عدلیہ کیساتھ امتیازی سلوک مرکزی حکومت کے آمرانہ رویہ کا مظہر

لکھنؤ۔ 12 جون ۔( سیاست ڈاٹ کام ) بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی نے نریندر مودی حکومت پر عدلیہ کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ مرکزی حکومت کی ہٹ دھرمی اور آمرانہ رویے کا مظہر ہے ۔ مایاوتی نے آج یہاں جاری بیان میں کہا کہ وزیر قانون اور دیگر مرکزی وزراء بار بار عوامی طورپر کہہ رہے ہیں کہ مرکزی وزارت قانون کوئی ’ڈاک گھر‘نہیں ہے جو ججوں کی تقرری کے معاملے میں سپریم کورٹ کے کالجیم کی سفارش پر آنکھ موند کر عمل کرتا رہے ۔انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت کے اس طرح کے رویے کی وجہ سے عدلیہ آج غیر معمولی بحران سے دوچار ہوگئی ہے ۔ حکومت کے وزیر اگر عدلیہ کا پورا احترام نہیں کرسکتے تو کم سے کم اس کی بے عزتی تو نہ کریں۔ مرکزی حکومت کا وزارت قانون اگر ’پوسٹ آفس‘نہیں ہے تو اسے پولیس اسٹیشن (کوتوالی) بننے کا بھی حق آئین اور قانون نے نہیں دیا ہے۔ مرکزی حکومت کو عدلیہ کو بات بات پر بے عزت کرنے کے اپنے غیر جمہوری رویے میں سدھار کرنا چاہئے ۔مایاوتی نے کہا کہ مرکزی حکومت کے وزراء اور بی جے پی لیڈران بار بار کہتے ہیں کہ سال2016میں 126ججو ں کی تقرری کرکے مرکزی حکومت نے بہت بڑا کام کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 300سے زیادہ ججوں کے عہدوں کو خالی رکھنے اور پھر اس کے بعد 126ججوں کی تقرری کرنا یہ کون کا مفاد عامہ اور ملک کے مفاد کا کام ہے ۔مرکزی وزارتوں میں اعلی عہدوں پر دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کے افسران کی تعیناتی نہیں کرنے کے معاملے میں بھی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا رویہ کانگریس پارٹی کی سابقہ حکومتوں کی طرح ہی ذات پات پر مبنی اور امتیازی ہے ۔انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت کی پالیسی ساز امور کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں بھی سماج کے بہت بڑے طبقے یعنی دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ طبقات اور مذہبی اقلیتوں کی مناسب نمائندگی نہیں ہونے کی وجہ سے آئین کو اس کے عوامی بہبود کی اصل روح کے مطابق ملک میں آج تک نافذ نہیں کیا جاسکا ہے ۔ ملک کے جمہوری اور آئینی ادارے آج انتہائی بحران کا شکار ہیں ۔ آئین اور قانون کے ذریعہ سے صحیح عوامی خدمت کرنے میں اپنے آپ کو کافی زیادہ پریشان محسوس کررہی ہیں اور اس کا حل فوراً تلاش کرنا ہوگا۔