نسیمہ تراب الحسن
یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی کی یاد وقت کی رفتار کے ساتھ دھندلی پڑجاتی ہے اور واضح بھی رہے تو پرانی نسل کے دل و دماغ میں کروٹیں لیتی ہوئی۔ قدیم تہذیب و تمدن کی بلند پایہ اقدار کا مٹ جانا ایک المیہ ہے۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم دور ماضی کی ان اقدار سے اپنی نسل کو واقف کرائیں جو ہمارے بزرگوں کا ورثہ ہیں، چاہے وہ اپنے خاندان کی ہوں، اپنے عزیز و اقارب کی ہوں یا اپنے ملک کے حکمران راجہ مہاراجہ، بادشاہوں، امراؤں کی یا اپنے شہر کے باشندوں کی ، وہ حکاتیں جو بلامذہب و ملت محبت و خلوص کی ڈور سے بندھے رہنے کی تھیں۔ کسی کے آنگن میں پھول کیلئے اس کی خوشبو سارے محلے میں پھیل جاتی، دکھ سکھ، شادی بیاہ رنج و غم میں سب ایک دوسرے کے ساتھ ایسے شریک رہتے، جیسے وہ پریشانی سب کی ہے۔ اتحاد، یکجہتی کی قدیم روایتیں، گنگا جمنی تہذیب کی وہ تصویریں بے مثال ہیں۔ ماضی کا البم تو سب کے پاس نہیں لیکن ہم نے جو اپنے بزرگوں سے سنا، جو اپنے بچپن، جوانی میں دیکھا جو پرانی تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ، وہ تو اپنے بچوں کو بتاسکتے ہیں کیونکہ اب تو تاریخ کی کتابوں میں نہ جانے کیا کچھ بدل گیا ہے۔ میں اگر مثال کے طور پر اپنے شہر حیدرآباد فرخندۂ بنیاد کا قصہ سناؤں تو مندرجہ بالا باتوں کی وضاحت ہوجائے گی۔
1724ء سے 1948ء تک عہد آصفی کے دوسو پچیس (225) سالہ دور حکومت قومی یکجہتی کی درخشاں مثال ہے۔ آصفیہ حکمرانوں نے خود کو اپنا رعایا کا ذمہ دار سمجھا، ان کے حقوق کی حفاظت کی، داد و دہش اور حسن سلوک کا چلن رکھا جس میں ہر طرح کی مساوات زندگی کے ہر شعبے میں برتی گئیں اور رواداری کی بے نظیر مثال قائم کی۔ آصف جاہی دور حکومت میں سات بادشاہوں نے حکمرانی کی، سب کے دور حکومت کی داستان سنانا مختصر طور پر بھی بے حد طویل ہے جو ایک وقت میں ممکن نہیں اور ایک وقت میں ممکن نہیں اور ایک بادشاہ کے متعلق بھی اس کی زندگی کے ہمہ جہت پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈالی جاسکتی البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر حکمراں کے عہد حکومت میں خلوص و محبت، یگانیت، اتحاد و یکجہتی کے چراغ ہر بام و در پر روشنی نظر آتے تھے، تہذیب و تمدن، شائستگی، علم و فن کی اعلیٰ اقدار حد نظر دکھائی دیتی تھیں اور یہی وہ اوصاف تھے جن سے سلطنت حیدرآباد کی فضاؤں میں آج تک، آپسی پیار و محبت، بھائی چارگی کی سریلی دھن سنائی دیتی ہے۔ اب میں آصف سابع عثمان علی خاں کے عہد کے رواداری کے اس پہلو کا ذکر کروں گی جس کا ثبوت ہم کو ان کے نظام حکومت میں عہدیداروں کے تقرر میں ملتا ہے۔ درباروں میں ہندو، مسلم، پارسی، سکھ، عیسائی سبھی کو مراتب و منصب دیئے گئے تھے۔ چاہے وہ باب حکومت ہو، عدالت ہو، صرف خاص ہو، پولیس ہو، فوج ہو، مالگزاری ہو، دارالضرب ہو، تعلیم ہو، صنعت و حرفت ہو، کروڑگری ہو، صحت عامہ ہو، ریلوے ہو یا مذہبی اُمور ہوں۔
