عثمانیہ یونیورسٹی کے ریاضی کے قابل فخر سپوت ڈاکٹر شبیراحمد

غضنفر علی خان
یوں تو عثمانیہ یونیورسٹی کے فرزندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ اگر ان کا تعارف کرایا جائے تو باقاعدہ ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے ۔ یہ سلسلہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا اور لاکھوں تشنگان علم نے اس مادر جامعہ سے استفادہ کیا ۔ تاہم 1970 کے دہے میں ڈاکٹر شبیراحمد نے علم کی ایک اور شمع روشن کی ۔ آپ نے 1970 ہی میں یہاں سے ڈگری حاصل کی تھی ۔ علمی سفر کے دوران ترقی کے زینے طے کرتے گئے اور بالآخر میاتھمیٹکس (علم ریاضی) جیسے خشک مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ ڈاکٹر شبیر احمد کی خدمات سے ملک اور بیرون ملک کی کئی جامعات نے فیض حاصل کیا ۔ ڈاکٹر صاحب کے کارناموں اور خدمات کا احاطہ کرنا بھی مشکل کام ہے ۔ احقر موصوف سے دیرینہ تعلقات رکھتا ہے ۔ دور طالب علمی سے لیکر آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ آپ نے 1973 میں علم ریاضی میں عثمانیہ یونیورسٹی سے ماسٹرس (ایم ایس سی) کیا اور اس بے نظیر جامعہ سے 1979 میں پی ایچ ڈی مکمل کیا جس میں آپ کا تحقیقی عنوان Metrization and general Topology تھا ۔ حصول علم کی ڈاکٹر شبیر نے کبھی حد مقرر نہیں کی بلکہ ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘ کے مصداق امریکہ کی ورجینیا یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا ۔ یہ 1989 کی بات ہے ۔ سفر علم جاری رکھتے ہوئے آپ نے خرطوم یونیورسٹی سوڈان سے مائیکرو اکنامکس جیسے مشکل مضمون میں پی جی ڈپلوما کیا ۔ اتنی ساری ڈگریوں کے نتیجہ میں آپ اپنے مضمون کے ’’استاد الاستاذ‘‘ بن گئے اور خدمات کا دریا بہادیا ۔ جس طرح سے دریا کبھی خشک نہیں ہوتا ویسے ہی ڈاکٹر شبیر احمد مختلف جامعات میں خدمات انجام دیتے رہے ۔ یہ بڑی مسرت کی بات ہیکہ آپ کی علمی قابلیت سے فی الحال مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (حیدرآباد) استفادہ کررہی ہے ۔

