عراق میں ہولناک تشدد، 28ہلاک

کرکک 21 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) عراق میں پارلیمانی انتخابات سے عین قبل خونریزی، قتل و غارت گری میں ہولناک اضافہ کے درمیان عسکریت پسندوں نے شمالی صوبہ کے ایک گاؤں پر قبضہ کرلیا جبکہ ملک کے مختلف مقامات پر بم دھماکوں اور خودکش بمبار حملوں میں 28 افراد ہلاک ہوگئے جن میں 10 ملازمین پولیس بھی شامل ہیں۔ اضطراب اور بدامنی کی تازہ ترین لہر ایک ایسے وقت شدت اختیار کی ہے جب 30 اپریل کو منعقد شدنی پارلیمانی انتخابات کی مہم کے آغاز کے لئے بمشکل ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔

یہ جنگ زدہ ملک 2006-07 ء کے دوران شیعہ و سنی مسلمانوں کے درمیان بدترین مسلکی تصادم کا سامنا کرچکا ہے جس میں ہزاروں عراقی ہلاک ہوگئے تھے۔ عراق کی سنی عرب اقلیت کی ناراضگی اضطراب و بے چینی کے آغاز کا سبب بنی تھی کیونکہ عرب اقلیت نے شیعہ حکومت اور سکیورٹی فورسیر پر مبینہ امتیازی سلوک کا الزام عائد کیا تھا۔ مزید برآں پڑوسی ملک شام میں خانہ جنگی بھی اس ملک میں افراتفری کی ایک وجہ ہے۔ شمالی و مغربی عراق کے سنی اکثریتی علاقوں میں آج بڑے پیمانے پر پرتشدد واقعات پیش آئے جس میں بشمول 10 ملازمین پولیس کم سے کم 28 افراد ہلاک اور دیگر 29 زخمی ہوگئے۔ سرہا گاؤں میں عسکریت پسندوں نے آج طلوع سے قبل حملہ کردیا اور دوپہر تک اس پر قبضہ کرلیا۔ لیفٹننٹ جنرل عبدالعامر زیدی کے مطابق حملہ کے دوران بندوق برداروں نے بڑے پیمانے پر فائرنگ کی اور ایک خودکش دھماکہ بھی کیا گیا۔

عراقی عہدیداروں نے کہا ہے کہ چند بندوق برداروں نے آج بغداد کے شمال میں ایک پولیس بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں ایک کمانڈر اور سات کانسٹبلس ہلاک اور دیگر 15 زخمی ہوگئے۔ پولیس نے کہاکہ موضع عنجان میں آج صبح یہ حملہ ہوا جہاں ایک خودکش بمبار دھماکو مواد سے لدے ٹرک کے ساتھ عمارت کے احاطہ میں گھس گیا۔ بعدازاں دیگر حملہ آوروں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ بریگیڈ کمانڈر راغب العمری اور ان کے نائب افسر بھی مہلوکین میں شامل ہیں۔ طبی عہدیداروں نے ہلاکتوں کی توثیق کی ہے۔ عراق میں گزشتہ سال اپریل سے تشدد میں ہولناک اضافہ ہوا ہے۔ 2008 ء کے بعد اس قسم کے واقعات میں کمی ہوئی تھی لیکن 2013ء سے ایسے حملوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ہے جو شیعہ وزیراعظم نوری المالکی کے زیرقیادت حکومت کیلئے ایک سنگین چیلنج ہیں۔