عذاب قبرسے نجات

سوال : میرے والد کا انتقال شب جمعہ ہوا اور ان کی نماز جنازہ جمعہ میں ادا کی گئی ۔ کئی پرسہ دینے والوں نے مجھے تسلی دی کہ جمعہ کے دن جن کا انتقال ہوتا ہے ان کو قبر کا عذاب نہیں ہوتا ۔ کیا یہ صحیح ہے ؟ کیا حساب و کتاب سے پہلے قبر میں عذاب دیا جانا ثابت ہے ؟ میری دعائیں اور استغفار سے میرے مرحوم والد کو کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں ۔ ان سوالوں کا جواب جلد سے جلد دیں تو مجھ کو اطمینان ہوگا ؟
عبدالقوی نقشبندی، مہدی پٹنم
جواب : ارشاد الٰہی ہے: ’’ النار یعرضون علیھا غدواً و عشیاً و یوم تقوم الساعۃ ادخلوا آل فرعون اشد العذاب ‘‘ (المومن 46/40 ) یعنی ان کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جائے گا اور جس دن قیامت قائم ہوگی حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو۔ اس آیت پاک میں قیامت سے قبل صبح و شام عذاب دیئے جانے کا ذکر ہے ۔ اس سے فقہاء کرام نے عذاب قبر حق ہونے پر استدلال کیا ہے ۔ انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام اپنے لئے اور مرحوم والدین اور عام مسلمانوں کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام سے منقول ہے۔ ’’ رب اغفرلی ولو الدی ولمن دخل بیتی مؤمناً و للمؤمنین والمؤمنات‘‘ (نوح 28/71 ) تفسیر روح البیان میں سورہ الحشر 10/59 کے ضمن میں ہے ۔ قبر میں عذاب دیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ درندے ان کی چیخ و پکار سنتے ہیں۔ (دیکھئے : الترغیب والترھیب ‘‘ ج : 2 ، ص : 361 )
ایک یہودن بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئی اور عذاب قبر کا ذکر کی اور کہنے لگی ’’ اعاذک اللہ من عذاب القبر‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو عذاب قبر سے بچائے رکھے ۔ جب وہ خاتون چلے گئیں تو بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عذاب قبر سے تعلق استفسار کیا تو آپ نے فرمایا ہاں ’’ عذاب القبر حق ‘‘ قبر کا عذاب حق ہے ۔ (صحیح بخاری)۔ نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ جہاں جہنم کے عذاب ، دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتے ہیں آپ قبر کے عذاب سے بھی پناہ طلب کرتے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگا کرتے، اے اللہ ! میں عذاب قبر ، عذاب جہنم ، زندگی و موت کے فتنہ سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں اور میں تجھ سے مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن نسائی ) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت ہانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہوجاتی، ان سے پوچھا گیا کہ جب آپ جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو آپ روتے نہیں اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے جس نے اس سے نجات پائی ، اس کے لئے آئندہ بھی آسانی ہوگی اور جس نے اس سے نجات نہ پائی اس کیلئے آئندہ زیادہ سختی ہوگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، میں نے قبر سے بڑھ کر کوئی ہولناک منظر نہیں دیکھا۔
متذکرہ بالا آیت قرآنی ، احادیث شریفہ ، آثار صحابہ سے ثابت ہے کہ عذاب قبر حق ہے اور اس کا تصور سابقہ تمام ادیان سماویہ میں رہا ہے اور یہ آخرت کی پہلی منزل ہے ۔ انسان جو عمل دنیا میں کرے گا تو قبر میں اس کے آثار و نتائج حساب و کتاب سے پیشتر ظاہر ہوں گے ۔ مزید برآں احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو مسلمان جمعہ کے دن یا شب جمعہ انتقال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبر کے فتنہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔ جیسا کہ الترغیب و ا لترھیب ج : 4 ، ص : 373 میں ہے ’’ عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال مامن مسلم یموت یوم الجمعۃ او لیلۃ الجمعۃ الا و قاہ اللہ من فتنۃ القبر ‘‘۔
