گلبرگ سوسائٹی …گجرات کے قاتلوں پر قانونی شکنجہ
یکساں سیول کوڈ کی سازش … بیف سے یو پی کی انتخابی مہم
رشیدالدین
انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے محروم رکھنا ہے۔ 14 برس کے طویل انتظار اور انصاف کیلئے قانونی لڑائی کے نتائج برآمد ہونے لگے ہیں۔ گجرات کے مظلوموں کا خون رنگ لا رہا ہے ۔ 2002 ء میں حکومت کی سرپرستی میں گجرات میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور ہزاروں مرد خواتین اور بچوں کو درندگی کے ساتھ قتل کردیا گیا ۔ فسادات کے بعد متاثرین کو انصاف دلانے کیلئے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ گورنمنٹ اسپانسرڈ فساد تھا۔ گلبرگ سوسائٹی قتل عام کے سلسلہ میں خصوصی عدالت نے 24 ملزمین کو خاطی اور مجرم قرار دیا ہے، جن کی سزا کا اعلان 6 جون کو کیا جائے گا ۔ عدالت نے 36 ملزمین کو بری کردیا جبکہ 13 ملزمین کو فساد برپا کرنے اور دیگر دفعات کے تحت خاطی قرار دیا ہے ۔ دیر آید درست آید کے مصداق خاطیوں کے خلاف قانون کا گھیرا تنگ ہونے لگا ہے اور متاثرہ خاندانوں کو اس فیصلہ سے راحت مل سکتی ہے ۔ خصوصی عدالت نے گلبرگ سوسائٹی قتل عام کو آخر کار تسلیم کرلیا ہے ۔ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کو اس واقعہ میں قتل کیا گیا تھا اور جب انہوں نے مدد کیلئے اس وقت کے چیف منسٹر کو فون کیا تو انہیں مدد اور دلاسہ کے بجائے گالیاں سننی پڑی تھیں۔ بھلے ہی خصوصی عدالت کا فیصلہ مکمل انصاف نہ سہی لیکن انصاف کا آغاز تو ضرور ہے۔ اوپری عدالت میں اپیل کے ذریعہ دیگر ملزمین کو سزا دلائی جاسکتی ہے ۔ 2002 ء فسادات کے بعد گجرات حکومت اور پولیس کا رویہ فسادیوں کی تائید میں دیکھا گیا تو سپریم کورٹ نے سی بی آئی کے سابق ڈائرکٹر آر کے راگھون کی قیادت میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی ۔ 2009 ء میں SIT نے تحقیقات کا آغاز کیا ۔
اس ٹیم نے 9 انتہائی اہم واقعات کی جانچ کی جن میں گلبرگ سوسائٹی قتل عام شامل ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے اس واقعہ کو منظم سازش اور منصوبہ بند کارروائی قرار دیا۔ تاہم عدالت نے اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری اور انسانی حقوق کے جہد کار گزشتہ 14 برسوں سے قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ انہوں نے تمام خاطیوں کو سزا ملنے تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جو ان کے اندرونی کرب کو ظاہر کرتا ہے ۔ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں خصوصی عدالت کا فیصلہ یقیناً خوش آئند ہے اور دیگر واقعات کے متاثرین کو انصاف اور خاطیوں کو سزا ملنے کی امید جاگی ہے ۔ گجرات میں 14 برس گزرنے کے باوجود آج بھی ہزاروں خاندان انصاف کے منتظر ہیں، جن کے گھر والوں کو قتل کرتے ہوئے املاک کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ دہلی میں سکھوں کے قتل عام کے متاثرہ خاندانوں کو 20 برس بعد معاوضہ ادا کیا گیا ۔ کیا گجرات کے متاثرین کو بھی 20 سال تک کا انتظار کرنا پڑے گا؟ گلبرگ سوسائٹی قتل عام مقدمہ میں خصوصی عدالت کا فیصلہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ خصوصی عدالت گجرات میں ہے ، دوسرا یہ کہ جن کے دور چیف منسٹری میں یہ فسادات ہوئے ، وہ آج ملک کے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اس کے باوجود عدلیہ نے یہ ثابت کردیا کہ وہ آزاد ہے اور کسی کے دباؤ میں نہیں ہے ۔ 24 افراد تو کیا اگر عدالت ایک شخص کو بھی مجرم مان لیتی تب بھی متاثرین کی جیت تھی کیونکہ عدالت نے قتل عام کو تو تسلیم کرلیا ہے ۔ ہندوستان کی خوبی یہی ہے کہ عدلیہ نے اپنی بالادستی اور آزادی کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ بارہا اس کا ثبوت دیا ۔ جب کبھی حکومتوں نے اپنے دستوری فرائض سے روگردانی اور انحراف کیا تو عدالتوں نے ان کی اصلاح کی۔ ملک پر قانون اور عدلیہ کی بالادستی کی برقراری میں عدلیہ کا اہم رول ہے ۔
