے شام پر بمباری کا سلسلہ جاری کیا ہوا ہے۔ آخر اسی مغرب کے عوام کے دل ’’جہادی مسلم عوام‘‘ کے لئے کیسے پگھل گئے! آپ واقف ہوں گے کہ کس طرح ایک معصوم شامی بچی سمندر میں ڈوب کر مر گئی اور اس کی اوندھے منہ پڑی ہوئی نعش کی تصویر نے سوشل میڈیا پر یورپی اور بالخصوص جرمن عوام کا ضمیر جھنجھوڑ دیا۔ اس طرح لاکھوں عرب اور افریقی پناہ گزینوں کے لئے یورپ کے کئی ممالک کی سرحدیں کھل گئیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں نے پناہ ڈھونڈتے ہوئے پناہ گزینوں کیلئے اپنے گھروں کے دروازے بھی کھول دیئے اور پوپ نے چرچ سے یہ اپیل کردی کہ وہ ہر چرچ کا دروازہ پناہ گزینوں کیلئے کھول دیں۔ اب ہزاروں مسلم عرب پناہ گزین مسجدوں کی نہیں چرچ اور عیسائیوں کی پناہ میں ہیں۔آپ نے غور فرمایا کہ اسلامی تاریخ نے کیا کروٹ لے لی! آج عرب مسلمان مسلم دہشت گردوں سے پناہ ڈھونڈنے کیلئے صرف اپنا گھر بار اور وطن ہی نہیں بلکہ اپنی مسجد بھی چھوڑ کر یورپ کے چرچوں میں پناہ لے رہا ہے اور اس صورتحال میں اس کی زبان پر اللہ اکبر کا نعرہ نہیں بلکہ جرمنی جرمنی اور یورپ یورپ کا نعرہ ہے۔ اسلام کی تاریخ میں یہ موڑ پہلی بار آ یا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ مسلمان جو جہادیوں کے خوف سے بھاگ کر چرچوں اور عیسائی گھروں میں پناہ لے رہے ہیں وہ آخر کب تک اسلامی عقیدے پر برقرار رہیں گے اس کا اب کوئی بھروسہ نہیں رہا۔ اگر ان کے بزرگ نہیں تو ان کے جوان اور پھر ان کی اولادیں کب مسیحی عقیدہ اختیار کرلیں یہ اب یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا ہے۔

جی ہاں ! اب واقعی اسلام خطرے میں ہے۔ اب تک تو اسلام خطرے میں ہے یہ نعرہ مسلم قائدین اور اکثر علماء کرام کا ایک سیاسی نعرہ بن چکا تھا لیکن ابھی عرب اور افریقی پناہ گزینوں کیلئے یورپ نے جس طرح اپنی سرحد ہی نہیں بلکہ اپنا دل بھی کھول دیا اس کے بعد یقیناً اسلام خطرے میں نظر آ رہا ہے اور یہ خطرہ اسلام کو مغرب سے نہیں بلکہ ان دہشت گردوں سے ہے جو خود اپنی مسلم عوام پر قہر ڈھا رہے ہیں۔ ارے داعش کو شرم نہیں آتی! شام کے لاکھوں پناہ گزین محض مغربی بمباری نہیں بلکہ خود ساختہ، اسلامی خلافت، کی وحشت سے بے حال ہوکر نہ صرف یورپ میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں بلکہ اب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر یہ کونسا مذہب ہے جس کے ماننے والے خود اسی کے ماننے والوں پر قہر ڈھا رہے ہیں۔ ایک دہشت کی لہر ہے جو اس وقت محض شام اور عراق میں ہی نہیں چل رہی ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان سے لے کر عرب، افریقہ اور دنیا میں جہاں جہاں مسلمان ہیں وہاں وہاں اس لہر کا اثر ہے اور یہ لہر جہاد کے نام پر چل رہی ہے۔ آخر یہ کیا جہاد ہے کہ جس میں لاکھوں مسلمان خود مسلمانوںکی وحشت سے پریشان ہوکر نہ صرف اپنا گھربار چھوڑ رہے ہیں بلکہ اب تو اپنی مسجدیں تک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔کیا یہی ہے اسلام! ہرگز نہیں۔ اسلام کے معنی ہی امن و آشتی ہیں۔ مسلمان کا رب صرف مسلمان کا ہی رب نہیں بلکہ وہ تو رب العلمین ہے۔ اس نبیوں اور بالخصوص خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سارے عالم کے لئے رحمت کا پیغام لے کر بیجھا تھا لیکن آج طالبان، داعش، القاعدہ جیسی تنظیموں اور حافظ سعید جیسے افراد نے اسلام کو نعوذباللہ حرمت کا پیغام نہیں وحشت کا پیغام بنادیا ہے اور ہمارے اکثر علماء ہیں جو اس تماشے پر نہ صرف گردن جھکائے خاموش بیٹھے ہیں بلکہ اکثر ٹی وی اسٹیشنوں سے اسی دہشت کی تبلیغ کررہے ہیں۔

اب عالم اسلام کیلئے وہ وقت آ گیا ہے کہ وہ خود اپنے گلے میں جھانک کر دیکھے کہ آخر اس سے کیا غلطی ہوگئی ! صرف مغرب کو لعنت ملامت کرنے سے اب کام نہیں چلنے والا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تقریباً پچھلے دو برسوں سے مغرب نے مسلمانوں پر قہر ڈھا رکھا ہے لیکن آخر وہ عالم اسلام جو خود کبھی ایک گلوبل پاور تھا اب وہ کیوں اس نوبت کو کیسے پہنچ گیا کہ جو چاہے اس کو غلام بنا لے ! مسلمانوں کی یہ نوبت کیسے پہنچی۔ یہ ایک طویل بحث ہے لیکن ایک بات بالکل واضح ہیکہ پچھلے دو سو برس میں مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کیلئے علماء کرام کی جانب سے اور اسلام کینام پر جو جذباتی تحریکیں چلیں وہ نہ صرف ناکام ہوئیں بلکہ ان سے اسلام اور مسلمان دونوں کو سخت نقصان پہنچا۔ اس ایکسویں صدی میں علم جہاد بلند کر طالبان، القاعدہ، داعش اور لشکرطیبہ جیسی تنظیموں سے نہ صرف مسلمان بے گھر ہورہے ہیں بلکہ اب تو ان تنظیموں سے خود اسلام خطرہ میں ہے۔ اس لئے اہل اسلام کو مغرب کی مخالفت کے نام پر اندھی مغرب دشمنی ترک کرکے اس کو اپنی سیاست اور جدوجہد کا لب و لہجہ اور طرز بھی جدید کرنا ہوگا۔ دیکھئے آخر چھوٹے سے ویتنام نے کیسے سن 1970 کی دہائی میں امریکہ کو شکست دی تھی۔ ویسے ہی اگر مسلمان جدید لب و لہجہ میں اپنی سیاست کرے تو خود یورپ کے عوام ان کی ہمدردی میں سڑکوں پر ویسے ہی نکل پڑیں گے جیسے ابھی وہ مسلم پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے جرمنی میں سڑکوں پر نکل آئے تھے لیکن اس کیلئے جہاد کا بھوت سر سے اتارنا ہوگا۔ اگر ابھی بھی ایسا نہیں ہوا تو سمجھ لیجئے کہ اب واقعی اسلام خطرے میں ہے۔