عراق انتخابات میں مقتدا الصدر کو سبقت ‘ تشکیل حکومت میں مشکلات

مقبول مذہبی رہنما کو حکومت سازی سے روکنے ایران سرگرم ۔ فوجی عہدیدار قاسم سلیمانی کی وزیر اعظم حیدرالعبادی سے بات چیت
بغداد 19 مئی ( سیاست ڈاٹ کام ) عراق کے انتخابات میں قطعی نتائج کا اعلان ہوگیا اور یہ توثیق ہوچکی ہے کہ مقبول مذہبی رہنما مقتدا الصدر کو ان انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے تاہم انہیں اب بھی حکومت سازی کیلئے درکار تائید حاصل نہیں ہوسکی ہے اور حکومت بنانے کیلئے انہیں دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحاد کی ضرورت ہوگی ۔ عراق میں پارلیمنٹ کی 329 نشستوں کیلئے 12 مئی کو رائے دہی ہوئی تھی اور کہا گیا ہے کہ مقتدا الصدر کے گروپ کو اب تک 54 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوچکی ہے ۔ 12 مئی کے انتخابات کو مایوس کن قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ انتہائی کم تعداد میں لوگ رائے دہی کیلئے آگے آئے تھے ۔ اس کے علاوہ یہاں بیرونی عوامل کا بھی اثر رہا ہے ۔ یہاں شیعہ ملیشیا نے 2003 کے بعد امریکی قبضہ کی تائید کی تھی اور اب اسے منقسم سیاسی صورتحال درپیش تھی اس کے علاوہ اسے ملک کے انتخابات میں اہم مقام رکھنے والے ایران کی بھی مخالفت کا سامنا تھا کیونکہ عراق میں بیرونی اثر و رسوخ کو کم سے کم کرنے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ مقتدا الصدر خود کو ایک مخالف کرپشن کارکن کی حیثیت سے منواچکے ہیں اور انہوں نے سکیولر روایات کی حامل بائیں بازو کی طاقتوں سے اتحاد کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ عراق کے انتخابات میں بادشاہ گر کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ ملک میں بین طبقات اور بین نظریاتی گروپس پر مشتمل حکومت کے قیام میں مقتدا الصدر کو مرکزی مقام حاصل رہے گا ۔ ابھی تک تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ آیا الصدر کا گروپ خود حکومت کی دعویداری پیش کریگا یا نہیں۔ ملک میں وزیر اعظم حیدرالعبادی کے اتحادی بلاک کو توقعات سے کم کامیابی مل سکی ہے ۔ وزیر اعظم کو امید تھی کہ انہوں نے چونکہ آئی ایس کے خاتمہ میں اہم رول ادا کیا ہے اس لئے رائے دہندے ان کی تائید کرینگے ۔ الصدر نے اپنے ٹوئیٹر پر ادعا کیا کہ رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اتحاد کو کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ ان کا ادعا تھا کہ ان نتائج سے کرپشن کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ الصدر کو تاہم علاقائی صورتحال کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا اور حکومت سازی میں ان کا رول اہم ہونے کے ساتھ مشکل ضرور ہوگا ۔ انہیں بڑی آسانی سے اپنے مطلب کی حکومت بنانے میں کامیابی نہیں مل سکتی کیونکہ اس میں کئی امور کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ انہیں دوسری جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور ان کے ساتھ کام کرنے میں اصل مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ وزیر اعظم حیدر العبادی نے یہ دعوی کیا تھا کہ ان کی حکومت نے ملک کو آئی ایس سے آزادی دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے اور وہ آگے بھی ایسا کرنے کی کوشش کریگی ۔ حیدر العبادی نے نئی حکومت کی تشکیل کیلئے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اقتدار کی منتقلی کو سہل اور پرسکون بنانے کیلئے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کرینگے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ نئی حکومت بھی شفافیت کے ساتھ کام کرے گی ۔ علاوہ ازیں کہا جا رہا ہے کہ ایران کی جانب سے مقتدا الصدر کو حکومت بنانے سے روکنے کیلئے بھی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ عراق میں الصدر کی کامیابی کے اعلان سے قبل ہی ایران کی جانب سے کچھ قائدین سے رابطہ کرنے اور اجلاس منعقد کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تاکہ الصدر کو حکومت بنانے سے روکا جاسکے ۔ ایران نے طاقتور فوجی عہدیدار جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد روانہ کیا ہے جنہوں نے عراق کے کئی قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں۔ انہوں نے حیدرالعبادی کے علاوہ سابق وزیر اعظم نوری المالکی سے بھی بات چیت کی ہے ۔ عہدیداروں کے بموجب سلیمانی نے الصدر کے ساتھ کسی اتحاد کا امکان مسترد کردیا ہے جنہوں نے گذشتہ سال سعودی عرب کا دورہ کرتے ہوئے سب کو حیران کردیا تھا ۔