عثمان ساگر پراجکٹ کی تکمیل آصف سابع کی خصوصی دلچسپی

آرکائیوز کے ریکارڈ سے ڈاکٹر سید داؤد اشرف

آندھراپردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ آصف جاہی عہد کے سرکاری ریکارڈ سے حاصل کردہ مواد کی بنیاد پر راقم الحروف نے متعدد مضامین لکھے ہیں۔ اس نہایت مستند اور ناقابل تردید مواد کی بنیاد پر لکھے گئے ان مضامین میں پیش کردہ حقائق سے اس بات کابخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سابق ریاست حیدرآباد یا مملکت آصفیہ کے آخری حکمران میر عثمان علی خان آصف سابع کو تعلیم کی اشاعت ، علم و ادب اور فن کی ترقی و فروغ سے غیرمعمولی دلچسپی تھی اور وہ اس کے لئے بڑی فراخ دلی سے مالی امداد دیا کرتے تھے ۔

وہ مذہبی رواداری اور سیکولر رویے کے حامل تھے ۔ علاوہ ازیں انھوں نے عوام کی فلاح و بہبود اور سہولت کیلئے بعض اہم اقدامات کئے تھے ۔ عدلیہ سے عاملہ کی علاحدگی اور بیگار کی لعنت کے خاتمے کا ریاست حیدرآباد کی مثالی اور قابل تقلید اصلاحات میں شمار ہوتا ہے۔ جس وقت ریاست میں عدلیہ کو عاملہ سے علاحدہ کیا گیا تھا اُس وقت تک نہ تو کسی دیسی ریاست میں اور نہ ہی برطانوی ہند میں اس سلسلے میں کوئی اقدامات کئے گئے تھے ۔ اسی حکمران کے عہد میں حیدرآباد اور سکندرآباد کے عوام کو صاف ستھرے پانی کی فراہمی کے لئے بڑی تیزی سے عثمان ساگر پراجکٹ مکمل کیا گیا ۔ عثمان ساگر پراجکٹ یا حیدرآباد و سکندرآباد کے عوام کو سربراہی آب کی اسکیم سے متعلق آندھراپردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ ریکارڈ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس مسئلے کو کس طرح عجلت کے ساتھ حل کیا گیا تھا۔

مالیے کی کمی اور فراہمی کے امور کو کبھی اس سلسلے میں رکاوٹ بننے نہیں دیا گیا ۔ نہ صرف یہ کہ اُس وقت جو پانی کی قلت تھی اُسے دور کیا گیا بلکہ مستقبل کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اُس کی بھی تکمیل کردی گئی ۔ ریاست حیدرآباد کے آخری حکمران آصف سابع نے اس معاملے میں راست دلچسپی لی تھی کیونکہ اُس زمانے میں ایک عرصے تک صدر اعظم کے عہدے پر کوئی فائز نہیں تھا اور حکومت کے معاملات کی اعلیٰ سطح پر یکسوئی والیٔ ریاست کو ہی کرنی پڑتی تھی ۔ کام کے ہر اہم مرحلے پر انھوں نے فرامین صادر کئے اور متعلقہ عہدیداروں کو ہدایت دی کہ بلا تاخیر اہم امور تصفیے اور احکام کیلئے پیش کئے جائیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پراجکٹ کی تکمیل میں انھوں نے خصوصی دلچسپی لی تھی ۔ متذکرہ بالا آرکائیوز کے ریکارڈ سے حاصل کردہ مواد ذیل میں پیش کیا جارہا ہے ۔

حیدرآباد میں ستمبر 1908ء کی قیامت خیز طغیانی کے بعد اُس طغیانی کے اسباب اور آئندہ کے لئے اُس کا سدباب کرنے کی غرض سے تجاویز پیش کرنے کیلئے میسور کے نامور انجینئر سروشویشوریا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جنھوں نے اس ضمن میں دو ریزر وائیرز یعنی خزانہ ہائے آب عیسیٰ اور موسیٰ ندیوں پر تعمیر کرنے کی رائے دی تھی ۔ اس رائے کی بنیاد پر چھٹے آصف جاہی حکمران میر محبوب علی خان نے بذریعہ فرمان مورخہ 22 صفر 1328 ھ م 5 مارچ 1910 ء ایک کروڑ 28 لاکھ روپئے کی منظوری دی تھی ۔ اُسی زمانے میں حیدرآباد اور سکندرآباد کی آبرسانی کے انتظام کی حالت تشفی بخش نہیں تھی اور اس بارے میں مزید بے توجہی عوام کے لئے تکلیف دہ ہوسکتی تھی ۔ اُس وقت حیدرآباد کو تالاب حسین ساگر اور تالاب میر عالم سے پانی سربراہ کیا جاتا تھا اور اُن خزانوں میں دو لاکھ بارہ ہزار نفوس کے لئے سربراہی آب کی گنجائش تھی جبکہ حیدرآباد کی آبادی پانچ لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی ۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ پانی کی شدید قلت تھی اور اس قلت کو دور کرنے کیلئے فوراً کارروائی کرنی ضروری تھی۔

