عامر علی خان
سرزمین عراق کا جب ذکر آتا ہے تو ذہن میں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسینؓ اور خانوادے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کربلا میں جام شہادت نوش کرنے کا واقعہ تازہ ہوجاتا ہے ۔ جہاں حضرت امام عالی مقام اور آپ کے شہزادوں و دیگر جانثاروں نے اپنی جانیں جاں آفریں کے حوالے کرتے ہوئے اسلام کی حفاظت کی تھی ۔ سانحۂ کربلا میں آل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بہادری ، شجاعت و امامت اور سخاوت کا جو مظاہرہ ہوا تھا آج بھی اس کی خوشبو ہم محبان اہل بیت محسوس کرتے ہیں ۔ کربلا میں حضرت امام عالی مقام نے اپنا سرمبارک کٹا کر باطل کا سر ایسے نیچے کیا کہ ہر دور میں باطل ذلیل و رسوائی کی تاریکی میں ڈوبا رہا اور ڈوب رہا ہے۔ عراق کے ساتھ عراقی شہر نجف اشرف اور کربلا کا نام لیا جائے تو بے شک آنکھیں نم ہوجاتیں ہیں ، قلوب و اذہان میں باطل کے خلاف کمربستہ ہوجانے کا پاکیزہ جذبہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ حضرت علیؓ اور اہل بیت اطہار سے کون مسلمان محبت نہیں کرتا ۔ اگر ان کے ساتھ محبت نہیں تو پھر مسلمان ہی کیسا؟ بہرحال اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اللہ نے اپنے گھر خانہ کعبہ اور اپنے محبوبﷺ کے روضہ مبارک مدینہ منورہ کے بعد الحمدللہ اسلام کے ایک اور مقدس مقام یعنی کربلا اور نجف اشرف کی زیارت کا موقع دیا اور آغا سلطان سے وصول ہونے والے دعوت نامہ جسے روضہ نواسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسن کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم ہوا ۔
عراق میں پیران پیر حضرت غوث اعظم دستگیرؒ کا روضہ مبارک بھی ہے جہاں نامساعد حالات میں بھی دنیا کے کونے کونے سے لوگ حاضری دیتے ہیں ۔ سرزمین عراق نے کربلا کا منظر بھی دیکھا ، انقلابوں کا مشاہدہ بھی کیا ۔ حکومتوں کے زوال سے دوچار ہونے کا نظارہ بھی کیا ۔ صدام حسین کے مضبوط اقتدار ، ان کی معزولی ، امریکیوں کی چالیں ، یہودیوں کی مکاری اور داعش کے مظالم کے تجربات و مشاہدات سے بھی اس سرزمین کو گزرناپڑا ۔ روضہ حضرت امام حسینؓ کے ذمہ دار شیخ عبدالمبدی کربلائی جو کہ عظیم مرجع آیت اللہ علی سستانی کے نمائندہ ہیں اور سید سعدالدین النبنا ڈائرکٹر روضہ امام حسین ؓبورڈ کے تعاون سے الحمدللہ ان مقامات مقدسہ کی زیارت کا موقع ملا ۔ عراقی شہر کربلا و نجف میں ہولی شرائن بورڈ کی جانب سے تقریباً 5 کروڑ زائرین کی میزبانی کی جاتی ہے ۔ دنیا بھر سے ان مقدس مقامات کو پہنچنے والے زائرین کا ہولی شرائن بورڈ کے ذریعہ ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے ۔
