آرکائیوز کے ریکارڈ سے ڈاکٹر داؤد اشرف
حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ نے نہ صرف سابق ریاست حیدرآباد یا مملکت آصفیہ میں اعلی تعلیم کی روشنی پھیلائی بلکہ اس علوم و فنون کے مرکز کی وجہ سے ہمہ جہتی ترقی خاص کر معاشی و صنعتی ترقی کی راہیں ہموار ہوگئیں۔ 1917ء میں جامعہ عثمانیہ کا قیام جس میں پہلی بار ایک ہندوستانی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا تھا ۔ برصغیر میں اپنی طرز کا منفرد اور تاریخ ساز واقعہ تھا ۔ غیر منقسم ہندوستان کی لسانی اور تعلیمی ترقی کے لئے اس تجربے نے صحیح سمت کی نشان دہی کی تھی ۔ ریاست حیدرآباد نے اعلی تعلیم کی اشاعت و ترقی کے لئے بڑے پیمانے پر جامعہ عثمانیہ کے قیام کے ذریعے جو جست لگائی تھی وہ نہ صرف دیسی ریاستوں بلکہ ملک کے دوسرے حصوں کے لئے بھی قابل تقلید تھی ۔
حیدرآباد میں جامعہ یا یونیورسٹی سے متعلق ابتدائی تحریکات کا سرسری جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ سرنظامت جنگ کے والد رفعت یار جنگ اول نے سالار جنگ کے عہد میں تین صفحات پر مشتمل مطبوعہ فارسی اپیل 1292ھ 1875 ء میں جاری کی تھی جس میں انہوں نے ریاست کے امراء و اہل علم سے حیدرآباد میں ایک ایسے مدرسے کے قیام میں تعاون کی درخواست کی تھی جہاں اردو اور مختلف علوم و فنون کی تعلیم ہو اور اس درس گاہ میں انگریزی اتنی سکھائی جائے کہ طلبہ اس زبان کے توسط سے جدید علوم سے واقف ہوسکیں ۔ بعض محققین نے رفعت یار جنگ اول کی اس اپیل کو حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کے تحریکات کا آغاز لکھا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ رفعت یار جنگ نے اپنی اپیل میں مدرسے کا لفظ لکھا تھا اور انہوں نے جامعہ یا یونیورسٹی کا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا تھا ۔
برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بلنٹ کی اسکیم Scheme for a University at Hyderabad حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کی پہلی منظم تحریک تھی ۔ اس اسکیم کو وائسراے ہند لارڈ رپن ، ریاست حیدرآباد کے حکمران میر محبوب علی خاں آصف سادس اور بااثر حضرات کی تائید حاصل تھی ۔ اس اسکیم پر غور و خوص کے لئے باغ عامہ میں 23 اپریل 1885 ء کو آصف سادس کی صدارت میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں نظام یونیورسٹی قائم کرنا طے پایا لیکن یہ اسکیم کوئی عملی صورت اختیار نہ کرسکی ۔
ریاست حیدرآباد کے وزیر تعلیمات فخر الملک بہادر اور معتمد تعلیمات عزیز مرزا کو حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام سے بڑی دلچسپی تھی ۔ فخر الملک نے ایک سے زائد بار محکمے کے عہدہ داروں کو یونیورسٹی کے خاکے کے بارے میں تفصیلی نوٹ پیش کرنے کی ہدایت کی لیکن محکمے کے نظما نے ہر بار متعلقہ وزیر کو مطلع کیا کہ یونیورسٹی کے قیام کے لئے ابھی حالات سازگار نہیں ہیں یا موافق حالات کے لئے ایک عرصہ دراز درکار ہے ۔
اکبر حیدری نے 1911 ء میں معتمد تعلیمات مقرر ہونے کے ساتھ ہی یونیورسٹی کے قیام پر پوری طرح توجہ مبذول کی ۔ انہوں نے ریاست کے زیادہ سے زیادہ مدارس میں اردو کے ذریعے تعلیم دینے کا جو فیصلہ کیا وہ اہم اور بنیادی فیصلے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ حیدرآباد میں اردو ذریعہ تعلیم کی یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس کی جانب سے چلائی گئی مہم سب سے زیادہ کارگر اور موثر تھی ۔ ایجوکیشنل کانفرنس کے اراکین کی اکثریت چاہتی تھی کہ مختلف علوم و فنون اور سائنس و ٹکنالوجی کی تعلیم اردو کے ذریعہ دی جائے ۔ اس مقصد کے تحت اس کا پہلا اجلاس 1915 ء کے اوائل میں منعقد ہوا جس کی صدارت اکبر حیدری نے کی ۔ یہ اجلاس عثمانیہ یونیورسٹی کی تشکیل کا محرک بنا ۔ اسی اجلاس میں اکبر حیدری نے ہر سطح پر اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی پالیسی کا اعلان کیا ۔ اکبر حیدری نے یونیورسٹی کے قیام کے لئے ضروری اقدامات کرنے کے بعد ایک تفصیلی اور مدلل یادداشت تیار کی جس کو وزیر تعلیمات فخر الملک بہادر نے عرض داشت مورخہ 22 اپریل 1917ء کے ذریعے ریاست کے حکمران میر عثمان علی خاں آصف سابع کی خدمت میں بغرض منظوری پیش کی ۔ اکبر حیدری کی یادداشت میں ایک ایسی یونیورسٹی کے قیام کی منظوری مانگی گئی تھی جس میں اردو کو اعلی تعلیم کا ذریعہ قرار دیا جائے اور انگریزی زبان کی تعلیم بہ حیثیت ایک زبان کے لازم ہو ۔ عربی ، فارسی ، سنسکرت ، مرہٹی ، تلنگی اور کنڑی زبان کی تعلیم اور ان کے متعلق علمی تحقیق کا انتظام ہو ۔ جدید علوم و سائنس کی تعلیم و تحقیق کا کافی انتظام ہو ۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے اردو کے انتخاب کے لئے یہ استدلال پیش کیا گیا کہ یہ زبان ریاست حیدرآباد کی سرکاری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی بڑی مقبول زبان ہے ۔ نیز ریاست کی آبادی کی اکثریت اس زبان کو بولتی اور سمجھتی ہے تاہم انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ریاست کی نمائندہ چار زبانوں اردو ، تلنگی ، مرہٹی اور کنڑی زبانوں میں ذریعہ تعلیم کے لئے چارجامعات کا قیام قابل ترجیح ہوتا لیکن ریاست کا مالیہ اس کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ آصف سابع نے اکبر حیدری کی یادداشت میں پیش کردہ تجویز کی اہمیت اور افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عرض داشت کے پیش کئے جانے کے چوتھے روز فرمان مورخہ 4 رجب 1235ھ م 26 اپریل 1917ء صادر کیا جس میں انہوں نے حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم کرنے کی کارروائی شروع کرنے کے احکام دئے ۔ اس فرمان میں یہ بھی کہا گیا کہ اردو کو اعلی تعلیم کا ذریعہ قرار دیا جائے مگر انگریزی کی تعلیم بھی بہ حیثیت ایک زبان کے ہر طالب علم پر لازمی گردانی جائے ۔
یونیورسٹی کے قیام کی منظوری حاصل ہوجانے کے بعد اکبر حیدری نے ملک اور بیرون ملک کے متعدد نامور ماہرین تعلیم کو مجوزہ یونیورسٹی کے بارے میں تفصیلات سے واقف کرواتے ہوئے ان کی رائے دریافت کی ۔ بیشتر ماہرین نے اردو کے ذریعے یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم دینے کے جرات مندانہ فیصلے کا خیر مقدم کیا ۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے اکبر حیدری کے نام اپنے انگریزی مکتوب مورخہ 9 جنوری 1918 ء میں لکھا ’’…… مجھے نہایت مسرت ہوئی کہ آپ کی ریاست میں ایک ایسی یونیورسٹی قائم کرنے کی تجویز ہے جس میں اردو کے ذریعہ تعلیم دی جائے گی ۔ یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ آپ کی تجویز کو میری کامل پسندیدگی حاصل ہے خاص کر جبکہ میں جانتا ہوں کہ یہ مثال آپ کی ریاست کے باہر ان لوگوں کے لئے ممدو معاون ہوگی جو اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں اور جنہیں ذی ہوش لوگ سبک نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ آپ کی قرارداد میں جس پر مجھے اعتراض ہوسکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ آپ کی مجوزہ یونیورسٹی کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ یہ یونیورسٹی تجربے کی نوعیت کی ہوگی ۔ اسے دشواریوں اور کوتاہیوں سے گزارتے ہوئے تکمیل تک پہنچانے کا عزم مصمم ہونا چاہئے ۔ ہمارا عقیدہ قوی ہونا چاہئے کیونکہ ہماری راہ میں بڑی بڑی مشکلات حائل ہیں‘‘ ۔
عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے فیصلے کو عملی شکل دینے کے لئے اردو میں کتابوں کی فراہمی ناگزیر تھی ۔ چنانچہ ایک عرض داشت مورخہ 24 شوال 1335ھ م 3 اگست 1917 ء آصف سابع کی خدمت میں روانہ کی گئی جس میں لکھا گیا تھا کہ یونیورسٹی کے مختلف امتحانات کے لئے نصابی کتابوں کا اردو زبان میں ہونا ضروری ہے اور جب تک یہ کتابیں تیار نہ ہوں گی یونیورسٹی میں تعلیم کا آغاز دشوار ہے ۔ اس عرض داشت میں سررشتہ تالیف و ترجمہ قائم کرنے اور فارسی و عربی زبانوں پر عبور رکھنے والوں اور انگریزی سے اردو میں بڑی خوبی کے ساتھ خیالات ادا کرسکنے والے اہل علم کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ۔ آصف سابع نے عرض داشت پیش کئے جانے کے دوسرے ہی روز بذریعہ فرمان سررشتہ ترجمہ کے قیام اور اس سررشتے کے لئے مجوزہ اسکیم کو منظوری دی ۔ اردو ذریعہ تعلیم کے تجربے کوکامیابی سے ہمکنار کرنے دارالترجمہ نے بہت اہم رول ادا کیا ۔ دارالترجمہ کو ملک کی نامور علمی و ادبی شخصیتوں کی خدمات حاصل رہیں ۔
اکثر مصنفین نے لکھا ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کا پہلا میٹرکولیشن امتحان 1918ء میں منعقد ہوا تھا ۔ یہ بیان درست نہیں ہے ۔ ان جماعت کا پہلا امتحان 1918ء میں منعقد نہیں ہوا تھا بلکہ 1918 میں پہلی میٹرکولیشن جماعت قائم کی گئی تھی جس کا نصاب تین سالہ تھا ۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ، سابق وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی کے مطابق وہ اولین میٹرکولیشن جماعت کے طالب علم تھے اور انہوں نے اس جماعت میں تین سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1921ء میں منعقدہ امتحان کے تمام مضامین میں بدرجہ آنرس کامیابی حاصل کی تھی ۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کے مضمون ’’جامعہ عثمانیہ کے ابتدائی سربراہ مطبوعہ ’’مرقع جامعہ عثمانیہ‘‘ کراچی کے ساتھ ان کے میٹرکولیشن امتحان کے صداقت نامے کا عکس بھی شائع کیا گیا ہے ۔
پہلی میٹرکولیشن جماعت کے امتحان کا نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی ناظم تعلیمات سید راس مسعود نے معتمد تعلیمات اکبر حیدری کے صلاح و مشورے سے یونیورسٹی کی انٹرمیڈیٹ کلاس کے آغاز کی اسکیم مرتب کرلی ۔ آصف سابع کے پاس تجویز پیش کی گئی کہ انگریزی سے واقف اردو میں لیکچر دینے کی اہلیت رکھنے والے قابل اساتذہ کا کل ہند سطح پر اچھی تنخواہوں کے ساتھ تقرر کیا جانا چاہئے ۔ چنانچہ پہلے مرحلے میں ایک پرنسپل اور 18 اساتذہ کے عہدوں کے لئے منظوری لی گئی ۔ علاوہ ازیں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ دارالعلوم کے اساتذہ کو یونیورسٹی کے شعبہ دینیات میں منتقل کردیا جائے ۔ یونیورسٹی کالج کا 28 اگست 1919 ء کو افتتاح عمل میں آیا ۔ آرٹس اور سائنسے شعبے قائم کرنے کے بعد 1923 میں انجینئرنگ کالج اور 1926 ء میں میڈیکل کالج قائم کرنے کے فیصلے کئے گئے اور 1948 تک نئے نئے کورس شروع کرنے اور نئے کالجوں کو قائم کرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ تمام نصابی مضامین کی تعلیم کیلئے ماہر منتخب اور قابل ترین اساتذہ کا تقرر کیا گیا جو طلبہ کو اردو میں درس دیا کرتے تھے ۔
عثمانیہ یونیورسٹی غیر منقسم ہندوستان کی پہلی یونیورسٹی تھی جہاں ایک دیسی زبان کو مکمل طور پر ذریعہ تعلیم بنانے کا تجربہ کیاگیا تھا ۔ اردو کے ذریعے تمام جدید علوم و فنون کی تعلیم کافیصلہ ملک اور بیرون ملک کے علمی حلقوں کو چونکانے کا باعث بنا ۔ اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ انگریزی کے سوا کسی اور زبان میں یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم نہیں دی جاسکتی ۔ میسور یونیورسٹی کے قیام کے فیصلے پر یہ طے ہوا تھا کہ اس یونیورسٹی میں کنڑی زبان میں تعلیم دی جائے گی لیکن اس فیصلے کوعملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا ۔ بعض علمی حلقے عثمانیہ یونیورسٹی کے تعلق سے شک و شبہ کا اظہار کررہے تھے لیکن بیشتر دانشور اور ماہرین اس فیصلے کی تائید میں تھے ۔چنانچہ عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو کے ذریعے تعلیم دینے کے فیصلے کو پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ۔
