پانچ ریاستیں… عام بجٹ سے بی جے پی کی انتخابی مہم
نوٹ بندی پر پرنب مکرجی کی لب کشائی
رشیدالدین
ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ اترپردیش ، پنجاب ، گوا ، اتراکھنڈ اور منی پور کے انتخابی شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی ضابطہ اخلاق بھی نافذ ہوگیا۔ سیاسی جماعتیں انتخابی اکھاڑے میں اپنے پہلوانوں کو اتارنے کی تیاری میں جٹ گئی ہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابات دراصل ملک کے 1/5 حصہ کو سیاسی ماحول میں رنگ دیں گے ۔ رائے دہندوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو 16 کروڑ 80 افراد اپنی پسند کی حکومت منتخب کریں گے۔ رائے دہندوں کی یہ تعداد پڑوسی ملک پاکستان کی آبادی کے برابر ہے۔ موجودہ سیاسی تناظر میں اسمبلی انتخابات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور سارے ملک کی توجہ نتائج پر ہوگی۔ نوٹ بندی کے فیصلہ کے بعد ہونے والے چناؤ بی جے پی کیلئے ایسڈ ٹسٹ کی طرح ہیں کیونکہ یہ ایک طرف نوٹ بندی کے فیصلہ پر عوامی ریفرنڈم ہوگا تو دوسری طرف نریندر مودی کی مقبولیت کا امتحان رہے گا۔ چناوی نتائج سے یہ واضح ہوجائے گا کہ آیا عوام آج بھی نریندر مودی کی لفاظی اور تک بندی سے متاثر ہیں یا پھر کارکردگی کی بنیاد پر وہ مودی اور ان کی حکومت کو پرکھنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی کیلئے واحد اسٹار کیمپنر نریندر مودی ہیں اور ڈھائی برس میں جس طرح صرف وعدوں اور اعلانات سے کام لیا گیا۔ اچھے دن کے بجائے نوٹ بندی کے ذریعہ عام آدمی کو سڑکوں پر کھڑا کردیا گیا ہے ۔
اس کے باوجود کیا مودی لہر چل پائے گی؟ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کا نعرہ لگاکر چند صنعتی گھرانوں کو راحت اور ان کی ترقی کا سامان کیا گیا جبکہ عام آدمی کے حصہ میں وکاس کے بجائے وناش آیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ رائے دہندے مودی کو وکاس پرش کے طور پر تسلیم کریں گے یا وناش پرش۔ بی جے پی کی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح اترپردیش ، گوا اور اتراکھنڈ میں کامیابی حاصل کی جائے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں دوبارہ اقتدار مودی کا خواب ہے۔ وہ 2014 ء لوک سبھا انتخابات کے نتائج کو دہرانا چاہتے ہیں۔ پانچ ریاستوں میں گوا میں بی جے پی کا اقتدار ہے جبکہ پنجاب میں شرومنی اکالی دل اور بی جے پی کی مخلوط حکومت ہے ۔ اتراکھنڈ اور منی پور میں کانگریس برسر اقتدار ہے جبکہ اترپردیش سماج وادی پارٹی کی حکمرانی میں مجوزہ انتخابات میں سماج وادی پارٹی اور کانگریس کو اپنی ریاستوں کو بچانا اہم چیلنج ہوگا۔ انتخابی شیڈول کے اعلان سے عین قبل سپریم کورٹ نے مذہب ، ذات پات اور علاقہ کے نام پر ووٹ مانگنے کو انتخابی بدعنوانی قرار دیتے ہوئے تاریخی فیصلہ سنایا ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے بعض سیاسی جماعتوں بالخصوص بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ حالیہ دنوں تک بھی بی جے پی کی ریالیوں میں نریندر مودی اور امیت شاہ نے مذہبی انداز میں رائے دہندوں کو راغب کرنے کی کوشش کی۔ اب انتخابی جلسوں اور ریالیوں میں مذہبی نعرے سنائی نہیں دیں گے ۔ انتخابی مہم میں مذہبی شخصیتوں کی حصہ داری کم ہوجائے گی ۔ ہر پارٹی کو صرف کارکردگی ، پالیسی اور پروگرام کی بنیاد پر ووٹ مانگنا ہوگا ۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اسی وقت اثر انداز ہوسکتا ہے جب الیکشن کمیشن سختی کے ساتھ ضابطہ اخلاق کو نافذ کرے۔ انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی اوپینین پولز منظر عام پر آنے لگے ۔ دو بڑی ریاستوں اترپردیش اور پنجاب میں برسر اقتدار پارٹیوں پر خطرہ منڈلا رہا ہے ۔