ملا علی قاریؒ کے مطابق جمعہ یا شب جمعہ انتقال کرنے والے کو مطلقاً قبر میں نہ سوالات ہوں گے اور نہ عذاب ہوگا ۔ جیسا کہ مرقات المفاتیح جلد 3 صفحہ 242 باب الجمعہ میں ہے ۔ ای عذابہ و سوالہ وھو یحتمل الا طلاق و ا لتقید والاول ھو الاولی بالنسبۃ الی فضل المولی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد تدفین ، میت کے لئے دعاء مغفرت کرنے کا حکم فرمایا ’’ استغفرو الاخیکم و اسالو الہ التثبت فانہ الان یسئل ‘‘ (سنن ابی داؤد) تم اپنے بھائی کیلئے استغفار کرو اور ثبات قدمی کی دعاء کرو کیونکہ اب اس سے سوال کئے جارہے ہیں ۔ یعنی قرآنی آیات میں مرحوم مومنین خصوصاً والدین اور اساتذہ کرام کے لئے دعاء رحمت و مغفرت کرنے کے جواز و استحباب پر پر دلیل موجود ہے۔

تلقین بحالت سکرات
سوال : جو لوگ سکرات میں ہوتے ہیں‘ ان کو کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے ۔ شریعت میں تلقین کا کیا حکم ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے ؟ اگر شریعت میں اس کی کوئی فضیلت آئی ہے تو بیان کریں؟
سید عارف ، مصری گنج
جواب : آخرت میں کامیابی و سعادتمندی کا دارومدار صرف اور صرف خاتمہ بالخیر پر ہے ۔ جن کا خاتمہ ایمان پر ہو وہی شحص کا میاب و کامران ہے ۔ اس لئے شریعت مطھرہ میں جو شخص قریب الموت ہو اس کو ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی تلقین کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم مستحب ہے ۔ ردالمحتار ج : 2 ص : 78 میں ہے : لکنہ تجوز لما فی الدرایۃ من أنہ مستحب بالا جماع۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ فانہ لیس مسلم یقولھا عندالموت الا انجتہ من النار‘‘ یعنی تم قریب الموت افراد کو ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کرو کیونکہ جو کوئی مومن موت کے وقت یہ کلمہ پڑھتا ہے۔ وہ دوزخ سے نجات پاجاتا ہے ۔ نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے : من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ‘ ‘ یعنی جس کا آخری کلام ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ (کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے) وہ جنت میں داخل ہوگا (ابو داؤد) اس لئے تلقین کرنا پسندیدہ ہے۔
صبح کے وقت میں برکت
سوال : مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلم نوجوان کاہل و سست ہوگئے ہیں، وہ رات دیر گئے دوست و احباب کے ساتھ گفتگو کرتے رہتے ہیں، دیر سے سوتے ہیں، نتیجے میں دیر سے اٹھتے ہیں، کئی نوجوان لڑکے تعلیم یافتہ ہیں، کمانے کے قابل ہیں لیکن وہ سستی و عفلت میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ، کماتے دھماتے نہیں، دکان عموماً دیر سے کھولتے ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنمایانہ ارشادات سے رہبری فرمائیں۔
محمدعبدالرحیم، الوال
جواب : صبح سویرے جلد اٹھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا اور صبح خیزی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پسند ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح سویرے اٹھنے والوں کے حق میں دعاء خیر فرمائی ہے۔ ’’ اے اللہ ! میری امت کو صبح کے اٹھنے میں برکت دے ‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ رزق کی تقسیم صبح سویرے ہوتی ہے۔ حضرت صخر ایک تجارت پیشہ صحابی تھے ، وہ ہمیشہ اپنا سامان تجارت صبح سویرے روانہ کرتے اور فرماتے ہیں کہ اس کی برکت سے مال کی اتنی کثرت ہے کہ رکھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ (ابو داود، 3 ، 8 ، کتاب الجہاد 26-6 ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات صبح سویرے ہی لشکر روانہ فرماتے اور سفر بھی و دیگر اہم کاموں کو رات کے آخری حصے میں انجام دینے کی ترغیب فرماتے۔
لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ فجر کی نماز کے ساتھ ہی اپنے کام و کاج کاروبار و تجارت و دیگر اہم امور کی انجام دہی میں مشغول ہوجائیں۔ رات میں زیادہ دیر تک بلا وجہ جاگنا پسندیدہ نہیں ہے، اس سے فجر کی نماز جو کہ فرض ہے چھوٹ جانے کا ندیشہ رہتا ہے اور رزق کی تقسیم کے وقت وہ خواب غفلت میں رہتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں جلد سونے اور صبح جلد اٹھنے کی ترغیب دی ہے اور بعد نماز عشاء باہمی گفتگو و قصہ گوئی سے منع فرمایا ۔ پس فجر کی نماز ترک کرنا اور صبح دیر گئے تک سونا منحوسی ہے۔

