بغداد ۔ 28 جون ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) عراق میں سیاسی قائدین اب اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ وہ اپنے آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کے آئندہ وزیراعظم کے لئے کئے جانے والے ایک معاہدہ کیلئے تیار رہیں۔ ان سیاسی قائدین پر شیعہ عالم دین کازبردست دباؤ ہے کہ آئندہ ہفتہ پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل ملک کے آئندہ وزیراعظم کا فیصلہ ہوجانا چاہئے ۔ شیعہ عالم دین آیت اﷲ علی السیستانی کی اپیل ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ملک کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہوگیا ہے جہاں القاعدہ سے علحدگی اختیار کرنے والے گروپ اسلامک اسٹیٹ آف عراق نے شمالی اور مغربی حصوں پر قبضہ کرلیا ہے جبکہ کرد بھی طویل عرصہ سے متنازعہ سرحدوں پر قابض ہیں جو دراصل اُن کے خودمختار علاقوں سے باہر ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ وزیراعظم نوری المالکی کے بلاک نے اپریل میں منعقدہ انتخابات میں زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ نوری المالکی خود اپنی کرسی بچانے کوشاں ہیں ، یہاں تک کہ شیعہ حلیفوں اور کلیدی سرپرست ایران بھی ان ترجیحات پر غوروخوص کررہا ہے جہاں پر نوری المالکی کا متبادل لایا جاسکے ۔ دوسری طرف نقادوں نے بھی نوری المالکی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور سنی اقلیتوں کو درپیش مسائل کی یکسوئی نہیں کررہے ہیں لیکن نوری المالکی جو عراق پر 2006 ء سے حکومت کررہے ہیں ، بھی ایک سخت جان سیاستداں ثابت ہوئے ہیں
اور اُن کے کسی بھی اقدام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ اقتدار سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں ۔ عراق سے امریکی افواج کی آخری جمعیت نے تین سال قبل تخلیہ کیا تھا ، وہیں اب امریکہ دوبارہ اپنے آپ کو اُس صورتحال میں گھرا ہوا پارہا ہے جو تین سال قبل یا پھر سابق معزول صدر صدام حسین کواقتدار سے بیدخل کرنے کے بعد پیدا ہوئی تھی ۔ آج بغداد میں ہر طرف ڈرون طیارے دندناتے پھر رہے ہیں تاکہ وہاں موجود امریکی شہریوں یا حال ہی میں تعینات کئے گئے فوجیوں کو اگر خطرہ لاحق ہو تو وہاں سے بحفاظت نکال لیا جائے ۔ امریکہ اب اس بات کا خواہاں ہے کہ عراق میں ملی جلی حکومت تشکیل دی جانی چاہئے۔ نوری المالکی کو حالانکہ اپریل میںمنعقد شدنی انتخابات میں کامیابی تو ملی ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس موقف میں نہیں ہیں کہ اکیلے حکومت کرسکیں۔ اگر وہ وزارت عظمیٰ کی نشست پر برقرار رہنا چاہتے ہیں تو انھیں سیاسی حلیفوں کی ضرورت پیش آئے گی ۔
دوسری طرف امریکی صدر براک اوباما السیستانی کی اُس اپیل کو قابل توجہ سمجھتے ہیں جہاں انھوں نے عراقی قائدین سے کہا ہے کہ وہ بغیر کسی تاخیر کے نئی حکومت کی تشکیل کیلئے تیار رہیں۔ اس موقع پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ترجمان میری واف نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ السیستانی جو بھی کہہ رہے ہیں وہ ملک کے آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اُس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تبدیلی کے خواہاں ہیں لہذا اس پر اگر عاجلانہ عمل آوری ہو تو بہتر ہوگا ۔ عراق کے حالات اتنے سنگین ہیں کہ اس جانب عاجلانہ پیشرفت وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن ایک اندیشہ یہ ے کہ عراق میں سیاستداں مختلف گروپس میں تقسیم ہوچکے ہیں اور اندرون کچھ یوم اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد کا مظاہرہ کریں گے ، یہ کہنا بہت مشکل ہے ۔