بغداد 24 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) بغداد کے شمال میں قیدیوں کو منتقل کرنے والے ایک قافلہ پر حملہ سے کم از کم 60 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ سیاستدانوں اور سفارت کاروں نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران عراق کے بدترین بحران کو ختم کرنے کی کوششوں میں شدت پیدا کردی ہے۔ بیشتر مہلوکین قیدی تھے جن کے ساتھ نگرانکار عملہ پر حملہ کیا گیا۔ پولیس کے بموجب یہ دہشت گردی کے ملزم عسکریت پسند تھے۔ دارالحکومت کے متصلہ علاقہ تاجی میں حملہ کے دوران دھماکے سنائی دیئے۔ اقوام متحدہ کے معتمد عمومی بانکی مون آج اپنے مشرق وسطیٰ کے دورہ کے موقع پر اچانک عراق بھی پہونچ گئے۔ فوج کے ذرائع کے بموجب قیدیوں کو احتیاطی اقدام کے طور پر منتقل کیا جارہا تھا کیوں کہ کل تاجی کے قید خانہ پر مارٹر حملے کئے گئے تھے۔
حملہ کے بالکل درست حالات فوری طور پر واضح نہیں ہوسکے اور نہ یہ معلوم ہوسکا کہ کتنے حملہ آور اور کتنے قیدی ہلاک ہوئے ہیں۔ واضح طور پر یہ حملہ قیدیوں کو آزاد کروانے کی کوشش تھی۔ بس 60 قیدیوں اور طبی عملہ کے ارکان کو منتقل کررہی تھی جن میں سے 50 سحر کے وقت حملہ میں ہلاک ہوئے۔ وہ تمام قیدی تھے۔ کئی نعشیں اتنی جھلس گئی ہیں کہ شناخت ناممکن ہے۔ فوج نے حال ہی میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو 9 جون سے اب تک 250 سے زیادہ قیدیوں کو سزائے موت دینے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ عراقی فوج نے جب قیدیوں پر گولی چلائی تو اُس وقت اُن کی ہمدرد آئی ایس آئی ایل گروپ کی فوجیں پیشرفت کررہی تھیں جنھوں نے قید خانہ کو نذر آتش کردیا اور قیدیوں کے کمروں پر دستی بم پھینکے۔ 9 جون کو جارحانہ کارروائی کے آغاز سے اب تک آئی ایس آئی ایل نے ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل کو فتح کرلیا ہے ۔