صابر علی سیوانی
عراق جل رہا ہے۔ پورے ملک میں خانہ جنگی پھیل چکی ہے۔ عقیدے کے نام پر یہاں خون خرابہ کا ماحول گرم ہے۔القاعدہ سے علیحدہ ہوئے عسکریت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ لیونت (آئی ایس آئی ایل ) نے شمال مشرقی عراق میں موصل سمیت متعدد شہروں پر اپنا قبضہ جمالیا ہے، وہ بھی بغیر کسی شدید مخالفت کے۔ اس کی وجہ جہاں ایک طرف 2003ء میں امریکہ اور انگلینڈ کی عراق میں غیرقانونی طور پر دراندازی ہے، وہیں دوسری جانب بغداد میں نوری المالکی کی حکومت کی غلط پالیسیاں بھی ہیں۔ اس سے عراق میں خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کیونکہ شیعہ مذہبی لیڈر آیت اللہ علی الحسینی السیستانی نے جسمانی طور پر صحت مند سبھی شیعہ نوجوانوں سے ہتھیار اُٹھانے کے لئے کہا ہے تاکہ عراقی فوج کی مدد کی جاسکے اور اس آئی ایس آئی ایل کے بڑھتے قدم کو روکا جاسکے ، لیکن عراق میں عدم استحکام کا سب سے زیادہ خطرہ بین الاقوامی صورتحال پر منفی اثرات کے تعلق سے ہے۔ غور طلب ہے کہ عراق کی غیرمستحکم صورتِ حال کی وجہ سے تیل کی قیمت میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔
امریکہ اس صورت حال پر کنٹرول پانے کے لئے عراق کی سرزمین پر فوج اُتارنے کے علاوہ دوسرے متبادل اقدامات پر غور کررہا ہے۔ ان متبادل اقدامات میں ہوائی حملے بھی شاملہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ کی قیادت میں عراق میں 2003ء میں دراندازی کی گئی تھی اور 2011ء میں امریکہ نے اپنی فوجوں کو وہاں سے واپس بلالیا۔ اس دوران لگ بھگ 4,500 امریکی فوجی مارے گئے تھے جس کی وجہ سے اب امریکہ، عراق کی سرزمین پر اپنی فوج تو نہیں اُتارنا چاہتا، لیکن نوری المالکی کی اپنی وفادار حکومت کو بغداد میں برسراقتدار دیکھنا ضرور چاہتا ہے۔
بہرحال عراق کے نئے بحران کے باعث خام تیل فی بیارل 115 ڈالر ہوگیا ہے جو گزشتہ 9 ماہ کے دوران سب سے زیادہ ہے۔ اگر پورے عراق میں خانہ جنگی چھڑ جاتی ہے جس کے امکانات اب قوی ہوگئے ہیں تو تیل کی سربراہی میں کمی واقع ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ تیل کی قیمت میں اضافہ بھی ہوگا جس کے باعث ہندوستان سمیت متعدد ممالک میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ ہندوستان کی تشویش کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جیسے ہی سمارہ اور دیگر عراقی شہروں سے جنگ کی خبریں آنے لگیں تو 13 جون کو سینسکس میں 348.40 پوائنٹ (1.36 فیصد) کی گراوٹ درج کی گئی جو کہ 27 جنوری 2014ء کے بعد سے ایک دن میں آنے والی سب سے بڑی گراوٹ ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے روپئے میں بھی 51 پیسے کی گراوٹ آگئی اور اس کی قیمت 59.76 فی ڈالر ہوگیا۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران روپئے میں ایک دن میں یہ سب سے بڑی گراوٹ ہے کیونکہ تیل درآمد کرنے والے تاجرین خام تیل کی قیمت میں زیادہ اضافہ کے خدشے کے پیش نظر ڈالر خرید رہے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ عراق میں حالات تشویشناک ہیں۔ گزشتہ 10 جون کو آئی ایس آئی ایل کے جنگجوؤں نے نینوا خطے کی راجدھانی موصل پر بہت جلد قبضہ کرلیا۔ اگر آئی ایس آئی ایل نے اب تک بغداد کے قریب جن چھ شہروں (موصل، تکریت، سمارہ، رمادی، تل عفر اور سقلاویہ) پر اپنا قبضہ جمایا ہے، ان میں عراقی فوجیوں کی تعداد جنگجوؤں سے کہیں زیادہ تھی لیکن انہوں نے کوئی خاص جدوجہد کئے بغیر ہی چوکیوں کو چھوڑ دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فوج میں عوام کا ایک طبقہ بھی آئی ایس آئی ایل کی حمایت میں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ السیستانی نے شیعہ نوجوانوں سے ہتھیار اُٹھانے کی اپیل کی ہے لیکن اس سے پورے عراق میں خانہ جنگی کے امکانات کو تقویت حاصل ہورہی ہے۔
اس بڑھتے سیاسی اور سماجی انتشار و بحران کا فائدہ دیگر گروپ بھی اٹھا رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ زبردست ہتھیاروں سے لیس آئی ایس آئی ایل کے جنگجو پورے طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ انہوں نے عراق کے سب سے بڑے خطے عنبر کے انتظامی صدر مقام تکریت پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ عراق کے اس حصے پر قبضہ کرنے کے بعد آئی ایس آئی ایل شام پر بھی اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کرے گا۔ آئی ایس آئی ایل کی قیادت ابراہیم عواد ابراہیم علی البدری کے ہاتھ میں ہے جس نے اپنا نام ابوبکر البغدادی رکھا ہوا ہے۔ یہ دکھانے کے لئے کہ وہ عراقی النسل ہیں۔ آئی ایس آئی ایل کا مقصد مغربی عراق سے شمالی افریقہ تک خلافت نظام کا قیام ہے۔ عراق میں بحران کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ موصل سے لگ بھگ 5 لاکھ لوگ فرار ہوکر کردستان علاقے میں چلے گئے ہیں۔ جو نہ صرف نیم خودمختار خطہ ہے بلکہ عراق کے ان گنے چنے علاقوں میں سے ایک ہے جہاں استحکام دیکھنے کو مل رہا ہے، لیکن اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی کے باعث پناہ گزینوں کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ عراق کا موجودہ بحران تیزی سے بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے اور اس کی ذمہ داری دونوں مالکی سرکار اور جارج ڈبلیو بش انتظامیہ پر جاتی ہے جس نے عراق میں دراندازی کرنے کے فوراً بعد سات لاکھ عراقی مسلمانوں کو فوج سے برخاست کردیا تھا جس کے باعث وہ بیروزگار ہوگئے اور آئی ایس آئی ایل جیسے عسکریت پسند گروپس کو ریکروٹ کرنے کے لئے آسان زمین مل گئی۔ مالکی 2006ء سے عراق کے وزیراعظم ہیں اور اس وقت سے انہوں نے یہ قانون بنایا ہے کہ محض شیعہ ہی فوجی عہدیدار بن سکتے ہیں۔ ساتھ ہی جو مسلم انتظامی عہدیدار بعث پارٹی کے رکن تھے، وہ واپس اپنے عہدوں پر نہیں آسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مالکی نے شیعہ اور سُنّی توازن کو جو پہلے سے ہی کمزور تھا، زیادہ کمزور بنادیا جسے واشنگٹن نے اپنے قبضہ کے آخری دور میں دیر سے متوازن کرنے کی کوشش کی تھی۔ اتنا ہی نہیں مالکی نے اپنے مخصوص دہشت گرد گروپ بھی بنائے ہیں جو اتنے ہی خونخوار ہیں جتنے صدام حسین کی مخصوص اکائیاں تھیں
