پروفیسر محسن عثمانی ندوی
موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے ۔ جو بھی اس عالم ناسوت میں آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے ۔ مٹی کا ڈھیر کتاب زندگی کی تمت اور صحیفہ حیات کا آخری ورق ہے ۔ ہماری ملت جو پہلے سے زار و زبوں ہے اس کے شبستان چراغ ایک ایک کرکے بجھ رہے ہیں ، ان چراغوں کے بجھنے سے جنہوں نے ملت کے در وبام کو روشن کرنے کی کوشش کی ہے تاریکی کچھ اور بڑھ جاتی ہے ،اجالا کچھ اور کم ہوجاتا ہے ۔ جناب عبدالرحیم قریشی ، مسلم پرسنل لا بورڈ کے اسسٹنٹ جنرل سکریٹری کا انتقال کسی ایک شخص کا انتقال نہیں ہے ، ایک پوری قوم کے لئے حادثہ ہے وہ ناوک فگن اٹھ گیا جو غنیم کو دلائل کے تیروں سے نشانہ بناتا تھا ۔ وہ سپر اٹھ گیا جو دشمن کے حملوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرسکتا تھا ۔ اجودھیا کے موضوع پر اس کی کتاب ’’رام جنم بھومی ۔ حقیقت یا افسانہ‘‘ کئی زبانوں میں موجود ہے ۔رام مندر کے دعویدار جس کا علمی جواب دینے سے قاصر ہیں ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے آرٹس کالج کے وسیع اور کشادہ ہال میں سنگھ پریوار کے زبان دراز وکیل بابری مسجد کے موضوع پر بحث میں اس کے سامنے ٹھہرنہ سکے اور سیکڑوں اساتذہ اور طلبہ اور قانون کے ماہرین اور لا کالج کے اسٹاف کے سامنے سنگھ پریوار کو شرمندہ ، شکست خوردہ اور لاجواب ہونا پڑا ۔ مسلم پرسنل لا کے بیسیوں مقدمات حکومت کے خلاف چل رہے ہیں ۔ قانونی نقطہ نظر سے باریک بینی کے ساتھ تمام فائلوں کو پڑھنا اور بورڈ کے اراکین کو قانونی پیچیدگیوں کی تفصیلات سے مطلع کرنا اور آگے کی کارروائی کا نقشہ تیار کرنا ان سب کا سلیقہ جتنا عبدالرحیم قریشی صاحب کو تھا کسی اور کو نہ تھا ۔ اس کے علاوہ مجلس تعمیر ملت کے کام ، سالانہ سیرت نبوی کے عظیم الشان اجلاس اور قدم قدم پر ملت کی رہنمائی ، یہ ساری کار گذاریاں ان کی پرخلوص قیادت کی آئینہ دار ہیں ۔ ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کے عشق کا آئینہ دار وہ بیان ہے جو انہوں نے گستاخی کے ایک واقعہ کے بعد دیا تھا کہ اس طرح کے واقعات پر روک لگانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مغربی ملکوں میں پیشوایان مذہب کے ساتھ گستاخی کو قانونی جرم قرار دیا جائے اور اگر یہ نہ ہو تو کچھ دیوانے اٹھیں اور گستاخی کرنے والے کو کیفر کردار تک پہنچائیں ۔ اس کے سوا اور کسی طریقہ سے اس طرح کے واقعات کو روکا نہیں جاسکتا ۔ مولانا محمد رابع حسنی صدر مسلم پرسنل لا بورڈ نے بالکل درست بیان دیا کہ مولانا عبدالرحیم قریشی کا انتقال پوری ملت اسلامیہ کا خسارہ ہے ۔
ابھی زیادہ دن نہیں گذرے کہ مسلم پرسنل لا کے جنرل سکریٹری مولانا نظام الدین بھی راہی ملک عدم ہوئے ۔ یہ ایک اور چراغ کے بے نور ہونے کا جانگسل واقعہ تھا ۔ انہوں نے تادم آخری ضعیف العمری اور صحت کی ناسازی کے باوجود فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی ۔ وہ بہت مستقل مزاج تھے اور مشکل حالات میں بھی صبر و سکون کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے ۔ وہ مدبر ، مفکر ، فعال ، کارساز اور کارگذار قائد تھے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی اوپر کی قیادت (یعنی صدر اور جنرل سکریٹری) کی خاص بات یہ ہے کہ بہت وسیع الظرف رہی ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ وہ کسی بھی تحریک کی قیادت میں یہ خصوصیت نہ ہو اور اگر خوئے دلنوازی نہ ہو تو لوگ قافلہ سے واپس لوٹتے کارواں سے ٹوٹتے اور راستہ سے چھوڑتے ہیں کوئی بدگمان ہوتا ہے ، کوئی شمشیر و سنان بن جاتا ہے اور پھر تحریک کا شیرازہ منتشر ہوجاتا ہے پیر مغاں کا مرد خلیق ہونا کسی بھی مئے خانہ حیات کی رونق کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ صرف ساغر و سبو کافی نہیں ہوا کرتے ۔