اس قابل صد افتخار یونیورسٹی کی جوہر شناسی ہی کہئے کہ اس نے ڈاکٹر بشیر احمد کی خدمات حاصل کیں ۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں آپ اسسٹنٹ پروفیسر رہ چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ سوڈان ہی کی gezora یونیورسٹی کے طلبہ کو اپنے دریائے علم سے سیراب کرچکے ہیں ۔ دکن کے اس مایۂ ناز سپوت کو مولانا آزاد یونیورسٹی نے ان کے آبائی شہر حیدرآباد میں علمی خدمات کا موقع دے کر قابل تعریف کام کیا ہے ۔ امید ہیکہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے طلبہ ان کی خدمات سے فیض یاب ہوں گے ۔ زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ حیدرآباد شہر کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شبیر احمد کی تعلیم اردو میڈیم سے ہوئی ہے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی تو خیر سارے ہندوستان میں پہلی اور واحد یونیورسٹی ہے جہاں اردو کو صرف سخنوری کے لائق زبان نہیں سمجھا گیا بلکہ جدید علوم کی تعلیم بھی اسی زبان میں فراہم کی ۔ اس سلسلہ میں زبان اردو میں نئی اصطلاحات رائج کرنے کا کام دارالترجمہ اور وسیع اصطلاحات کمیٹی نے اتنی خوبی سے انجام دیا کہ جسکی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے ڈاکٹر شبیر احمد ابتداء ہی سے اپنے مضمون میں استعمال ہونے والی فنی اصطلاحات سے بخوبی واقف ہیں ۔ اب تو مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں انھیں اپنے تجربات سے یونیورسٹی کی گراں قدر خدمت انجام دینے کا موقع ملا ۔ اصطلاحات کا مسئلہ بے حد کٹھن ہے ۔ ان سے کماحقہ واقفیت رکھنے والے اساتذہ کا تو اب فقدان ہوگیا ہے ۔ شکر ہے کہ مولانا آزاد یونیورسٹی کو ایک لائق سپوت ملا ہے اور خود ڈاکٹر شبیر احمد کی بھی ہے خوش بختی ہے کہ انھیں اس جامعہ میں درس و تدریس کا موقع ملا ہے ۔ اپنے اس طویل کیریئر کے دوران ڈاکٹر موصوف نے کئی اعزازات اور انعامات حاصل کئے ہیں مثلاً میرٹھ یونیورسٹی سے 1979 میں انھیں ینگ سائنٹسٹ ایوارڈ ، 1983 میں عثمانیہ یونیورسٹی سے Creative سائنٹسٹ ایوارڈ مل چکا ہے ۔ آپ نے کئی بیرون ممالک کا بھی دورہ کیا ۔ یونیسکو کے تحت چلنے والے انٹرنیشنل سنٹر آف میکانیکل سائنس ایوارڈ حاصل کرچکے ، جیسا کہ راقم الحروف نے ابتداء میں تحریر کیا ہے کہ اعزازات اور انعامات کی فہرست بہت طویل ہے ۔ تحریر کی طوالت سے گریز کرتے ہوئے چند ایک انعامات کے ذکر پر میں نے اکتفا کیا ہے ۔

ڈاکٹر موصوف برطانیہ ، امریکہ ، فرانس ، مشرق وسطی کے ممالک میں بھی سرکاری میٹنگس میں شرکت کرچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ یونیسکو کو اور ایلسکو کے پراجکٹس سے وابستہ رہے ہیں ۔ ان بیرون ممالک اور تنظیموں کے علاوہ وطن کی محبت ہمیشہ ان پر غالب رہی ۔یہی وجہ ہے کہ کوچین یونیورسٹی ، گلبرگہ یونیورسٹی ، شولاپور یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی میں نصاب ترتیب دینے میں بھی حصہ لے چکے ہیں ۔ آپ کی زیر نگرانی کئی طلبہ وطالبات نے بھی ریسرچ بھی کیا ہے ۔ مولانا آزاد یونیورسٹی میں بھی وہاں کے طلبہ اس فیض بخش شخصیت سے استفادہ کریں گے ،یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے ۔ ایسی صورت میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے تحصیل یافتہ نوجوان آگے آکر ڈاکٹر شبیر احمد اور یونیورسٹی کے دیگر لائق اساتذہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آئندہ کے لئے ’’علم کی نئی شاہراہ‘‘ بنائیں گے ۔ یونیورسٹی کے طلبہ اور تدریسی عملہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اردو زبان میں تعلیم کے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس جامعہ کا نام روشن کریں گے ۔ کوئی بھی کام صرف تمناؤں سے پورا نہیں ہوتا ۔ اس کے لئے سخت جانفشانی ، ایثار اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر شبیر احمد کا بھی فرض ہے کہ وہ ہمارے شہر کی جامعہ کی اسی لگن اور محنت سے خدمت انجام دیں جس کا مظاہرہ انھوں نے ماضی میں بھی کیا ہے ۔ طلبہ کے لئے انھوں نے مثال قائم کی ہیکہ اردو میڈیم سے پڑھنے والے طلبہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواسکتے ہیں۔ اردو زبان میں اب بھی وہ وسعت ہے کہ عصری اور مروجہ علوم کا حصول اردو زبان میں بہ آسانی کیا جاسکتا ہے ۔ موقر روزنامہ سیاست کے لئے بھی ڈاکٹر شبیر نئی شخصیت نہیں ہیں ، اس سے قبل کئی مرتبہ ان کے متعلق خبریں ، رائے زنی اور تبصرے شائع ہوچکے اور یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے ۔