چنانچہ اس امر کے مدنظرآصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 29 رجب 1330ھ م 15 جولائی 1912 ء یہ احکام صادر کئے ’’ دو مجوزہ خزانہ ہائے آب میں سے خزانہ آب برود موسیٰ کا کام پہلے شروع کیا جائے اور یہ اس طرح تیار ہو کہ طغیانی روکنے کے علاوہ جس کی گنجائش سرویشوریا نے رکھی تھی آبرسانی کیلئے بھی موزوں ہو ‘‘ ۔ سروشو یوریا نے ڈرینج کی رپورٹ میں انتظام آبرسانی کی اصلاح کو نہایت ضروری قرار دیا تھامگر اُن کی مرتبہ رپورٹ میں آبرسانی کی مکمل اسکیم شریک نہ تھی ۔ لہذا بعد ازاں جب اس کو شریک کرنا ضروری سمجھا گیا تو اُن کی تجاویز کے دائرے کو وسیع کرنا پڑا ۔ جب یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ بلدہ حیدرآباد اور سکندرآباد میں آبرسانی کی اسکیم کی ضرورت ہے تو یہ طئے پایا کہ یہ اسکیم عثمان ساگر پراجکٹ سے مربوط کی جانی چاہئے اور تالاب عثمان ساگر کو سربراہی آب کا خاص ذریعہ قرار دیا جانا چاہئے ۔

چیف انجینئر کی سفارش پر آصف سابع کی منظوری سے ماہر آبرسانی مسٹر ارون Mr.Irwin کو ایک اسکیم مرتب کرنے کے لئے بیرون ریاست سے طلب کیا گیا ۔ ارون نے ریاست حیدرآباد کے چیف انجینئر کے مشورے سے ایک اسکیم مرتب کی جس کے تخمینہ مصارف 57 لاکھ 35 ہزار روپئے تھے۔ اس اسکیم کے بارے میں معتمد تعمیرات اور چیف انجینئر نے جس رائے کا اظہار کیا تھا وہ غیرتشفی بخش تھی ۔

اس لئے معین المہام (وزیر ) فینانس نے ایک عرض داشت مورخہ 20 ربیع الثانی 1333ھ م 7 مارچ 1915ء آصف سابع کی خدمت میں روانہ کی جس میں انھوں نے درخواست کی کہ عثمان ساگر سے بلدہ حیدرآباد و سکندرآباد کو پانی پہنچانے کی اسکیم مرتبہ مسٹر ارون کی نسبت معتمد تعمیرات و چیف انجینئر کو ضروری ہدایات دی جائیں۔ آصف سابع نے دو روز بعد ہی حسب ذیل احکام مورخہ 9 مارچ 1915 ء صادر کئے ۔

’’معین المہام فینانس کی رائے درست ہے ۔ ایسے امور بلا تعویق ( تاخیر ) غیر ضروری تصفیے و احکام کیلئے پیش ہونے چاہئیں۔ پس عرض داشت کے آخر میں چھ اُمور جو بتائے گئے ہیں حسبہ احکام جاری کئے جائیں اور جہاں تک جلد ہوسکے عثمان ساگر سے آبرسانی کے پراجکٹ کے متعلق قطعی آراء و تجاویز عرض کرکے منظوری حاصل کی جائے‘‘۔

پانی کی سربراہی کے سلسلے میں مسٹر ارون کی تجویز تھی کہ خزانہ عثمان ساگر سے تقریباً پندرہ میل سنگ بستہ اور پٹے ہوئے نالوں کے ذریعے پانی لایا جائے ۔ اور پھر شہر میں پانی کی سربراہی کی جائے ۔ اس بارے میں معتمد تعمیرات نے تجویز پیش کی کہ کُھلی نہروں کے ذریعے ایک طرف تالاب میرعالم میں اور دوسری طرف حسین ساگر میں پانی مہیا کیا جائے اور ان تالابوں سے پانی کی سربراہی کی جائے نیز ان ہر دو تالابوں کی موجودہ قلت آب کی تلافی خزانہ عثمان ساگر سے کی جائے ۔