آج کل صدام حسین کے بعد امریکہ کی جانب سے جو بدامنی کی حالت ملک عراق میں پیدا کی گئی اور وہاں کی عظیم تہذیب کو تار تار کیا گیا ہے اسے کوئی بھی مسلمان بھول نہیں سکتا ۔ امریکہ نے مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے کیلئے یہود سے مل کر کوئی کسر نہیں چھوڑی ، عراق ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں اس نے اپنے اثرات چھوڑے اور بدگمانیاں پھیلا کر ملت اسلامیہ میں فرقہ پسندی کے نام پروہ اختلافات کو ہوا دینے میں مصروف ہے۔
دراصل صدام حسین کے 24 سالہ اقتدار یا خود صدام کے سنی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے شیعہ اکثریت کو اقتدار سونپا ۔ اور یہ سوچ لیا کہ شیعہ لوگ سنی حضرات پر زور زبردستی کرتے ہوئے اقتدار سنبھالیں گے لیکن ایسا ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ وہاں سے امریکہ نے ایسی حالت میں راہ فرار اختیار کی کہ ہر کوئی اقتدار کے پیچھے ہوگیا ۔ شیعہ ہو یا سنی اسکا کسی کو ہوش نہیں ۔ نئی ریاست جہاں پر حالت ٹھیک نہیں ہیں ۔ وہاں ایسا لگتا ہے کہ علاقہ واریت اور فرقہ واریت کو اہمیت دی جارہی ہے۔
لیکن اپنے مختصر سے دورہ میں جن حالات کو میں نے بھانپا اور سمجھنے کی کوشش کی اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا ہے کہ عراق اب سنبھل جائے گا چونکہ عراق میں اب، عراقی فرقہ واریت ، علاقہ واریت ان سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عراقی ہونے پر توجہ دے رہے ہیں ۔ انھیں اندازہ ہوگیا ہیکہ شیعہ ۔ سنی ۔ کرد نہیں بلکہ پہلے عراقی کہلانا پسند کریں تو نہ صرف باطل طاقتوں کو اپنے بل پر پسپا کرسکتے ہیں بلکہ انہیں ناکام بناتے ہوئے عراق کے حالات کو درست کرسکتے ہیں ۔ ایک اللہ ، ایک قرآن ، ایک رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ماننے والی قوم کو اختلافات سے دور رہنا چاہئے ۔ راقم الحروف دنیا بھر کی بات تو نہیں کرسکتا لیکن جہاں تک میرے ملک میری ریاست اور میرے شہر کا سوال ہے میں ایسی کسی بھی سازش کو ناکام کردوں اور میرے زور قلم سے ایسی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے سازشوں کے خلاف جنگ کروں گا جو نہ صرف میرے ملک بلکہ میری قوم کیلئے بھی خطرناک ہو اور اتفاق بین المسلمین میری تربیت کا ایک اہم حصہ بھی ہے ۔ہم اپنے سفر نامہ کے ذکر میں پہلے مقامات مقدسہ پراجکٹ کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ جنگ و شورش زدہ عراق میں یہ ایک ایسا بڑا و عظیم پراجکٹ ہے جس کے مقاصد خدمت خلق کے جذبہ کی عکاسی کرتے ہیں ۔
مالی بحران کے علاوہ داعش کے خطرات کے باوجود مقامات مقدسہ نجف اشرف اور کربلا مقامات مقدسہ پراجکٹ کے جاری کاموں کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ عراق آج پریشان کن صورتحال سے گذر رہا ہے ۔ چونکہ یہ کام متاثرین کی امداد ، راحت کاری اور پناہ گزین کو پناہ و دیگر اہم خدمات کا مرکز ہے ۔اور سب سے بہترین اور قابل تعریف اقدام یہ کہ اس پراجکٹ (ہولی شرائن) کی عمل آوری کے دوران کسی بھی تاریخی ورثہ کو نقصان نہیں پہونچایا گیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ تاریخی ورثہ کو محفوظ رکھتے ہوئے ہولی شرائن پراجکٹ انجام دیا جائے ۔ ہولی شرائن بورڈ کی جانب سے ایک دواخانہ چلایا جاتا ہے ۔ جہاں مفت علاج ، آپریشن ، گردوں سے متعلق امراض کا علاج رعایتی قیمتوں پر زائرین کے لئے فراہم کیا جاتا ہے ۔ ہولی شرائن پراجکٹ کے تحت کربلا میں ایک ایرپورٹ کی تعمیر کی جارہی ہے جو آئندہ دو سال میں مکمل ہوجائے گی ۔ تاکہ سارے عالم سے آنے والے زائرین کو مقامات مقدسہ کی زیارت کا موقع فراہم ہوسکے ۔ شیعہ زائرین ہوں یا پھر سنی ، مقدس مقامات کی زیارتوں کے لئے آنے والے ہیں ۔ کربلا میں ایرپورٹ کے علاوہ سوپر اسپشیالٹی ہاسپٹل ، مہمان خانے ، اسکولس ، کالجس اور زائرین کی سہولت کے لئے قائم کئے جانے والے سنٹرز ، ہوٹلس ، ماڈرن ٹرانسپورٹ سسٹم کے علاوہ ، ہیلتھ سنٹر وغیرہ کیلئے اربوں روپئے خرچ کئے جارہے ہیں اور وسیع پیمانے پر مثالی خدمات و معیاری سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ۔ اربعین کے موقع پر تقریباً ڈھائی تا 3 کروڑ زائرین کی آمد و رفت کے پورے انتظامات ہولی شرائن بورڈ کرتا ہے۔ نجف اور کربلا میں زائرین کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن عوام کا جذبہ کم نہیں ہوتا ۔ اس ہولی شرائن پراجکٹ کے احاطہ میں دریائے فرات کے پانی کو بھی شامل کیا گیا ہے اور پورا علاقہ پراجکٹ کی تکمیل اور ان افراد کی محنت سے پررونق تھا تو وہیں دوسری طرف بے شمار حقہ سنٹر اور بلیرڈ پارلرس اور اس میں شہریوں کی اکثریت بھی دیکھی گئی ۔
عراق میں چار مرجع ہیں
ان میں صدر مرجع آیت اللہ علی سیستانی ہیں ۔ انکے فتوے کے بعد ہی داعش پر حملے شروع ہوئے ۔مذہبی اعتبار سے مذہبی امور کے صدر سستانی ہیں ۔ جبکہ نائب صدر شیخ بشیر حسین النجفی ہیں ۔ عراق اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے ۔ امریکہ جب تک عراق میں تھا اپنا اثر دیکھتا رہا ۔ لیکن جب وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا تب بھی اس نے عراق سے کچھ اچھا نہیں کیا ۔ بلکہ اپنے ناپاک عزائم کو تفرقہ کی بنیاد پر پورا کرنے کی بھیانک سازش رچتے ہوئے داعش کے وجود میں آنے کا سبب بن گیا ۔ عراقی یہ جان چکے ہیں کہ امریکہ جو کچھ عراق میں کررہا ہے وہ سب غلط ہے ۔ عراق کے اہم وزیر دفاع خالد المہندی سنی ہیں اور داعش کے خلاف جاری لڑائی کی پوری ذمہ داری انہیں ہی تفویض کی گئی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ ہولی شرائن بورڈ کی جانب سے ایک دواخانہ چلایا جاتا ہے جہاں مفت علاج کیا جاتا ہے ۔ وہاں ہماری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو داعش کے حملہ میں زخمی ہوگیا ۔ یہ کبھی عراق صدر صدام حسین کی فوج کا سپاہی تھا ۔ جو اب داعش سے مقابلہ کررہا ہے وہ سلطانیہ میں داعش سے مقابلہ کے دوران ایک حملہ میں شدید زخمی ہوگیا تھا ۔ اور اس دواخانے میں زیر علاج ہے ۔ اس کی حالت اس کی عمر کے باعکس ہے ۔ 35 سالہ عادل فوضی دیکھنے میں 50 سالہ دکھائی دیتا ہے ۔