عثمانیہ کی جگہ نیا دواخانہ … کبھی نہیں

سید حمایت علی ناصف

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی معاشی و تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے کے سی آر حکومت مناسب اقدامات کررہی ہے ۔ لیکن ایک ہفتہ قبل دواخانہ عثمانیہ کے دورہ کے بعد اس کی شکستہ حالی اور بوسیدگی کے پیش نظر سارے دواخانہ کی عمارت کو منہدم کرکے اسی جگہ نئی عمارت کی تعمیر کا جو اعلان کیا ہے وہ کے سی آر صاحب کے ارادوں پر کچھ سوالیہ نشانات لگارہے ہیں ۔ ہر حکومت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کی یادگاروں ، تاریخی عمارتوں اور تہذیبی ورثوں کا تحفظ کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت میں چاہے ریاستی ہو یا مرکزی آثار قدیمہ کا محکمہ ہوتاہے ، جو آثار قدیمہ کا تحفظ کرتا ہے۔ اگر کوئی عمارت بوسیدہ ہوجائے یا ٹوٹ پھوٹ جائے تو اس کی مرمت و داغ دوزی حکومت وقت کا اولین فریضہ ہوتا ہے ۔ کوئی بھی قوم اپنے اسلاف کے کارناموں اور ورثوں سے جانی پہچانی جاتی ہے ۔ اس کے رہن سہن ، مکانات اور عمارات اس قوم کی تہذیب و تمدن کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ ہندوستانی قوم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے آباء واجداد کا ایک شاندار ، بے مثال اور قابل رشک اثاثہ رکھتی ہے ۔ چاہے وہ شمال میں ہڑپہ و موہنجوداڑو کے انمول اثاثے ہوں یا جنوب میں ایلورہ و اجنتا کے غاروں کے انمول تحفے ہوں ، چاہے وہ دلی کا لال قلعہ ہو کہ قطب مینار ، آگرہ کا تاج محل ہو کہ اورنگ آباد کا بی بی کا مقبرہ ، فتح پور سیکری کا قلعہ ہو یا حیدرآباد کا گولکنڈہ قلعہ ، چارمینار ہو کہ مکہ مسجد ، ہائی کورٹ ہو کہ عثمانیہ دواخانہ سب کے سب ہندوستانی تہذیب کے تاج میں چمکتے ، دمکتے ہیرے ہیں ۔ سارے ہندوستان میں ہمارے پُرکھوں کی نشانیوں اور قابل فخر یادگاروں کا جال بچھا ہوا ہے ۔ ہمارے محترم  چیف منسٹر صاحب نے پتہ نہیں جانے یا انجانے میں ایک فیصلہ لیا ہے کہ عثمانیہ دواخانہ کوجو کہا جاتا ہے کہ انتہائی بوسیدہ ہوچکا ہے منہدم کرکے اسی جگہ ایک نیا پرکشش اور شاندار دواخانہ تعمیر کیا جائے ۔ وجہ بوسیدگی کی حد تک رہتی بھی تو کوئی بات نہیں تھی لیکن یہ بات باعث افسوس ہے کہ اس عمارت کی خستہ حالی کو مریضوں ، عملہ اور ڈاکٹروں کی زندگیوں کے لئے  ’’خطرہ‘‘ سے جوڑا گیا ہے جس سے عام آدمی بھی گہری سوچ میں پڑکر حکومت کی واہ واہ کہنے پر آمادہ ہوگیاہے ۔ کسی منفی ردعمل کے پیدا ہونے سے پہلے اس کو ختم کرنے کی کوشش کے طورپر یہ کہا گیا کہ موجودہ عمارت میں صرف 85 بستروں کی گنجائش ہے جبکہ مجوزہ نیا دواخانہ پوری چمک دمک ، آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ 2000 بستروں پر مشتمل ہوگا اور عصری آلات سے بھی لیس ہوگا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی وسیع وعریض عمارت پوری طرح ناکارہ اور بوسیدہ ہونے تک کس طرح خاموشی اختیار کی گئی  ۔ یہ تاریخی عمارت جو برسہا برس سے استعمال ہوتی آرہی ہے اگر بروقت اسکی مرمت کی جاتی تو آج انہدام کے بارے میں سوچنے  سے بچایا جاسکتا تھا ۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہیکہ ہمارے چیف منسٹر صاحب نے دواخانہ کومنہدم کرکے ایک نیا پرشکوہ اور ہمہ منزلہ دواخانہ بنانے کیلئے ممکن ہے نیک نیتی سے کیام لیا ہو لیکن بات صرف انہدام اور تعمیر نو کی نہیں ہے بلکہ اس سے بہت بُرا اور غلط پیام مرکز کی بی جے پی حکومت کو جائے گا ۔ آج کے سی آر پرانے دواخانہ کو توڑ کر نیا دواخانہ بنائیں گے لیکن کل دوسری حکومت آنے پر چارمینار کی جگہ ایک مینار بنائے گی جس کی یہی وجہ ہوگی ۔  تیسری حکومت یہ بھی کہے گی کہ معظم جاہی مارکٹ پرانی ہوگئی ہے  ۔اس کی جگہ سنگ مرمر کا دلکش کامپلکس بنانا چاہے گی ۔ اس طرح کیا ریاست کی تمام تاریخی عمارتوں کو ختم کردیا جائے گا ۔ ان باتوں کو شاید کے سی آر نے سوچا بھی نہیں ہوگا ۔ کیا نیا بننے والا دواخانہ بھی عثمانیہ دواخانہ ہوگا ؟ کبھی نہیں ۔ وہ یا تو کسی ٹی آر ایس کے مرحوم لیڈر کے نام پر ہوگا یا پھر کسی آر ایس ایس کے لیڈر کے نام پر ۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر موجودہ دواخانہ کے انہدامی اخراجات اور عصری دواخانہ کے اخراجات کئی ہزار کروڑ روپیوں میں طے ہونگے ۔ آخر اتنی بڑی رقم کہاں سے آئے گی ۔ کس کے پاس قرض کا کشکول لیکر جائیں گے ۔ صرف دس مہینے میں تلنگانہ حکومت کا فاضل بجٹ جا کر خسارہ بجٹ میں تبدیل ہوگیا ۔ حکومت کا مالی موقف انتہائی کمزور ہوگیا ہے  ۔ انجانے ہزاروں کروڑ روپیوں کے خرچ کی یہ حکومت متحمل نہیں ہوسکتی ۔ مرکزی امداد میں بڑی حد تک تخفیف ہوگئی ہے ۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہو تو نئی عمارت کی 40 فیصد رقم بھی موجودہ دواخانہ کی تزئین نو کیلئے کافی ہوسکتی ہے ۔ اگر مزید رقم مل جائے تو اس کے احاطہ میں نئی بلڈنگ کی تعمیر کرتے ہوئے بستروں کا اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ نئے اور عصری آلات فراہم کئے جاسکتے ہیں ۔ تاریخی عمارتوں ہوتی ہی ہیں پرانی ۔ انکی وقتاً فوقتاً مرمت کی جانی چاہئے ۔ ان تاریخی عمارتوں سے عوام کا جذباتی رشتہ ہوتا ہے ۔ انہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ انکی تبدیلی یا منتقلی انجانے طوفان کو دعوت دینے کی مترادف ہوگا ۔ اس لئے تلنگانہ کے عوام  ،خاص طور پر حیدرآباد  کے عوام کے سی آر صاحب سے ادباً گذارش کرتے ہیں کہ دواخانہ عثمانیہ کی انہدامی کا ارادہ یا فیصلہ ترک کردیں ، اسے وقار کا مسئلہ نہ بنائیں اور عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے دواخانہ کی تزئین نوکا کام شروع کردیں ۔ اس طرح تاریخی عمارت کا تحفظ بھی ہوگا اور مسئلہ کی یکسوئی بھی ہوگی اور آنے والی نسلیں کے سی آر کو مسلم دوست وہمدردی اور دور عثمانین کی تاریخی عمارتوں کے محافظ کے طور یادکرتی رہیں گی ۔