نماز جنازہ فرض کے بعد پڑھی جائے یا سنن و نوافل کے بعد
سوال : فرض نمازوں کے وقت جنازہ آجائے تو نماز جنازہعمومی حالت میں سنت و نوافل ادا کر کے پڑھائی جائے یا فرض کے ساتھ ہی نماز جنازہ ہو ؟
محمدکیف، بنجارہ ہلز
جواب : صورت مسئول عنہا میں فرض نماز کی جماعت کے بعد سنن ادا کر کے نماز جنازہ پڑھی جائے اور یہی مفتی بہ قول ہے۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد اول ص 611 میں ہے : الفتوی علی تاخیر الجنازۃ عن السنۃ و اقرہ ا لمصنف کانہ الحاق لھا بالصلاۃ اور رد ا لمحتار میں ہے ( قولہ الحاقالھا) ای للسنۃ بالصلاۃ ای صلاۃ الفرض اور رد المحتار جلد اول باب صلاۃ الجنائز 658 میں ہے ۔ الفتوی علی تقدیم سنتھا علیھا ۔

تعمیر کعبۃ اللہ کی تاریخ
سوال : خانہ کعبہ کی تعمیر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل ہوئی یا بعد میں ۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی ۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کا واقعہ ہے کیونکہ حجر اسود کو رکھتے وقت اختلاف رائے ہوا تو سبھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو قبول کیا تو انہوں نے انکار کردیا۔
مجھے آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ حقیقت میں کعبۃ اللہ کی تعمیر کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کے اتفاق سے حجر اسود رکھا تھا یا نہیں ؟ یہ واقعہ اگر معتبر ہے تو تاریخ کی کس کتاب میں مل سکتا ہے ۔
اکرام اللہ نقشبندی، سعید آباد
جواب : سیرت ابن ہشام سیرت کی کتابوں میں اہم کتاب ہے اور اس کتاب کو مرجع و مصدر کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کی جلد 1 ص : 204 تا 209 میں خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق تفصیل ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کعبہ شریف کے پردوں کو بخور سے دھونی دی جاتی تھی ، ایک دن ہوا کی شدت سے چنگاریوں نے پردوں کو آگ لگادی ۔ عمارت کمزور ہوگئی تھی ، کچھ دنوں بعد موسلا دھار بارش ہوئی تو عمارت بیٹھ گئی ۔ تعمیر جدید کے لئے صرف اکل حلال سے چندہ کیا گیا ۔ سود خواروں اور قحبہ خانوں سے رقم قبول نہ کی گئی ۔ انہیں دنوں مکہ کے قریب شعیبیہ (جدہ) میں ایک کشتی جو مصر سے آرہی تھی ، ٹوٹ گئی ۔ کچھ لوگ زندہ بچے اور کچھ سامان بھی بچایا جاسکا ، جس میں شکستہ کشتی کے تختے بھی تھے ۔ اہل مکہ نے ان کا سارا سامان حتیٰ کہ کشتی کے تختے بھی خرید لئے تاکہ کعبہ کی چھت میں لگائیں ۔ اہل مکہ نے پہلے ملبہ صاف کیا اور پرانی بنیادیں برآمد کر کے نئی دیواریں کھڑی کرنا شروع کیں۔ قبائل شہر نے کام بانٹ لیا اور ہر دیوار معین گھرانوں کے سپرد ہوگئی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس موقع پر کام کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے رہے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک شانے زخمی بھی ہوگئے ۔ چار دیواری کوئی گز بھر بلند ہوئی تو ایک دشواری پیدا ہوگئی ۔ کعبہ کے دروازے کی مغربی دیوار کے زاویے میں حجر اسود کو نصب کرنا تھا۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے رقابت شروع ہوگئی اور قریب تھا کہ خون خرابہ ہوجائے کہ ایک بوڑھے ابو امیہ حذیفہ بن مغیرہ نے جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے مشورہ دیا کہ اس وقت جو شخص سب سے پہلے مسجد کے دروازے سے اندر آئے ، انہیں حکم بناؤ ۔ سب نے قبول کیا ۔ اتفاق سے یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کام کرنے کے لئے تشریف لارہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سب لوگ پکار اٹھے : ھذا الامین رضینا بہ ، یعنی یہ تو امین ہیں ، ہم سب ان کے فیصلے پر راضی ہیں (ابن الجوزی نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے ، ص 148 )
قصہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر بچھائی ، پتھر کو اس پر رکھا اور چادر کے کونے قبائل کے نمائندوں نے پکڑ کر اٹھائے اور دیوار کے قریب کیا ۔ وہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر کو اٹھاکر اس کی جگہ نصب کردیا ۔ (ابن ہشام ، السیرۃ ، 204:1 تا 209 )