ہندوستان کی ملت اسلامیہ کی قیادت تار حریر یک رنگ نہیں ہے بلکہ اس تار کے کئی رنگ ہیں پرسنل لا اہم سہی لیکن یہ صرف قیادت کا ایک پہلو ہے ۔ بے شمار کام ہیں بے شمار چیلنج ہیں ۔ اس لئے لازم ہے کہ رہنما بھی متعدد ہوں ، تنظیمیں بھی مختلف ہوں اور یہ کافی ہے کہ ان کے آپس کا وفاق اور اتفاق باقی رہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو عصری تعلیم کے میدان میں برادران وطن کا ہمدوش اور ہمرکاب بنانا اور ان کو سرکاری عہدوں تک پہنچانا یہ وہ جذبہ تھا ، بار امانت تھا جسے سرسید نے اٹھایا تھا اور اس کے بعد حالیہ تاریخ میں سید حامد صاحب نے اسے اٹھایا تھا ۔ سید حامد مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر رہے ، وہ ملت کے غم خوار تھے ۔ حکومت نے بہت کوشش کی تھی کہ انہیں سفیر یا گورنر بنادیں لیکن انہوں نے اپنی زندگی کو مسلمانوں کی زندگی کی تعمیر نو کے لئے وقف کردیا ، آخرش یہ چراغ بھی بجھ گیا اور اب جو چراغ باقی رہ گئے ہیں وہ بھی چراغ سحری ہیں اور بجھا چاہتے ہیں ۔
اگر چراغ سے چراغ جلتے رہتے اور مردم سازی کا نام ہوتا رہتا اور قیادت کی سکنڈ لائن تیار رہتی تو فکر کی بات نہیں تھی لیکن افسوس یہ کہ جو نئی قیادت ابھر کر سامنے آرہی ہے وہ ذہین اور باصلاحیت تو ہوسکتی ہے لیکن اس میں صالحیت کی کمی ہے ۔ وہ تربیت یافتہ نہیں ہے ۔ اس میں وہ قدریں نہیں ہیں جو بزرگ قائدین میں ہوا کرتی تھیں ، بزرگوں کا احترام نہیں ہے ، توقیر کبیر نہیں ہے ، اس میں وسیع الظرفی نہیں ہے ،دولت دنیا سے بے نیازی نہیں ہے ۔ دل میں گداز نہیں ہے زبان کی احتیاط نہیں ہے ۔ دلداری و دلنوازی نہیں ہے ان اوصاف کے بجائے اقتدار کی ہوس ہے آپس میں دوسرے کو زک دینے کے لئے سیاسی چال چلنے کی مہارت ہے ، تعلی ہے ، کبر ہے اور پندار کا صنم کدہ ہر وقت سر پر ہے ۔
قصے کہانیوں میں بھی حکمت اور دانائی کی باتیں ہوتی ہیں اور وہ اخلاق کا درس دیتی ہیں ، زندگی کا عکاسی کرتی ہیں ، ہماری اجتماعی قیادت کی اخلاقی سطح پست ہوتی جارہی ہے ۔ علم و بصیرت کا معیار بھی گرتا جارہا ہے ۔ یہ فکر و پریشانی کی بات ہے ، اس کا مداوا ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔ آج سے سو سال پہلے جس معیار کی شخصیتیں مسلمانوں کے درمیان تھیں ، پچاس سال پہلے مجموعی حیثیت سے اس معیار کی شخصیتیں باقی نہیں رہی تھیں اور آج سے پچاس سال پہلے جیسی شخصیتیں قیادت کی میدان میں تھیں ، اب موجود نہیں ہیں ، چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈنے سے بھی اسی اعلی تربیت یافتہ مخلص شخصیتیں نہیں مل سکتی ہیں ، جنہیں ملت سے عشق ہو ۔ گاڑی ڈھلان کی طرف جارہی ہے ۔ گذرے ہوئے دن خواب ، آگے سراب ہے ، مستقبل کا خدا حافظ ، چراغ بجھتے جارہے ہیں ، تاریکی پھیلتی جارہی ہے اور راستہ دشوار اور ناہموار ہے ۔ پیچھے بربت آگے کھائی۔ رہنمائی کے لئے خدا عبدالرحیم قریشی جیسی شخصیت ملت کو عطا کرے ۔