ایل پانڈو رنگا ریڈی
قارئین! آپ اس حقیقت سے شاید واقف ہی ہوں گے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کی ابتدائی دور کی علامت (LOGO) میں اُردو میں ’جامعہ عثمانیہ‘ اور ’نور النور اَنا مدینۃ العلم و علی بابھا‘ جیسے الفاظ شامل کئے گئے تھے۔ حیدرآباد اسٹیٹ میں ستمبر 1948ء کی فوجی مداخلت کے بعد جس نے حیدرآباد کو عملاً خالی کردیا لیکن اس کارروائی کو ہلکی باور کرانے کیلئے ’پولیس ایکشن‘ کا نام دیا گیا، اُس وقت کے ملٹری گورنر جے این چودھری نے وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی کیلئے احکام جاری کئے کہ یونیورسٹی لوگو کے اُردو الفاظ کو تلگو اور ہندی سے بدل دیں۔
عثمانیہ یونیورسٹی لوگو میں تلگو الفاظ ’عثمانیہ وشواودیالیم‘ کو شامل کرنا قابل فہم ہے۔ تاہم ’’نور النور انا مدینۃ العلم و علی با بہا‘‘ کی جگہ دیوناگری رسم الخط میں ’تماسوما جیوتیرگامیا‘ تحریر کرانے کا کیا جواز ہے؟ ہمیں ’تماسوما جیوتیر گامیا‘ پر بھی اعتراض نہیں، لیکن تلنگانہ کے تمام واجبی سوچ و فکر کے حامل سکیولر شہریوں کی خواہش ہے کہ لوگو میں ’جامعہ عثمانیہ‘ کے الفاظ بھی شامل رہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی ہندوستان کی اولین یونیورسٹی ہے جس نے کسی ہندوستانی زبان میں اعلیٰ تعلیم روشناس کرائی۔ اس کاوش کو کوئی عام شخصیتوں نے نہیں بلکہ رابندر ناتھ ٹیگور اور مہاتما گاندھی نے کافی سراہا ہے۔
عثمانیہ یونیورسٹی کے چانسلر عزت مآب گورنر تلنگانہ کے علاوہ وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی سے بھی کئی نمائندگیوں کے باوجود حکام نے عثمانیہ یونیورسٹی لوگو میں اُردو تحریر کو بحال کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ چونکہ اس ضمن میں کوئی حامی نہیں بھری گئی، اس لئے راقم السطور نے عثمانیہ یونیورسٹی کے کانوکیشن میں اپنی پی ایچ ڈی ڈگری قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ہندوستان کی کوئی بھی یونیورسٹی کے کانوکیشن میں ایسی نظیر نہیں ملتی ہے۔ میں نے عثمانیہ یونیورسٹی وائس چانسلر سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ کم از کم صدسالہ تقاریب کے دوران یونیورسٹی لوگو میں اردو الفاظ بحال کئے جائیں۔ مگر حکام اس پر بھی آمادہ نہیں ہوئے۔