بلکہ ضعیفی کی حالت میں پہونچ چکا ہے جس جتھہ میں عادل فوجی شامل تھا اسکے کمانڈر حاجی طالب رحماء اس لڑائی میں جاں بحق ہوگئے۔ عادل فوضی کی زبانی سن کر ہم حیران تھے کہ آخر ماجرا کیا ہے جو کچھ دنیا کے سامنے حالات ہیں اور عادل فوضی جو بتارہا ہے وہ بالکل ایک دوسرے کے متضاد ہیں ۔ عادل فوضی کا کہنا تھا کہ کمانڈر حاجی طالب نے لڑائی میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ امریکہ کی جانب سے داعش کے لئے ہتھیار گرائے جارہے ہیں اور یہ نظارہ دیکھنے کے بعد عادل فوضی کو اس کے کمانڈر نے سنایا تھا ۔ عادل فوضی کی ملٹری تربیت صدام حسین کے دور میں ہوئی اور وہ اب داعش کے خلاف لڑائی میں معذور ہوگیا ہے ۔ اس زخمی اپاہج فوجی کا کہنا تھا کہ داعش کے خلاف جاری لڑائی میں اسکا بھائی بھی شامل ہے ۔ ہمارے پورے دورہ کے دوران جہاں ہم نے ہولی شرائن پراجکٹ پر توجہ دی تو وہیں داعش کے تعلق سے بھی ہم کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ حالانکہ ہم نے پہلے ہی مقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہوئے فیض حاصل کرلیا تھا ۔ داعش کے تعلق سے ہمیں کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملا ۔اور داعش کے خلاف ہماری کھوج میں ہمیں عادل فوضی کے اس بیان کا سامنا رہا جو اسکے کمانڈر حاجی طالب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔داعش کے تعلق سے ہمیں کوئی جواب نہیں ملا نہ ہی انکی اصلیت اور نہ ہی ان کی طاقت کے بارے میں کوئی معلومات حاصل ہوسکیں ۔ ہمارے دورے میں اخذ کردہ نتائج سے ہمارے لئے اس بات کا اندازہ مشکل تھا کہ آخر ان کی تعداد کتنی ہوگی ۔ البتہ کچھ صحافیوں سے ملاقات کے بعد انہوں نے بتایا کہ داعش سے مقابلہ کرنے والی عراقی فوج کے علاوہ رضاکارانہ طور پر داعش سے مقابلہ کرنے والی بہت طاقتیں ہیں جیسے عراقی حکومت الحشد الشعبی کا نام دیتی ہے ۔ انکی تعداد دیڑھ لاکھ کے قریب ہے ۔ یہ دراصل رضاکاروں کی تنظیم ہے جسے عراقی حکومت داعش کے جنگجووں کا مقابلہ کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر اسلحہ فراہم کرتی ہے ۔ عباس بریگیڈ انکی تعداد 50 ہزار سے زائد ہے ۔ عباس بریگیڈ الحشد الشعبی کی ایک ونگ ہے ۔ 50 ہزار رضاکار فورس کو حکومت نے ہتھیار فراہم کئے اور داعش کے خلاف لڑائی کیلئے حکومت نہ صرف انہیں ہتھیار فراہم کرتی ہے بلکہ انکی تربیت بھی کی جاتی ہے ۔ الحشد الشعبی کی اس طاقتور ونگ عباس بریگیڈ کی 50 ہزار تعداد میں سے صرف 35 ہزارہی داعش کے خلاف محاذ میں سرگرم ہیں ۔ جبکہ 15 ہزار کو محفوظ رکھا گیا ہے جنہیں حالات کے لحاظ سے استعمال کیا جاتا ہے ۔ مغرب کا تسلط ختم ہونے کے باوجود مغربی میڈیا اپنی ناپاک سازش کو عراق میں جاری رکھے ہوئے ہے ۔