آج حالت یہ ہے کہ عراق میں شیعہ اور سُنّی طبقات کا زبردست تصادم دیکھنے کو مل رہا ہے جوکہ اس ملک کی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ بغداد مئی سے ہی امریکہ سے اپیل کررہا ہے کہ وہ آئی ایس آئی ایل کے خلاف ہوائی حملہ کرے، لیکن واشنگٹن نے اس بارے میں ابھی تک کوئی سرکاری طور پر فیصلہ نہیں کیا ہے ،حالانکہ ڈرون حملے اور ٹریننگ کے طور پر دوسرے انداز سے تعاون دیئے جارہے ہیں۔ دوسری جانب جہاں سعودی عرب آئی ایس آئی ایل کی حمایت کررہا ہے، وہیں ایران مالکی حکومت کی حمایت میں کھڑا ہے۔ پھر عراق کی پارلیمنٹ میں کسی بھی پارٹی کے پاس قطعی اکثریت نہیں ہے۔ جب مالکی نے مالک ِ کُل بننے کے لئے ارکان پارلیمنٹ سے اپنے حق میں ووٹنگ کی اپیل کی تو 328 میں سے محض 128 ہی ووٹ انہیں ملے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے عراق میں دراندازی کرکے اس ملک کو برباد کردیا ہے کہ اب وہاں صرف خون خرابہ دکھائی دے رہا ہے اور امن و سکون کا دُور دُور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ ایک ہی مذہب کے پیروکار صرف عقیدے کے نام پر خون خرابہ کریں، یہ وہ لوگ جن کی نظر میں عقیدے کے مقابلے میں انسانیت کی کوئی قدر نہیں ہے اور نہ ہی انسانی جانوں کی کوئی اہمیت ہے۔ کیا یہ خون خرابہ کسی مسئلہ کا حل ہوسکتا ہے۔ آخر کیوں یہ دونوں طبقات معصوموں کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ یہ دشمنی انہیں کہاں تک لے جائے گی، شاید انہیں اس کا اندازہ نہیں ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ جانوروں کی طرح عراقی فوجیوں کو منہ کے بل انسانوں کو لِٹاکر گولیوں سے بھون دیا جارہا ہے، اسے دیکھ کر سنگ دل انسان بھی ششدہ رہ جاتا ہے۔ اس کا کلیجہ کانپ جاتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا یہ وہی مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر یہود شرما جایا کرتے تھے۔ اب تو ان انسانوں کے اعمال اور انسانیت سوز حرکات دیکھ کر یہود فخر سے کہنے لگے ہیں کہ ان مسلمانوں سے تو بہتر ہم ہیں کہ ہم عقیدے کی بنیاد پر ایک دوسرے کا قتل نہیں کرتے۔ کیا عراق پر صدام حسین کی پھانسی کے بعد سے نحوست کے بادل منڈلانے لگے ہیں؟
افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ نے عراقی حکومت کی مدد کے لئے باغیوں کے خلاف فضائی حملے کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس نے اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے کہ وہ اپنے کٹر مخالف ایران کے ساتھ بھی اس کیلئے ہاتھ ملا سکتا ہے حالانکہ خود ایران بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ عراقی شیعوں کی پشت پناہی کیلئے عراق میں اپنی فوجوں کو اُتارے۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ اب عسکریت پسندوں نے تل عفر اور سقلاویہ شہروں پر بھی قبضہ کرلیا ہے، اور دوسرے شہر بھی ان کے نشانے پر ہیں ، اس کی وجہ سے حکومت کو زبردست دھکا لگا ہے کیونکہ پہلے ہی عراق کے شمالی علاقہ کا ایک بڑا حصہ حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوچکا ہے۔ اب دوسرے عراقی شہروں پر بڑی تیزی سے عسکریت پسندوں کا کنٹرول بڑھتا جارہا ہے اور مالکی حکومت ناکام دکھائی دے رہی ہے ، اسے تو فوری طور پر اقتدار سے ہٹ جانا چاہئے۔ ایسے حالات میں جب پورا عراق سُلگ رہا ہے۔ قتل و خونریزی عام ہوچکی ہے تو عالم اسلام کو سَر جوڑ کر اس قتل و غارت گری کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے، ورنہ امریکہ اور ایران مل کر عراق کو مزید برباد کرڈالیں گے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہ جائیں گے۔
mdsabirali70@gmail.com