(وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی کی نذر)
پروفیسر شمیم علیم
کس قدر خوشی اور فخر کی بات ہیکہ عثمانیہ یونیورسٹی اپنی ترقی کی راہ پر سو سال سے گامزن ہے۔ ہندوستان کی یہ پہلی یونیورسٹی ہے جس کا ذریعہ تعلیم انگریزی کے بجائے ایک ہندوستانی زبان تھی۔ ایچ ای ایچ نواب میر عثمان علی خان کی تخیل کی داد دینی چاہئے جنہوں نے اتنا مشکل قدم اٹھایا اور اسے نہایت خوبی سے انجام دیا اور یونیورسٹی کو ہندوستان کی صف اول یونیورسٹیوں میں لاکھڑا کیا۔ آج کتنے ہی عثمانین ہیں جنہوں نے ملک اور ملک کے باہر عثمانیہ یونیورسٹی کا نام روشن کیا۔
ایچ ای ایچ نواب میر عثمان علی خان نے اپریل 1917ء میں ایک فرمان جاری کیا جس کی رو سے عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور 5 اکٹوبر 1918ء میں دراصل یونیورسٹی کے قیام نے عملی جامہ پہنا۔ لہٰذا یہ سوسالہ جشن اپریل 1917 سے لیکر اکٹوبر 1918ء تک ہونا چاہئے۔
مجھے یہ دیکھ کر بہت تعجب اور افسوس ہورہا ہے کہ ہم اپریل 2017ء سے جشن کا اہتمام کررہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ کمیٹیاں تو بن رہی ہیں، لیکن کام صحیح طریقہ سے ابھی شروع بھی نہیں ہوا۔ دراصل اس جشن کی تیاری کم از کم ایک سال پہلے سے شروع کرنا چاہئے تھی اور یہ ذمہ داری ایسے لوگوں کو دینی چاہئے تھی جو یونیورسٹی سے خاص کر نظام کے زمانہ سے وابستہ ہوں۔ اس جشن کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کسی بڑی شخصیت کے ہاتھوں اس کا افتتاح کردیں۔ بہت سے سیاستدانوں کو اس جشن میں شریک کردیں۔ بہت شاندار ڈنرس اور تفریحی پروگرامس کردیں۔ مقصد تو یہ ہونا چاہئے کہ ہم ماضی کو یاد کریں اور مستقبل کیلئے کام کریں لیکن یہاں نہ سنہرے ماضی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں نہ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے پلان۔
محترم وائس چانسلر یہ ناچیز آپ کی خدمت میں کچھ تجاویز رکھ رہی ہے اگر ممکن ہو تو اس پر عمل کیجئے۔
(1) سب سے پہلے ضرورت ہے عثمانین کی رجسٹری کی تاکہ ہمیں یہ تو معلوم ہو کہ وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں ان سے رابطہ قائم کیا جائے۔
(2) جن عثمانین نے یونیورسٹی کا نام روشن کیا ہے، ان کو خراج تحسین عطا کیا جائے۔ ان کو ایوارڈس دیئے جائیں۔
(3) بہت سے عثمانین ایسے ہوں گے جو یونیورسٹی کی ترقی کیلئے ڈونیشن دینا چاہتے ہوں گے۔ خاص کر وہ لوگ جو امریکہ اور یوروپ میں جابسیں ہیں ان کے پیسوں سے ریسرچ سنٹر اور دوسری مفید چیزیں قائم کی جاسکتی ہیں۔
(4) سب سے پہلے تو ہمیں اس یونیورسٹی کے فاونڈر کو خراج تحسین عطا کرنا چاہئے۔ ان کی شخصیت پر ایک ڈاکومنٹری بنا کر ہر کالج میں طلباء کو دکھانا چاہئے۔ بہت سے طلباء کو تو ان کا نام تک نہیں معلوم۔
(5) ایک ہلکی سی کوشش 1984 میں کی گئی تھی۔ جب ہاشم علی صاحب وائس چانسلر تھے۔ وژن آف عثمانیہ کے نام سے ایک مستقل نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ (اس کا زیادہ تر کام راقم الحروف نے کیا تھا) لوگوں نے اس کی بہت تعریف کی لیکن وہ تو ابتداء تھی۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ بجائے ترقی کے اسے تنزل کی طرف لے گئے۔ وژن آف عثمانیہ کو دوبارہ ایک نئی زندگی دینا بہت ضروری ہے۔ یہ ابتداء سے لیکر آج تک یونیورسٹی کی ترقی کے تمام مراحل پر روشنی ڈالتی ہے۔
(6) ریاست حیدرآباد ہندوستان کی نہ صرف ایک سب سے بڑی پر نسلی ریاست تھی بلکہ ایک بہترین نظم و نسق کی مثال بھی تھی جو آج بھی دوسروں کیلئے مشعل راہ ہے۔ نظام کے نظم و نسق کے تعلق سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن آہستہ آہستہ بہت سے کتابیں لائبریری سے ناپید ہوگئیں۔ ضرورت ہیکہ ان کتابوں کو دوبارہ یکجا کیا جائے اور نایاب کتابوںکی دوبارہ اشاعت کروائی جائے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کی لائبریری میں ایک کمرہ ان کتابوں کیلئے الگ مختص کیا جائے۔ ہر سال چند طلباء کو اسکالرشپ دی جائیں تاکہ وہ مختلف موضوع پر ریسرچ کریں۔
(7) ہسٹری اور پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں نظام ایڈمنسٹریشن کے تعلق سے پروفیسر کی پوسٹ قائم کی جائیں۔
(8) عثمانیہ یونیورسٹی اور نظام کے بہت سے اداروں میں بہترین پرانی تصاویر کا ڈھیر ہے۔ ان تمام کی نمائش کی جائے۔
(9) ایک شاندار Souvenir نکالا جائے جس میں یونیورسٹی اور نظام کے تعلق سے علمی، ادبی مضامین شائع کی جائیں۔ یونیورسٹی کے تمام کالجس کی تفصیل، ان کی تصاویر وغیرہ شائع کی جائیں۔
(10) تفریحی پروگرامس میں خاص کر اس زمانہ کی گنگاجمنی تہذیب کو پیش کیا جائے۔
اگر واقعی صدسالہ جشن شاندار طریقہ سے منانا ہے تو کام بہت ہیں لیکن دیانتدار محنتی لوگ جو اس کام کی ذمہ داری قبول کرسکیں، بہت کم ہیں۔ میری التجا ہیکہ وائس چانسلر صاحب کچھ وقت لیں لیکن جشن کو شاندار طریقہ سے منائیں۔