حال ہی میں اتراکھنڈ میں سپریم کورٹ نے عوامی منتخب حکومت کو گرانے کی کوششوں کو ناکام بنادیا ہے ۔ ایسے وقت جبکہ گجرات اور مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار ہے اور وہی شخصیت دہلی کی کرسی پر براجمان ہے جن کے دامن پر گجرات کے مظلومین کے خون کے دھبے ہیں، بعید از قیاس نہیں کہ تمام ملزمین کو کلین چٹ دلانے کیلئے کوشش کی گئی ہو۔ عدالت کی جانب سے 6 جون کو سزا کے اعلان کے بعد اندازہ ہوجائے گا کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے کس قدر پختہ ثبوت عدالت میں پیش کئے ہیں۔ جہاں تک 34 افراد کو بری کرنے اور واقعہ کو غیر منصوبہ بند قرار دینے کا سوال ہے، اس کیلئے عدالت نہیں بلکہ استغاثہ ذمہ دار ہے ۔ کوئی بھی عدالت ثبوت اور گواہوں کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے۔ استغاثہ کی دلیلیں جس قدر مضبوط ہوں گی اور جس طرح اس کا پریزنیٹیشن ہوگا عدالت کا فیصلہ اسی بنیاد پر آئے گا۔ گلبرگ سوسائٹی کیس میں عدالت نے 338 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے اور فیصلہ ان کی گواہی اور استغاثہ کی دلائل کی بنیاد پر دیا گیا۔ گجرات میں بیسٹ بیکری اور دیگر واقعات میں بھی متاثرین کو انصاف ملنا باقی ہے۔ گلبرگ سوسائٹی فیصلے سے دیگر متاثرین میں امید جاگی ہے۔ گجرات کے مظلومین انصاف کی امید چھوڑ چکے تھے کیونکہ انصاف کیلئے جدوجہد کرنے والے جہدکاروں اور اداروں کو طرح طرح سے ہراساں کیا گیا۔ فسادات کے بعد بے سہارا خاندانوں کے سر چھپانے کیلئے تعمیر کردہ کالونی کو زمین دوس کردیا گیا جس سے مقامی حکومت کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ حکومت کی سرپرستی میں جہاں نفرت کی آبیاری ہوتی ہو وہاں خاطیوں کو عدالت کی سزا یقیناً تاریکی میں امید کی ایک کرن ہے۔ عشرت جہاں اور سہراب الدین شیخ فرضی انکاؤنٹرس میں ملوث پولیس عہدیداروں کو کلین چٹ حکومت اور حکمرانوں کے ذہنیت کے عکاس ہیں۔ ذکیہ جعفری اور جہد کاروں نے خصوصی عدالت کے فیصلہ کو ادھورا اور نامکمل انصاف قرار دیا ہے لیکن قانون کے ماہرین کی نظر میں یہ انصاف رسانی کا آغاز ہے۔
نریندر مودی حکومت کے دو سال کی تکمیل کے ساتھ ہی نفرت کے سوداگروں کو دوبارہ کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔ بیف کے نام پر اترپردیش میں بی جے پی کی انتخابی مہم کا عملاً آغاز کردیا گیا۔ دوسری طرف متھرا میں ایک خود ساختہ ہندو مذہبی پیشوا کی جانب سے سینکڑوں ایکر سرکاری اراضی پر ناجائز قبضے کی برخواستگی کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ حکومت کے دو سال کی تکمیل کے ساتھ ہی دادری میں اخلاق کے قتل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ متھرا کی فارنسک لیاب نے اخلاق کے گھر میں پائے گئے گوشت کو بیف قرار دیتے ہوئے ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ سابق میں جو رپورٹ آئی تھی ، اس میں گوشت کو میٹ تسلیم کیا گیا تھا ۔ واقعہ کے 8 ماہ بعد اچانک متھرا کی لیاب سے اس رپورٹ کا انکشاف کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی انتخابی مہم کے آغاز کیلئے اس رپورٹ کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک اخلاق کے بے رحمانہ قتل کا معاملہ ہے ، کوئی بھی شخص قتل کی تائید نہیں کرسکتا۔ بھلے ہی گھر میں بیف ہو یا میٹ ۔ اس واقعہ کیلئے صرف قاتل ہی ذمہ دار نہیں بلکہ حکومت اور انتظامیہ بھی مساوی ذمہ دار ہے۔ دادری واقعہ کے وقت اترپردیش میں کس کی حکومت تھی؟ اکھلیش یادو حکومت اس واقعہ کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی۔ یوں بھی ملائم سنگھ یادو کا ریکارڈ اقلیتوں میں صاف نہیں ہے ۔ بظاہر وہ مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کی سیاسی قلا بازیوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ دراصل سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ خود کو مولانا ملائم سنگھ کہلوانے والے نیتاجی سابق میں بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت چلا چکے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بابری مسجد شہادت کے اہم ملزم کلیان سنگھ کو ملائم سنگھ نے گلے لگایا اور ان کی پارٹی سے اتحاد کیا تھا ۔ اب جبکہ دوبارہ ملائم سنگھ کو اترپردیش میں اقتدار کی برقراری کیلئے اقلیتوں کی تائید ضروری ہے، وہ نئے سیاسی کھیل کی تیاری کر رہے ہیں۔ بی جے پی اترپردیش میں سیاسی فائدہ کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی۔ لہذا متھرا کے تشدد اور ہلاکتوں کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔ نفرت کی مہم کا اثر چھتیس گڑھ کے بعد راجستھان میں دیکھا گیا جہاں جانوروں کی منتقلی کے نام پر دو مسلم تاجروں کو پولیس کی موجودگی میں برہنہ کر کے بری طرح زد و کوب کیا گیا۔ ان کا قصور صرف یہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ گائے کے تحفظ کے ان دعویداروں کو ان کسانوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جو شدید خشک سالی اور چارہ کی کمی کے سبب جانور فروخت کر رہے ہیں۔ حکومت کسانوں کے تحفظ میں تو ناکام ہے لیکن کسانوں کی مدد کیلئے جانور خریدنے والے تاجروں کو نشانہ بنانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے پھر ایک مرتبہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا اشارہ دیا ہے۔ انہوں نے واضح کردیا کہ تمام مذاہب کی عبادتوں کو چھوڑ کر دیگر تمام عائیلی قوانین یکساں ہوں گے۔
دستور کی دفعہ 44 کے حوالے سے مرکزی حکومت یکساں سیول کوڈ کی طرف پیشرفت کر رہی ہے جو بی جے پی کے ایجنڈہ میں شامل ہیں۔ ملک میں وقفہ وقفہ سے یکساں سیول کوڈ کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کیلئے 1947 ء سے آج تک کی تمام مسلم قیادتیں ذمہ دار ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنی کرسی اور اقتدار کی برقراری کو اہمیت دی۔ برسر اقتدار جماعتوں کے حلیف رہے اور حکومت میں شامل رہے لیکن کسی نے گزشتہ 65 برسوں میں دفعہ 44 کی تنسیخ پر توجہ نہیں دی۔ کانگریس پارٹی جسے مسلمانوں کے ووٹ چاہئے لیکن جب لوک سبھا میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی ، اس نے دفعہ 44 کی تنسیخ کو ضروری نہیں سمجھا۔ اس طرح آج بھی دفعہ 44 مسلم پرسنل لا کیلئے ایک لٹکتی تلوار ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ مزید سنگین نوعیت اختیار کرسکتا ہے اور اس وقت مرکزی حکومت کو شریعت کے خلاف کسی بھی قانون سازی سے روکنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔ یہ مسئلہ ملک میں عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے ۔ لہذا بی جے پی کو اس طرح کی کسی بھی سازش سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور موجودہ مسلم جماعتوں اور قیادتوں کو مرکزی حکومت کی سازش کے خلاف چوکنا رہنا چاہئے کیونکہ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہ مسلمانوں کے مذہبی اور ایمانی تشخص کا مسئلہ ہے۔ گلبرگ سوسائٹی عدالتی فیصلہ پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
عدالتوں ہی سے انصاف سرخرو ہے مگر
عدالتوں ہی میں انصاف ہار جاتا ہے