غضنفر علی خان
عراق کی خانہ جنگی انتہائی خطرناک موڑ اختیار کر گئی ہے ۔ اس بات کے قطع نظر کے اس جنگ کی وجہ مشرق وسطی پر کیا اثرات مرتب ہوگی۔ ہمارے لئے یہ بات زیادہ تشویشناک ہے کہ سے ہندوستان کی نئی حکومت جس کو عرفِ عام میں ’’مودی سرکار‘‘ کہا جارہا ہے، سخت دشواریوں کی شکار ہوتی جارہی ہے۔ عرب ممالک سے ہمارے تعلقات نہ صرف دیرینہ تھے بلکہ عالم عرب ہندوستان کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ نئی حکومت کی تشکیل کے بعد ہندوستانی پارلیمان کے پہلے اجلاس سے روایتی خطاب کے دوران عالم عرب کے تعلق سے کوئی ذکر نہیںکیا گیا ۔ گرچہ صدر جمہوریہ یہ خطبہ دیتے ہیں لیکن معنوی اور عملی اعتبار سے یہ حکومت وقت کی پالیسیوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ ایک عرب ڈپلومیٹ نے تو اس طرز پر سوال بھی اٹھایا ہیکہ کیا عرب ممالک اور خاص طور پر خلیجی ریاستوں کے تعلق سے ہندوستان کی خارجہ حکمت عملی میں تبدیلی کی جانے والی ہے ۔ عراق کی خانہ جنگی بھی اس سلسلہ کی کڑی ہے۔ عراق دنیا کا تیل پیدا کرنے والے ممالک میں اہم ترین ملک ہے اور ہندوستان کی تیل کی درآمدات کا 19 فیصد حصہ عراق ہی سے آتا ہے ۔
خانہ جنگی کی صورتحال یہ ہیکہ عراق کے جنگجو دستے (جو باقاعدہ فوج نہیں ہے) عراق میں تیل پیدا کرنے والے علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں ۔ سب سے بڑی آئیل ریفائنری پر ان کا قبضہ ہوچکا ہے ۔ تیل کی بین الاقوامی مارکٹ میں قیمتوں میں اضافے کے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ فی بیارل تیل کی قیمت 11.1 ڈالر سے بڑھ کر 11.5 ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ تیل کی درآمدات کے خرچ بھی اسی رفتار سے بڑھے گا ۔ مودی حکومت نے معاشی محاذ پر سدھار کے جو وعدے کئے تھے اور اس تعلق سے جو منصوبے بنائے تھے وہ اب پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔ اگر عراق کے ان شہروں اور علاقوں میں موجودہ جنگ طوالت اختیار کرتی ہے (جس کا اندیشہ ہے) تو پھر ہندوستان کیلئے نئے چیلنج پیدا ہوجائیں گے لیکن ان نئے چیلنج سے مقابلہ کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی ہے اور نہ اس جانب کوئی توجہ کی جارہی ہے ۔ سفارتی سطح پر بھی خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔ صرف معاشی محاذ پر ہی نہیں بلکہ عراق بحران کے انسانی پہلو پر بھی نئی حکومت کوئی پیشرفت نہیں کر رہی ہے ۔تکریت ، موصل، نجف جیسے شہروں میں پھنسے ہوئے ہندوستانی باشندوں کو رہا کرانے کیلئے کوئی منظم کارروائی کی گئی ہے نہ عراق کے متحارب گروپس سے اور نہ ہی عراقی حکومت سے کوئی ربط ابھی تک پیدا کیا گیا ہے ۔ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کو وزارت خارجہ نے اڈوائزری (جو دوسری ہے) جاری کی ہے کہ ’’وہ ہندوستانی جو جنگ سے متاثرہ علاقوں میں نہیں ہیں، وہ کمرشیل فلائیٹ سے ہندوستان واپس آجائیں ۔ اس ہدایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں ہندوستانی اپنے گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ ہدایت ایک ایسے وقت جاری کی گئی ہے جبکہ ادارہ اقوام متحدہ نے بتایا کہ جنگ میں صرف 17 دنوں میں 1075 انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں ،
اس میں شک نہیں کہ ان میں کوئی بھی ہندوستانی نہیں ہے ۔ بات دراصل یہ ہے کہ مودی حکومت میں جو وزراء شامل ہیں ان میں سے بیشتر کو بین الاقوامی مسائل کی سمجھ بوجھ نہیں ہے اور خارجی امور سے نمٹنے کا کوئی تجربہ ہے ۔ خود وزیراعظم نریندر مودی اس عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے ریاستی مسائل ، مقامی امور پر ہی توجہ دیتے تھے ۔ خارجی امور میں بڑی لچک ہوتی ہے ، عراق جیسی صورتحال اتنی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے کہ آئندہ لمحہ کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ایک اور بات ناتجربہ کاری کے علاوہ یہ بھی ہے کہ عرب دنیا ، خلیجی ممالک اور مسلم دنیا سے بھی مودی سرکار اور اس کے کارندوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ وہ بڑی حد تک محدود انداز میں سوچنے کے عادی ہیں، اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ نئی حکومت کے بننے کے ایک ہی ماہ کے دوران عراق کی خانہ جنگی کا مہیب سایہ حکومت پر پڑا اور وہ حواس باختہ ہوگئی ۔ نہ تو ابھی تک عراق کے ان علاقوں سے جو جنگ سے متاثرہ نہیں ہیں، ہمارے باشندوں کو واپس ہونے کیلئے خصوصی طیارے بھیجے گئے ہیں اور نہ سفارتی سطح پر ایسی کوشش ہوئی ہے۔ حکومت خود کچھ کرنے کے بجائے خوفزدہ ہندوستانی شہریوں کیلئے اڈوائزری جاری کرتی ہے کہ اگر ممکن ہو تو وہ کمرشیل فلائٹ سے اپنے وطن ہندوستان واپس آجائیں۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عراق میں وہ جہاں کہیں بھی ہیں اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں ۔ حکومت کی سوچ ایسی ہے جیسے اترپردیش کے کسی شہر میں فساد ہوگیا ہو اور دوبارہ کرفیو نافذ کردیا گیا ۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس عوام سے اپیل کر رہا ہے کہ عوام اپنے گھروں سے نہ نکلیں ۔ یہ نااہلی ناقابل معافی ہے ۔ نہ تو ان نرسوں کو تکریت کے دواخانہ سے جہاں وہ پھنسی ہوئی ہیں ، رہائی ملی اور نہ 39 ورکرس کو آزادی نصیب ہوئی ، جن میں ایک شخص قید و بند سے کسی طرح فرار ہوکر ہندوستان واپس ہوا ہے ۔ صرف آندھراپردیش اور ریاست تلنگانہ کے تین ہزار باشندے جنگ زدہ عراق میں اس وقت اپنی رہائی اور وطن واپس ہونے کی دعا کر رہے ہیں۔ سینکڑوں لوگ SOS (ہماری جانیں بچائیے) کے دردناک پیامات روزانہ روانہ کر رہے ہیں ۔ وزیر خارجہ سشما سوراج، وزیراعظم مودی اس سلسلہ میں نہ تو کوئی دلاسہ دے رہے ہیں اور نہ کوئی اقدام کر رہے ہیں ۔ اندازہ کیجئے کس ذہنی کرب سے ہندوستانی باشندے بموں کے دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں سن کر گزر رہے ہوں گے۔ ابھی تک وزارت خارجہ نے عراق کی خانہ جنگی پر کوئی علحدہ بیان نہیں دیا ہے ۔ عراق جیسی صورتحال وزارت خارجہ کے لئے کوئی نئی نہیں۔ کویت پر عراق کے حملہ کے وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانی باشندے کویت میں پھنس گئے تھے
لیکن ہندوستانی خصوصی طیاروں کے ذریعہ ان کو ہندوستان لایا گیا تھا ۔ عراق پر امریکی حملہ کے بعد بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تھی ۔ ا س وقت بھی ہندوستانیوں کو واپس لانے کے کئی جتن کئے گئے تھے لیکن اگر حکومت ہی کو اس بات کا شعور نہ ہو کہ عراق کی یہ خانہ جنگی کس طرح ہندوستان کو متاثر کرسکتی ہے ، معیشت کس طرح سے ایسے عراقی بحران سے متاثر ہوسکتی ہے ، ان ہزاروں ہندوستانی خاندانوں کو کیسے جذباتی ماحول میں سے گزرنا پڑ رہا ہے تو پھر کیا کہا جاسکتا ہے ، ایک طرح سے عراق کے بحران کے سلسلہ میں حکومت کی یہ ناقص پالیسی مودی حکومت کی مکمل نااہلی کا ثبوت ہے اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خارجی محاذ پر یہ حکومت آئندہ کتنی غلطیاں کرسکتی ہے ۔ ابھی وقت ہے کہ خارجی حکمت عملی کو از سر نو مرتب کیا جائے ۔ یو پی اے حکومت پر تنقید کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ مودی سرکار کو خود کچھ کر کے دکھانا ہوگا ۔ عام ہندوستانیوں کیلئے عراق کے سفر کی پابندی حکومت نے عائد کی ۔ مشورہ دیا گیا کہ عراق کا سفر نہ کریں لیکن خیر سگالی وفد سفارتی سطح پر کارروائی تو کی جاسکتی ہے ۔ عام ہندوستانی شہری کو ان حالات میں جن مجبوریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ مجبوریاں تو مودی سرکار کو درپیش نہیں ہیں۔ کمی ہے تو صرف بین الاقوامی تقاضوں کو سمجھنے کی ہے ۔ حکومتیں صرف اپنے ملک کیلئے ہی نہیں بنتیں بلکہ انہیں بین الاقوامی برادری کے ساتھ بھی رابطہ قائم رکھنا پڑتا ہے ۔ مودی حکومت اپنے محدود خول سے جتنی جلدی باہر آئے اتنا بہتر ہوگا ۔ مودی حکومت کیلئے اس میں بہتری ہے کہ عالمی برادری کو بھی اندازہ ہوگا کہ یہ حکومت بین ا لاقوامی مسائل سے نمٹنے کا بھی سلیقہ اور حوصلہ رکھتی ہے۔