معتمد تعمیرات نے لکھا کہ اس انتظام سے کم از کم بیس لاکھ روپئے کی بچت ہوسکے گی ۔ معتمد تعمیرات نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ مسٹر ارون کی مرتبہ اسکیم سے بلاشبہ زیادہ صاف و ستھرا پانی مہیا ہوسکے گا تحریر کیا کہ ان کی مذکورہ بالا تجویز کے مطابق جو پانی مہیا ہوگا وہ بھی کافی صاف رہے گا ۔ ان دونوں تالابوں کی معمولی وسعت ، اجتماع آب اور تمازتِ آفتاب کا اثر پانی کو ایسا صاف کردے گا کہ وہ پینے کے قابل ہوسکے ۔ معتمد تعمیرات نے یہ بھی لکھا کہ فی الوقت سکندرآباد اور چادرگھاٹ کے لوگ حسین ساگر کا پانی استعمال کرتے ہیں اور جہاں تک ان کے علم میں ہے اس کے استعمال سے کوئی خراب نتائج ظہور میں نہیں آئے ہیں۔ اس بارے میں کسی ماہر سے صلاح و مشورہ ضروری تھا ۔

چنانچہ اس سلسلے میں مشورے کی غرض سے کرنل کلیمشا ، سربرآوردہ ماہرحفظان صحت ، حکومت ہند کو حیدرآباد بلایا گیا ۔ انھوں نے حسین ساگر کا ایسا پانی استعمال کرنے کی سختی سے مخالفت کی جو کھلی نہر سے مہیا کیا جاتا ہو ۔ کرنل موصوف نے یہ بھی کہا کہ ان دنوں ہر شہر اس امر کی کوشش کررہا ہے جہاں تک ممکن ہو صاف سے صاف پانی مہیا کیا جائے ۔ ایسی صورت میں یہ بات افسوسناک ہوگی کہ حیدرآباد کو نہایت صاف پانی کے بغیر قناعت کرے ۔ انھوں نے یہ لکھا کہ معتمد تعمیرات کا یہ خیال غالباً درست ہے کہ حسین ساگر کا پانی معمولی طورپر تمازت آفتاب کے اثر سے صاف اور ستھرا ہورہا ہے مگر مطلع کے ابرآلود رہنے پر یا موسم برسات میں یہ صفائی نہیں ہوتی اور یہی وہ زمانہ ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ مضر اجزا پانی میں پیدا ہوتے ہیں۔ تالاب میں مختلف سمتوں سے پانی آتا ہے اور تالاب کے پانی میں شامل ہونے سے قبل جہاں جہاں سے گزرتا ہے وہاں کی کثافت اس میں لازمی طورپر داخل ہوجاتی ہے ۔

معین المہام فینانس نے سربراہی آب کی اسکیم کے بارے میں مذکورہ بالا تجاویز کو ایک عرض داشت مورخہ 8نومبر 1915 ء میں درج کرتے ہوئے لکھا کہ جب اس اسکیم پر کثیر رقم صرف ہونے والی ہے تو بلدہ حیدرآباد کے لئے نہایت صاف پانی مہیا نہ کرنا ایک غلطی ہوگی ۔ سربراہی آب کے لئے مسٹر ارون کی اسکیم اور کرنل کلیمشا کی تجاویز کی تائید کرتے ہوئے مسٹر ارون کی مرتبہ اسکیم رقمی 57 لاکھ 35 ہزارکو منظوری عطا کرنے کی درخواست کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ اس کام کی برآورد 60 لاکھ تک بڑھادی جائے تاکہ جنگ کی وجہ سے اشیاء کا جو نرخ بڑھ گیا ہے اُس کی گنجائش نکل سکے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس بات کے لئے منظوری مانگی اگر وہ ( معین المہام) مناسب سمجھیں تو اس کام کے اثناء میں کسی وقت کنلسٹنگ انجینئر کو طلب کرلیں۔ اس اہم عرض داشت کو آصف سابع کی خدمت روانہ کرنے کے صرف تین چار روز بعد حسب ذیل فرمان مورخہ 3 محرم 1334 ھ م 11 نومبر 1915 ء صادر ہوا ۔