مغربی میڈیا کی طرف سے عراق مسئلہ کو بار بار شیعہ سنی کا جھگڑا قرار دیا جارہا ہے ۔ جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے ۔ حالات اس کے برعکس ہیں ۔ آیت اللہ بشیر حسینی نے جو کہ طاقتور عباس بریگیڈ کے کمانڈر ہیں بتایا کہ داعش کا خطرہ ہے تاہم ملک کے اندر سنی اور شیعہ کا کوئی جھگڑا نہیں ہے ۔ انہوں نے بتایاکہ داعش میں اب تک کسی ہندوستانی کے شامل رہنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے ۔ البتہ پاکستان ، افغانستان ، روس کے ٹکڑے ہونے کے بعد تشکیل پائے ممالک ازبکستان ، تزاکستان ، ترکمنستان ، آزر بائیجان وغیرہ ممالک کے لوگ داعش میں شامل ہو کر عراقی فوج کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ عراقی فوج داعش کا ہر طرح سے ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے اور کئی مقامات پر داعش کو پسپا بھی کیا گیا ۔ عراقی فوج کے ساتھ داعش سے مقابلہ میں عراقی رضاکار بہت زیادہ موثر ثابت ہورہے ہیں ۔ جیسے الحشد الشعبی کے بالخصوص عباس بریگیڈ ، اسی بریگیڈ کے کمانڈر شیخ میصان زیدی نے یہ بھی بتایا کہ انکے بریگیڈ کے 50 کمانڈر داعش کے خلاف جنگ میں ہلاک ہوگئے جبکہ داعش کے کتنے عسکریت پسند ہلاک ہوئے انکی تعداد کا پتہ نہ چل سکا بلکہ یہ تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہے ۔ داعش کے بڑھتے اثرات کی باتیں جاری ہیں لیکن جہاں داعش محاذ میں جٹا ہے اسی مقام پر ایسے کچھ زیادہ اثرات دکھائی نہیں دیتے ۔ ہم نے داعش کے وجود سے لیکر اسکی موجودہ حالات اور طاقت کے علاوہ اہم پہلو اس کو حاصل ہونے والی مدد کے متعلق جاننے کی کوشش کی ۔ یہ پوچھے جانے پر کہ آیا داعش کو کسی کی مدد حاصل ہے ۔ کیا اسکی مدد میں سرکاری عہدیدار بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور داعش کی مدد کرتے ہیں تو اس تعلق سے کوئی اطمینان بخش جوابات حاصل نہیں ہوئے ۔ جبکہ دانستہ طور پر ایسے افراد داعش سے نرم گوشہ رکھتے ہیں جنہیں حکومت سے شکایت ہے اور حکومت سے ناراض ہیں ۔ ان میں عراقی قائدین بھی ہیں اور ایسے سرکاری عہدیدار بھی ہیں جو حکومت سے ناراض ہیں ۔ایسے افراد بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں جو سیاسی میدان میں سرگرم ہیں ۔ ان لوگوں پر الزامات ہیں کہ یہ لوگ داعش کو مدد فراہم کررہے ہیں تاہم عراقی فوج بڑی ہمت کے ساتھ داعش کا مقابلہ کرتے ہوئے انکے دائرے کو تنگ کرنے میں جٹی ہوئی ہے اور اس محاذ میں عراقی فوج کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے اور داعش کو عراقی فوج نے ایک صوبے تک محدود کردیا ہے ۔ البتہ دورے کے دوران داعش کی جو حرکتیں اور سرگرمیاں اور اسکے نتائج دیکھنے اور سننے میں آئے اس کے بعد کوئی بھی اسے مسلمان نہیں کہہ سکتا ۔ داعش کے ویڈیوز اور ان کے مقابلہ کرنے والی عراقی فوج کو روزانہ عراقی ٹیلی ویژن پر بتایا جاتا ہے اور عراقی ٹیلی ویژن کے ٹیلی کاسٹ سے الحشد الشعبی کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ سال 2014 میں عراقی فوج کی پسپائی کے بعد ملک میں عراقی حکومت اور فوج نے الحشد الشعبی کو وجود میں لایا ۔ اور عوام کو ہتھیار مہیا کئے اور داعش سے مقابلہ کے لئے عوام کو تیار کرلیا اس طرح عراق اپنی بقا کی جنگ میں جٹ گیا ہے ۔ عراقی حالات میں سدھار اور ترقی اب عراقی شہریوں کے ہاتھ میں ہے ۔ ان کے ہاتھ ہتھیار تو آگیا ساتھ ہی اب وہ سنی ۔ شیعہ ۔ کردی اور دیگر فرقہ واریت ، علاقہ واریت اور نسل پرستی کو چھوڑ ک صرف عراقی تصور کرنے کی سوچ کو فروغ دیں تو عراق کو عراقیوں سے کوئی چھین نہیں سکتا اور عراق کا چین و سکون عراقیوں میں لوٹ آئے گا جو نہ صرف عراق کیلئے بلکہ مشرق وسطی کے لئے بھی کارآمد ثابت ہوگا ۔ عراق کے اس دورے بالخصوص مقامات مقدسہ کا دورہ کروانے میں آغا سلطان کا اہم رول رہا ۔
ہم یہاں آغا سلطان کے تعلق سے اور انکی شخصیت و سرگرمیوں سے آگاہ کروانا بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ آغا سلطان معروف سماجی کارکن اور ماہر تعلیم ہیں ۔ وہ بنگلور شہر کے متوطن ہیں لیکن امام حسینؓ ہولی شرائن بورڈ سے جڑے ہوئے ہیں ۔ طب اور تعلیم کے شعبہ میں خدمت سے جڑے ہوئے ہیں ۔
وہ 2005 سے صرف انسانیت کی بنیاد پر خدمت کررہے ہیں ۔ڈاکٹر دیوی شٹی ہیلتھ سٹی کے چیرمین نارائنا کی مدد سے عراق کے لوگوں کو ٹیلی میڈیسن کے ذریعہ مدد کررہے ہیں ۔ السفیر ہاسپٹل میں قائم سنٹر سے کئی مریضوں کا بذریعہ انٹرنیٹ علاج کروایا گیا ۔ اسکے علاوہ کئی لوگ جنہیں سرجری ضروری تھی ایسے عراقی شہریوں کو بنگلور طلب کرتے ہوئے انکا علاج بھی کروایا گیا ۔معروف فزیو تھراپسٹ ڈاکٹر علی ایرانی نے جاوید جعفری فلم آرٹسٹ کی مدد سے کربلا میں بھی خدمات انجام دیں ۔ گذشتہ اربعین کے موقع پر 7 خواتین اور تین مرد ڈاکٹروں کی ٹیم کے ذریعہ زائرین کی خدمات انجام دی گئیں ۔ اور زائرین کی سہولت کیلئے وہاں پر قیام بھی کروایا اور انکی خدمات جاری ہیں۔ آغا سلطان نے جو تحریکی صلاحیت کے حامی اور جذبہ سے سرشار بلند عزائم اور سماجی خدمت کا جذبہ رکھنے والی شخصیت ہیں ، بتایا کہ زائرین جو مختلف عالمی ممالک سے نجف اشرف اور کربلا آتے ہیں ایسے زائرین جو بیمار اور جن کی صحت خراب ہوتی ہے انہیں السفیر ہاسپٹل میں مفت علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور یہ خدمات جاری ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف ہولی شرائن پراجکٹ کا کام تیزی سے جاری ہے ۔ اس پراجکٹ کی تکمیل کے بعد سہولیات اور خدمات مثالی ہوجائیں گی ۔ تاہم السفیر ہاسپٹل کی اہمیت باقی رہے گی ۔ عراق کے شہر کربلا و نجف اشرف میں مقامات مقدسہ کے اس دورے میں ہمارے ساتھ 17 ہندوستانی صحافی شامل تھے ۔ اور یہ صحافیوں کی ایک ٹیم تھی جس میں ڈاکٹر حفیظ الرحمن ، صوفی پیس فاونڈیشن ، سعدیہ دہلوی ، اجمل حاجی ، رادھیکا مورڈیا ،سونیا سرکار ، محمد اسماعیل ، عظمت اللہ شریف ، ڈاکٹر یامین انصاری ، پرشانت کمار ، افتخار جیلانی ، سمیرا شرکتلانی ، بھوپیاندر کمار چوبے ، عارضیہ خانم ، خورشید ربانی ، وسیم راشد و دیگر شامل تھے ۔