پنجاب میں عدم کارکردگی اور مخالف عوام لہر کے باعث اکالی دل کا موقف کمزور ہے اور کانگریس اقتدار چھیننے کے موقف میں دکھائی دے رہی ہے جبکہ اترپردیش میں خاندانی تنازعہ باپ ، بیٹا اور چچا کی لڑائی نے مضبوط حکومت کی بنیادوں کو کمزور کردیا جس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے ۔ گوا میں منوہر پاریکر کی مقبولیت کے چلتے بی جے پی دوبارہ اقتدار کے موقف میں ہے۔ بی جے پی نے اپنی پوری طاقت اترپردیش اور اتراکھنڈ پر جھونک دی ہے تاکہ سماج وادی پارٹی اور کانگریس سے اقتدار چھین لیا جائے جو نریندر مودی کی اہم کامیابی ہوگی۔ نوٹ بندی کے بعد مہارارشٹرا ، گجرات اور آسام کے ضمنی چناؤ اور مجالس مقامی انتخابات میں کامیابی سے بی جے پی کے حوصلے بلند ہیں۔ اسے یقین ہے کہ اسمبلی چناؤ میں بھی عوامی تائید کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مبصرین کا مانناہے کہ ضمنی چناؤ کے نتائج کا اطلاق عام انتخابات پر نہیں کیا جاسکتا۔ نوٹ بندی کے بعد نریندر مودی نے عوام سے 50 دن کی مہلت مانگی تھی جو ختم ہوگئی لیکن عوام کے مسائل جوں کا توں برقرار ہیں۔ ایسے میں پانچ ریاستوں کے عوام کو نوٹ بندی پر اپنا فیصلہ سنانے کا موقع ہاتھ آیا ہے۔ ملک کے دستوری سربراہ پرنب مکرجی کو بھی 50 دن کی مہلت گزرنے کے بعد غریبوں کی تکالیف کا خیال آیا۔ انہوں نے نوٹ بندی سے غریبوں کی مشکلات کا ذکر کیا اورساتھ ہی یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلہ سے ملک کی ترقی کی رفتار سست ہوجائے گی۔ پرنب مکرجی جو ماہر معاشیات ہیں اور ملک کے وزیر فینانس بھی رہ چکے ہیں، ان کی رائے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نوٹ بندی کے فیصلہ سے قبل حکومت صدر جمہوریہ سے مشاورت کرتی۔ پرنب مکرجی کو بھی شاید 50 دن کی تکمیل کا انتظار تھا لہذا انہوں نے اس مدت کے دوران کبھی بھی اس مسئلہ پر رائے نہیں دی۔ صدر جمہوریہ نہ صرف اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں بلکہ وہ حکومت کو مخالف عوام فیصلوں سے روکنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اب جبکہ صدر جمہوریہ نے بھی غریب عوام اور ملک کی ترقی میں رکاوٹ کا حوالہ دیا ہے، مرکز کو چاہئے کہ فوری راحت رسانی کے انتظامات کریں۔
نوٹ بندی کے مسئلہ پر اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کو چلنے نہیں دیا۔ ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج منظم کئے گئے۔
ترنمول کانگریس ، عام آدمی پارٹی اور کانگریس پارٹی نے احتجاج کی قیادت کی جبکہ دیگر جماعتوں نے رسمی انداز اختیار کیا۔ کسانوں ، مزدوروں اور عام آدمی کے مسائل پر سیاست کرنے والی کمیونسٹ جماعتوں نے عام آدمی کو مایوس کیا ہے ۔ عوامی مسائل سے بے رخی اور روایتی سادہ کلچر کی جگہ اب کارپوریٹ کلچر نے لے لی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونسٹ جماعتوں کا دائرہ کار سکڑتا جارہا ہے ۔ وہ ریاستیں جو کبھی کمیونسٹوں کا گڑھ سمجھی جاتی تھیں ، وہاں بھی عوام نے مسترد کردیا ۔غریب اور عام آدمی سے دوری کی تازہ مثال سی پی ایم کا سہ روزہ قومی اجلاس ہے جو کیرالا کی فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد کیا گیا۔ تین دن کیلئے فائیو اسٹار ہوٹل کے 50 کمرے بک کرائے گئے اور کھانا بھی اسی ہوٹل کا رہے گا۔ جب غریبوں کے مسائل عالیشان محل نما ہوٹلوں میں زیر بحث آئیں تو یہ غریبوں سے مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟ ’’غم لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ‘‘ کے مصداق عوامی تحریکات کے لئے مشہور کمیونسٹ جماعتیں اصل مقصد سے منحرف ہوتی جارہی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ان کا قومی جماعت کا موقف بھی خطرہ میں پڑسکتا ہے ۔ دوسری طرف انتخابی شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی بی جے پی کے حق میں مودی نواز میڈیا گھرانے اور مو دی بھکت ٹی وی اینکرس متعارف ہوچکے ہیں۔ نت نئے انداز سے ٹی وی چینلوں پر بی جے پی کی انتخابی مہم کا آغاز کردیا گیا ۔ فرضی اوپنین پولز کے ذریعہ رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اترپردیش میں سماج وادی پریوار کے اختلافات کو ہوا دینے اور جلتے پر تیل چھڑکنے کا کام بھی میڈیا کے ذریعہ لیا جارہا ہے تاکہ بی جے پی کیلئے راہ ہموار ہوجائے۔ بی جے پی کو اترپردیش میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت نہیں۔ بلکہ وہ ٹی وی چیانلس کے ساتھ ملکر مقابلہ کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اترپردیش کی حکمراں جماعت کے اختلافات نے سماجوادی پارٹی کی امیج متاثر کردی ہے۔ باپ اور بیٹے کے درمیان اقتدار کیلئے رسہ کشی نے بی جے پی کو متبادل کے طور پر پیش ہونے کا موقع فراہم کیا ۔اس کے باوجود بی جے پی کے پاس اترپردیش میں کوئی مقبول اور معتبر چہرہ ایسا نہیں جسے چیف منسٹر کے امیدوار کے طور پر پیش کیا جاسکے ۔
پارٹی کا سارا انحصار نریندر مودی پر ہے ۔ اس کے برخلاف اکھلیش یادو کا موقف آج بھی مستحکم ہے اور کلین امیج کے ساتھ وہ عوام میں مقبول ہیں لیکن افسوس کہ باپ خود بیٹے کے دشمن بن چکے ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی کو کیڈر کی کمی کا سامنا ہے اور وہ سماج وادی کے متبادل کے طور پر ابھرنے کے موقف میں نہیں۔ رہی بات کانگریس کی تو اس کے پاس کیڈر تو کجا لیڈر بھی نہیں ہیں اس لئے شیلا ڈکشٹ کو دہلی سے امپورٹ کیا گیا۔ چناوی مرحلہ کے آغاز تک بھی سماج وادی پارٹی میں اگر اختلافات ختم ہوجائیں ، جس کے امکانات بدستور برقرار ہیں تو ایسی صورت میں بی جے پی کا اترپردیش میں اقتدار کا خواب بکھر سکتا ہے ۔ پارٹی اور ریاست کے مفاد میں بھی یہی ہے کہ ملائم سنگھ یادو اپنی ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کرتے ہوئے زمینی حقیقت کو تسلیم کرلیں اور اپنے فرزند کو بی جے پی سے مقابلہ کیلئے آشیرواد دیں۔ بزرگ سیاستدانوں کی اس طرح کی حرکتوں کے تدارک کیلئے الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ سیاسی قائدین کیلئے بھی عمر کی حد کا تعین کریں جس کے بعد وہ سیاسی طور پر سبکدوشی اختیار کرلیں جس طرح سرکاری ملازمتوں، فوج اور سیول سرویسز میں وظیفہ پر سبکدوشی کی عمر مقرر ہے ، اسی طرح سیاستدانوں کو بھی عمر کے ایک حصہ تک سرگرم سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دی جانی چاہئے ورنہ حکومتوں کیلئے بحران کا سبب بن سکتے ہیں۔ ملائم سنگھ یادو اور ان کے بھائی شیوپال یادو کی سرگرمیاں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو مضبوط کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ مرکزی حکومت نے اسمبلی انتخابات سے دو دن قبل مرکزی بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ دراصل پانچ ریاستوں میں پارٹی کی انتخابی مہم وزیر فینانس ارون جیٹلی کی تقریر سے چلائی جائے گی اور ہوسکتا ہے کہ مرکزی بجٹ خود انتخابی تقریر کی طرح ہو تاکہ پانچ ریاستوں میں بی جے پی کو فائدہ ہو۔ دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن مرکز کو بجٹ کی پیشکشی کی اجازت کس طرح دے گا۔ اقتدار اور انتخابی فائدہ کیلئے سیاسی قائدین کی دوڑ دھوپ پر منظر بھوپالی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
عجیب لوگ ہیں سپنے سجاتے رہتے ہیں
ہمیشہ ریت پہ نقشے بناتے رہتے ہیں