عرب لیگ کا اسرائیل کو ’یہودی مملکت‘ تسلیم کرنے سے انکار

قاہرہ ، 10 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے قاہرہ میں منعقدہ اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک قرارداد میں اسرائیل کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے کہ فلسطین اسرائیل کو ’یہودی مملکت‘ کے طور پر تسلیم کرے۔ فلسطین اور اسرائیل کے تنازعہ کے حوالے سے سات صفحات پر مبنی اِس قرارداد میں لکھا ہے کہ ’اسرائیل اور چند بین الاقوامی فریقین کے اسرائیل کو یہودی مملکت تسلیم کرنے سے متعلق اِس مطالبے کو مسترد کیا جاتا ہے، جس کا مقصد فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور انھیں زِر تلافی کی ادائیگی کے حقوق کو ختم کرنا ہے۔‘ اِس قرارداد میں اسرائیل و فلسطین کے تنازعہ سے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کا مطالبہ کیا گیا ہے اور عالمی مبصرین پر مبنی ’کوارٹٹ‘ کے کردار کا بھی دوبارہ جائزہ لئے جانے کا کہا گیا ہے، جو قرارداد کے مطابق تاحال مکمل طور پر امن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مصری دارالحکومت میں منعقدہ اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران لیگ کے سربراہ نبیل العربی نے عرب مملکتوں پر زور دیا کہ وہ یہودی مملکت کو تسلیم کئے جانے کے اسرائیلی مطالبے کے خلاف پختہ قدم رہیں۔

العربی نے کہا کہ اسرائیلی مطالبہ امن مذاکرات کیلئے طے شدہ فریم ورک سے ہٹنے کے مساوی ہے۔ انھوںنے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ اِس کے ذریعہ امن مذاکرات کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ روز منعقدہ اِس اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ مارچ کے آخری ہفتے میں کویت میں عرب قائدین کے چوٹی اجلاس میں اِس معاملے کو دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ بعدازاں اجلاس کے اختتام پر فلسطینی وزیر خارجہ ریاض مالکی نے رپورٹروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اِس قرارداد سے صدر محمود عباس کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے اور ان کے موقف کو تقویت ملی ہے۔ فلسطینی صدر عباس عنقریب امریکہ کا دورہ کرنے والے ہیں اور 17 مارچ کو ان کی امریکی صدر براک اوباما کے ساتھ ملاقات طے ہے۔ امکان ہے کہ ان پر اس دورے میں کافی دباؤ ہوگا۔ مالکی نے مزید کہا، ’’عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے یہ قرارداد اِس لئے منظور کی تاکہ محمود عباس واشنگٹن جا کر اُن (وزرائے خارجہ) کے حوالے سے بات کر سکیں۔‘‘ فلسطینی صدر یہ کہہ چکے ہیں کہ ’فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن‘ 1993ء میں اسرائیل کو مملکت کے طور پر تسلیم کر چکی ہے اور یہ کافی ہے۔ فلسطین اوراسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز کئی سال کی تعطلی کے بعد گزشتہ برس ہی ہوا ہے، جس میں واشنگٹن کی ثالثی کا کردار کلیدی رہا۔ تاہم یہ مذاکراتی عمل تنازعات کا شکار ہے کیونکہ فلسطین 1967ء سے اسرائیل کے زیر قبضہ حصوں مغربی کنارے، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم میں مملکت کے قیام کا خواہاں ہے۔