’’معین المہام فینانس کی رائے بالکل مناسب ہے ۔ کرنل کلیمشا کی رائے کے مطابق عثمان ساگر کا پانی حیدرآباد اور سکندرآباد کو پختہ ، سنگ بستہ اور پٹے ہوئے نالو ں سے پہنچایا جائے تاکہ اس پانی میں باہر کی غلاظت جہاں تو ہو شامل نہ ہونے پائے ۔ حسبہ مسٹر ارون کی اسکیم منظور کی جائے اور اس کی برآورد ( تخمینہ مصارف ) 57 لاکھ 35 ہزار کے عوض ( موجودہ جنگ کے لحاظ سے ) 60 لاکھ منظور کی جائے ۔ اس اسکیم کو پورا کرنے میں اگر کسی وقت کنسلٹنگ انجینئر کو طلب کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو معین المہام فینانس کو اجازت دی جائے کہ ایسے انجینئر کو وہ وقتاً فوقتاً طلب کرسکتے ہیں جس کی فیس کے علاوہ اخراجات سفر کے 3ہزار سے زائد نہ ہوگی ‘‘۔

آبرسانی کے جن ماہرین کو صلاح و مشورے کے لئے بیرون ریاست سے طلب کیا گیا تھا انھیں بڑی بڑی رقمیں ادا کی گئیں ۔ مسٹر ارون آغاز جنگ پر یورپ روانہ ہوگئے تھے ۔

اس لئے اس کام کی انجام دہی مسٹر اسٹون برج کے سپرد ہوئی ۔ کار مذکورہ میں اہم ترین کام نہر سنگ بستہ کی تعمیر تھی جس کا گتہ مسرز پلاو اینڈ کمپنی کو دیا گیا تھا اور میعاد تکمیل کارتیس ماہ رکھی گئی تھی ۔ اس کام کا آغاز 15 جولائی 1916 ء کو ہوا اور 8 مئی 1921 ء کو مکمل ہوا ۔ منظورہ تجویز یہ تھی کہ 76 لاکھ گیلن یومیہ کی مقدار کے سلوساینڈ فلوٹر Slow Sand Filters تعمیر کئے جائیں لیکن چیف انجینئر اور کرنل کلیمشاء کے مشورے سے اس میں تبدیلی کرکے پیٹرسن گراویٹی فلٹرس Paterson Gravity Filters تعمیر کئے گئے ۔ یہ فلٹرس ایک کروڑ گیلن یومیہ مقدار کی مناسبت سے تجویز کئے گئے تھے اور دو کروڑ گیلن یومیہ کی توسیع کی گنجائش رکھی گئی ۔

مسٹر ارون کے قائم مقام مسٹر اسٹون برج کی بدانتظامی سے کام میں تاخیر ہوئی اور اسکیم پر زائد مصارف ہوئے ۔ انھوں نے قواعد و ضوابط کی پابندی کا کوئی لحاظ نہیں رکھا۔ اُن کی بے ضابطگیوں کی وجہ سے منظورشدہ رقم سے تقریباً 50 فیصد زیادہ رقم صرف ہوئی ۔ حسابات کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد مرممہ (اصلاح کی ہوئی ) برآورد مرتب کی گئی جس کی رقم 89 لاکھ 37 ہزار 8 سو دس روپئے تھی ۔ اس طرح 29لاکھ 37 ہزار 8 سو دس روپئے زائد خرچ کئے گئے ۔

چیف انجینئر نے لکھا کہ چونکہ اسٹون برج اپنے عمل کی جواب دہی کے لئے یہاں موجود نہیں ہیں اس لئے جواز اور خرچ ہوچکا ہے تکمیل ضابطے کے لئے اس کی منظوری ضروری ہے ۔ محکمہ فینانس نے چیف انجینئر کی رائے سے اتفاق کیا ۔ محترم صدر اعظم نے عرض داشت میں کام کے مختلف مرحلوں کی تفصیل درج کرتے ہوئے لکھا کہ انھیں سررشتہ فینانس کی رائے سے اتفاق ہے کہ مرممہ برآورد رقمی 89 لاکھ 37ہزار آٹھ سو دس روپئے منظور فرمائے جائیں تاکہ رقم منظورہ سے جو زائد اخراجات لاحق ہوئے ہیں اُن کا تصفیہ ہوسکے اور جو کام رقم نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی ہیں اُن کی تکمیل کرکے اسکیم آبرسانی کو منظورہ تجاویز کی حد تک مکمل کردیا جائے ۔ اس عرض داشت پر آصف سابع کے حسب ذیل احکام صادر ہوئے ۔

’’صدر اعظم کی رائے کے مطابق اسکیم آبرسانی کی مرممہ برآورد رقمی 89 لاکھ 37 ہزار آٹھ سو دس روپئے منظور کی جائے ‘‘۔