ریاست کے وزیراعظم مہاراجہ کشن پرشاد، یمنی السلطنت، نہایت قابل تھے۔ وہ صلح کل مسلک رکھتے تھے اور وینکٹ راما ریڈی کو کوتوال بلدہ مقرر کیا تھا جس کے تحت لا اینڈ آرڈر کی حفاظت کی جاتی تھی، خفیہ پولیس جابجا پھیلی ہوئی تھی تاکہ امن و امان برقرار ہے۔ تارا پور والا جمشید جی مشیر مال تھے۔ راجہ نرسنگ راؤ مہتمم سیونگ بینک نظامت ٹپہ کی خدمات انجام دیتے تھے۔ راجہ فتح نواز ونت صدر المہام مال اور صرف خاص تھے۔ راجہ دھرن کرن صدر المہام سررشتہ تعمیرات کی خدمات فائز تھے۔ علمی، ادبی اور صنعتی دلچسپی و سرپرستی راجہ دھرم کرن کا شعار تھا۔ وہ ایک مصلح و رہبر قوم تھے جس کے باعث انہوں نے عظیم الشان وقار اور ہر دل عزیزی حاصل کی جو ان کی اعلیٰ شخصیت اور خاندانی وقار کی اعلیٰ صفات کا مظہر ہیں۔ وہ نہایت مدبر، نیک طینت، جفاکش، خوش اخلاق، سخی، راست باز، خدا ترس، رحم دل، شفقت، مروت اور سادگی کا پیکر تھے۔ کسی کی دل شکنی کرنا بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ ہر مذہب و ملت کے لوگوں سے ایسے ملتے کہ کسی طرح بھی دوئی کا احساس نہ ہوتا۔ اس کے آباء و اجداد کا مسلک ہمیشہ شاہ پرستی اور وفاپرستی رہا۔ وہ بھی اس پر کاربند رہے۔ نواب یوسف علی خاں سالار جنگ ثالث 1870ء میں سررشتہ جنگلات سے وابستہ رہے۔ جنگلوں کی نگرانی اور جانوروں کی بقاء کا انتظام ان کے سپرد تھا۔ 1325ھ میں ان کو خاندانی خطاب ’’سالار جنگ‘‘ سے سرفراز کیا گیا۔ اس کے بعد اسٹیٹ پر سے سرکاری نگرانی ہٹاکر نواب سالار جنگ کو نظم و نسق کے کامل اختیارات دے دیئے گئے۔ مہاراجہ کشن پرساد کی سبکدوشی کے بعد نواب یوسف علی خاں کو ریاست کا مدار المہام بنایا گیا۔ نواب عمادالملک اور نواب فریدوں الملک ان کے مشیر خاص مقرر کئے گئے جو دیرینہ تجربہ رکھتے تھے۔ وہ صرف ایک سال مدار المہال رہے اور 1915ء میں انتہائی خاموشی سے انہوں نے رخصت کی درخواست پیش کی جو منظور کرلی گئی۔
انہوں نے دنیا کے ہر گوشے سے نوادرات جمع کئے اور دیوان دیوڑھی میں بڑے سلیقے کے ساتھ سجاتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد میوزیم کی تربیت سالار جنگ کمیٹی کی نگرانی میں ہوئی۔ 1919ء کو سرعلی امام کا تقرر بحیثیت وزیراعلیٰ کیا گیا۔
دور آصفی میں سر علی امام و پہلے غیرملکی وزیراعلیٰ تھے جن کی وائسرے ہند نے ’’بہبودی سلطنت کی خاطر‘‘ خدمت وزارت عظمی پر تقرر کی سفارش کی تھی۔ بعد میں یہ تصفیہ ہوا کہ نظام حیدرآباد اپنا وزیراعظم خود منتخب نہیں کرسکتے۔ سرعلی امام نے سب سے پہلے باب حکومت (سیکریٹریٹ) کی تشکیل اور جدید دستورالعمل کا نفاذ کیا۔ انہیں 1920ء کو ’’موہدالملک‘‘ کا خطاب عطا کیا گیا۔ ان کے کارہائے نمایاں کی بڑی تفصیل ہے۔ وہ اپنی اسکیموں میں کامیاب رہے۔ وہ ایک ترقی پسند صدر اعظم تھے۔ 1922ء میں وہ اپنی خدمت سے مستعفی ہوکر واپس پٹنہ چلے گئے۔ وہ بحیثیت صدر اعظم دو سال دس ماہ اور اٹھارہ یوم برسرکار ہے۔ ان کے بعد نواب فریدوں الملک صدر المہام مقرر کئے گئے۔ اس سے پہلے وہ نو سال مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔ جیسے مدار المہام کے معتمد خاص، سرکار نظام کے پولیٹیکل سیکریٹری تھے جبکہ میر عثمان علی خاں نے مدارالمہام کی ذمہ داری خود سنبھال رکھی تھی پھر انہیں مدار المہام سیاسیات مقرر کیا گیا۔ سرعلی امام کی صدارت میں جب باب حکومت کی تشکیل عمل میں آئی تو فریدون جی جمشید کو بحیثیت رکن باب حکومت (صدر المہام) یعنی منسٹر بنایا گیا۔ سرعلی امام کی یورپ کی روانگی کے بعد فریدون جی کو منصرم صدر اعظم مقرر کیا گیا۔ نواب فریدون الملک تقریباً چالیس برس تک ریاست حیدرآباد کی اہم خدمات پر مسلسل ناکام کرتے رہے۔ پہلے پارسی صدر اعظم ہونے کا اعزاز صرف انہی کو حاصل ہوا۔ ان کی فراست اور تدبر کا ثبوت تو ان کی خدمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلیل القدر عہدوں پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ سیاسی بحران میں کئی بڑے بڑے لوگ منتشر ہوگئے لیکن ان کا احترام اور ان کی ساکھ قائم رہی۔ ان کی دیانت داری، راست بازی اور وفاداری کے متعرف عثمان علی خاں کے علاوہ دوسرے حکام سلطنت تھے۔ ان کی سبکدوشی کے بعد ولی الدولہ پہلے کماندار افواج کے اسٹاف میں شامل کئے پھر انہیں معین المہام افواج سرکار آصفیہ مقرر کیا گیا۔ نواب فخرالملک بہادر کی سبدکوشی کے بعد انہیں معین المہام عدالت کا عہدہ دیا گیا۔ میر عثمان علی خاں اپنی خوشنودی ظاہر کرنے کے لئے اکثر تلوار، چھڑیاں اور دیگر بیش قیمت چیزیں انہیں عنایت کرتے اولاً ولایت جنگ‘‘ کا خطاب اور پھر ولی الدولہ کا خطاب عطا کیا گیا۔
ولی الدولہ نے عدالتی نظام میں کئی تبدیلیاں کیں، انہیں کے دور میں ٹپہ خانہ میں سیونگ بینک، وی پی اور منی آرڈر کا طریقہ رائج ہوا۔ محکمہ پولیس میں مفید اصلاحات ہوئیں، آسانیاں پیدا ہوئیں اور جراثیم کی روک تھام ہوئی ملک کے تعلیمی نظام سے ولی الدولہ کو ہمیشہ دلچسپی رہی۔ 1342ء میں جب جامعہ عثمانیہ کی جانب سے نواب میر عثمان علی خاں نظام سابع کو سلطان العلوم ڈگری دی گئی تو یہ فریضہ ولی الدولہ نے بحیثیت امیر جامعہ انجام دیا کیونکہ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے چانسلر تھے۔ 1926ء کو مہاراجہ کشن پرساد نے پھر وزارت عظمی کا جائزہ لیا۔ اس سے قبل انہوں نے مدار المہامی کا جائزہ نواب وقارالملک سے حاصل کیا تھا اور اب کئی سال بعد ان کے فرزند نواب ولی الدولہ سے حاصل کیا۔ وہ 1355ء تک اس پر فائز رہے۔ مہاراجہ پیرانہ سالی کی بناء پر تھک گئے تھے۔ ان کی خدمات اور کارکردگی پر ایک الگ مضمون لکھنا پڑے گا کیونکہ انہوں نے اپنی قابلیت کا سکہ اپنے دور وزارت میں بادشاہ وقت، عہدیداران سلطنت ، امراء اور رعایا کے دلوں پر بیٹھا دیا تھا۔ ان کی عقل و دانش کے ساتھ ان کی درد و دہش نے اہل حیدرآباد کو حیران کردیا تھا۔ مہاراجہ کشن پرشاد میر محبوب علی خاں کے دور میں 12 سال مدارالمہام رہ چکے تھے اور اہم اُمور سلطنت کے متعلق فرامین شاہی جاری کئے۔ یہ تقرب انہیں میر عثمان علی خاں کے عہد حکومت میں بھی حاصل رہا۔ میر عثمان علی خاں نے صرف خاص کے علاقہ کی بے قاعدگیاں دور کرنے کیلئے مرلی دھر فتح نواز ونت کو پائیگاہ کا صدر المہام مقرر کیا اور حکم دیا کہ صرف خاص کی آمدنی سے بلالحاظ مذہب و ملت سب کو مستفید کیا جائے۔ گویا ایک خانگی آمدنی سے جو اس وقت تک پائیگاہ کے خاندان والوں پر خرچ ہورہی تھی، وہ سلطنت کے سب ضرورت مندوں کو دی جائے اور یہ کام پوری پابندی سے اب تک ہورہا ہے۔
میر عثمان علی خاں کے 36 سالہ دور حکومت میں ہر محکمہ کے عہدیداروں کی بڑی لمبی فہرست ہے جس کا تفصیلی ذکر ممکن نہیں ، لیکن مختلف اہم خدمات پر برسراقتدار شخصیتوں کے ناموں میں کچھ کا تذکرہ کرچکی اور کچھ لوگوں میں نواب سعید احمد چھتاری، نواب خاں خاناں، نواب سر اکبر حیدری، سعید حسین بلگرامی جو نواب اعتمادالملک، نواب عقیل جنگ، نواب زین یار جنگ (جو آرکیٹیکٹ تھے) نواب مہدی یار جنگ، خسرو جنگ بہادر، رائے بیچ ناتھ صاحب، محسن الملک، راجہ دھن راج گیر، نواب دین یار جنگ، راجہ اندر کرن بہادر، فصاحت جنگ جلیل جو میر عثمان علی خاں کے استاد تھے۔ نواب سراج یار جنگ، نواب حسن یار جنگ، ذوالفقار جنگ، راجہ وینکٹ راؤ بہادر راؤ رتبھا جنکو ’’دوستان سلامت‘‘ کہا جاتا اور راجہ چندو لال ممالک محروسہ سرکار عالی کے نام جو آئین و قوانین بغرض افادہ رعایا و انتظام مملکت و مالگزاری کی ذمہ داری تھی۔ غرض کہ ان کے کاموں سے ہم ان کی دماغی صلاحیتوں کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ لائق علی آخری وزیر تھے۔ یادوں کے دریچے کھلنے لگیں تو اور بھی مایہ ناز ہستیاں دکھائی دیتی ہیں، جیسے چندو لال شاداب، راتن نارائن داس، نواب خورشید جاہ، رائے موہن لال، راجہ شیام راج، بنی راجہ، راجہ مرلی منوہر، غلام علمبردار اور نہ جانے کتنے روسا اور اکابرین نے مل کر ایسا سماج، ایسا تمدن بنایا تھا کہ یہ کہنا محال تھا کہ ایک حیدرآبادی یہاں تک ہندو، یہاں تک مسلمان ہے۔ یکجہتی اور مذہبی رواداری کے یہ لوگ ایسے حسین مرقعے تھے کہ ان کی یاد دل کی کلی کھلا دیتی ہے۔ ہم ان کی کارکردگی کا بغور جائزہ لیں تو ہمارا سر احترام سے جھک جاتا ہے کیونکہ یہ ہستیاں صرف اُمور سلطنت میں حسن انتظام کے لئے ہی قابل تعریف نہ تھیں بلکہ محبت و خلوص کے پیکر تھے۔ انسانیت کے امین تھے۔ ان کے دم سے حیدرآباد کی گنگا۔ جمنی تہذیب نے آصف جاہی حکومت کو بام عروج پر پہنچایا۔ قابل فخر ریاست بنایا۔ حیدرآباد کے ہر مذہب کے اصلی باشندے آج بھی انہیں سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بقول جوشؔ ملیح آبادی :
اے شہہ عثمان علی درویش سیرت بادشاہ
سجدہ گاہ صاحباں دل ہے تیری بارگاہ تیرے بریط سے نکلتی ہے صدائے لا الہ
کج ہے تیرے فرق دولت پر مودت کی کلاہ
ہم اس رفیع المرتبت سلطان میر عثمان علی خاں کی الوالعزمی ، قوت فیصلہ، تدبیر اور مدہبی رواداری کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم جھکاتے ہیں۔