یونیورسٹی کے نصاب میں بڑی دور اندیشی کے ساتھ انگریزی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تھا ۔ انگریزی کو لازمی مضمون بنانے کا مقصد یہ تھا کہ اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ انگریزی پر قدرت حاصل کرکے اس زبان میں دستیاب جدید علوم و فنون کے سرمایے سے فیض پاسکیں ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کی ترقی اور فارغ التحصیل طلبہ کے مستقبل اور روزگار کے لئے ضروری تھا کہ اس کی ڈگریوں کو دوسری یونیورسٹیاں تسلیم کریں ۔ ملک کی کئی یونیورسٹیوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کی ڈگریوں کو تسلیم کیا لیکن چند یونیورسٹیوں اور روزگار فراہم کرنے والے اداروں کو اس یونیورسٹی کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے میں تامل ہورہا تھا ۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے ارباب ذمہ دار کی عاجلانہ کوششوں نے تعلیمی حلقوں میں یونیورسٹی کے تعلیمی معیار سے متعلق شبہات کو رفع دفع کیا جس کی وجہ سے ملک کی بیشتر یونیورسٹیوں اور روزگار فراہم کرنے والے اداروں میں عثمانیہ یونیورسٹی کی ڈگریوں کو مسلمہ حیثیت حاصل ہوئی ۔
عثمانیہ یونیورسٹی کے کیمپس کے لئے 8 سال کی تلاش اور غور و خوص کے بعد بمقام اڈیکمیٹ 14 سو ایکڑ اراضی کا علاقہ منتخب کیا گیا ۔ اس کیمپس میں عمارتوں کی تعمیر کے لئے بلجیم کے ماہر فن ارنسٹ چاسپر کامثیر آرکیٹکٹ کے طور پر تقرر کیا گیا ۔ آرٹس کالج کی تعمیر 1939 ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی ۔ اس کی تعمیر پر تقریباً تیس لاکھ روپے صرف ہوئے ۔ آصف سابع نے 4 دسمبر 1939ء کو ایک یادگار تقریب میں اس عظیم الشان اور پرشکوہ عمارت کا افتتاح کیا ۔ کیمپس میں دیگر عمارتوںکی تعمیر مکمل ہونے پر 1934 یونیورسٹی کے دفاتر اور مختلف کالج جو 24 کرایے کی عمارتوں میں کام کررہے تھے ان عمارتوں میں منتقل ہوئے ۔
1948ء میں ریاست حیدرآباد کے ہند یونین میں ضم ہوجانے پر حالات یکسر بدل گئے اور ان بدلے ہوئے حالات میں اردو ذریعہ تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنا ممکن نہ تھا ۔ ارباب ذمہ دار ذریعہ تعلیم کی زبان کے انتخاب میں کچھ عرصے تک تذبذب کا شکار رہے ۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور مختلف تجاویز پر غور و خوص کیا گیا ۔ دو سال بعد ارباب ذمہ دار اس خیال سے متفق تھے کہ ہندی کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار کرنا ممکن نہیں ہے ۔ چنانچہ پہلے پروفیشنل کورسوں میں انگریزی کے ذریعے تعلیم دی جانے لگی پھر 1951-52 کے تعلیمی سال سے آرٹس اور سائنس فیکلٹیوں میں بھی ذریعہ انگریزی تعلیم دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ تقریباً 32-30 برس بعد عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو کی بجائے انگریزی ذریعہ تعلیم کی زبان بنادی گئی ۔ اس طرح عثمانیہ یونیورسٹی کا ایک زرین اور ناقابل فراموش دور اختتام کو پہنچا ۔
عثمانیہ یونیورسٹی کے اردو ذریعہ تعلیم کے دور کے آخری سال (1947-48ء) میں طلبہ کی جملہ تعداد 7131 تھی جن میں سے مختلف فیکلٹیوں ؍ شعبوں میں طلبہ کی تعداد حسب ذیل تھی ۔
آرٹس ۔ 2801
سائنس ۔ 2688
کامرس ۔ 102
انجینئرنگ ۔ 330
میڈیسن ۔ 351
اگریکلچر ۔ 110
وٹنری سائنس ۔ 53
ایجوکیشن ۔ 58
قانون ۔ 472
مذہب اور ثقافت ۔ 104