عام انتخابات میں پرینکا گاندھی نے اندرا گاندھی کی یاد تازہ کردی

نافع قدوائی
ملک میں عام انتخابات کے اب صرف دو مرحلے باقی بچے ہیں ۔ 16 مئی کو انتخابات کے نتائج سے طے ہوجائے گا کہ ملک پر حکمرانی کرنے والی نئی حکومت ’’ہندو راشٹر‘‘ کی نقیب ہوگی یا پھر آزادی کے بعد سے سیکولر حکمرانوں والی حکومت قائم ہوگی ۔ آزاد ہندوستان میں پہلی مرتبہ سیکولر ڈھانچہ کو جتنی زبردست طاقت اور منظم طریقہ سے منہدم کرنے کی جو کوشش کی گئی اس کے بعد بھی اگر ہندووادی نریندر مودی کو حکومت سازی کا موقع نہیں ملتا ہے تو پھر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کے بعد مودی کے لئے کوئی سنہرا موقع نہیں بچا ہے اور اگر مودی کی قیادت میں بی جے پی کامیابی حاصل نہیں کرپاتی ہے تو پھر بی جے پی کا کوئی دوسرا لیڈر اب بی جے پی کو برسراقتدار نہیں لاسکے گا ۔ ماضی قریب میں آزاد ہندوستان کی تاریخ کا یہ پہلا الیکشن ہے جس میں سنگھ پریوار نے کھل کر اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ آر ایس ایس کی ٹولیوں نے مودی وادیوں کو الیکشن جتانے کے لئے ہر ہتھکنڈہ ، ہر حربہ ، ہر طریقہ اپنایا ، یہاں تک کہ سنگھ پریوار کی ایماء پر بی جے پی نے اپنی سابقہ روش سے ہٹ کر مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ پارٹی کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ نے مسلم دانشوروں اور علماء کے درپر جا کر ان سے جنبانی کی اور پارٹی کے انتخابی منشور میں جہاں ایک طرف رام مندر ، یکساں سیول کوڈ ، کشمیر کو خصوصی درجہ کی مراعات دینے والی دفعہ 370 کو ختم کرنے ، مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کی اختلافی بلکہ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول باتیں کہی گئیں وہیں پارٹی کے منشور میں غالباً پہلی مرتبہ مسلمانوں کے تعلق سے دو تین وعدے کئے گئے ہیں ایک تو مدارس کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے ، دوسرے اوقاف کی جائیدادوں کو تحفظ دینے ، اوقاف پر سے ناجائز قبضے ہٹانے ، مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کئے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ یہ دعوے پورے کئے جاتے ہیں اس سے بحث نہیں ، بات اتنی ہے کہ پہلی مرتبہ بی جے پی نے مسلمانوں کی اہمیت تسلیم کی اور ان سے وعدے کرنے پڑے ۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ بی جے پی نے اخبارات کو اپنے الیکشن کی تشہیر کے لئے جو بڑے بڑے اشتہارات دئے وہ اردو اخبارات کو بھی پوری فراخدلی کے ساتھ جاری کئے گئے ۔ پارٹی کو اردو ویب سائٹ کا بھی سہارا لینا پڑا ۔ بی جے پی کے اس فعل کو ہر چند انتخابی شعبدہ بازی کے زمرہ میں رکھا جاسکتا ہے لیکن بی جے پی کو یہ انتخابی شعبدہ بازی بھی مسلمانوں کی اہمیت کی بنا پر کرنی پڑی ۔

اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ ملک کے عام انتخابات دو باتوں کے لئے یاد کئے جائیں گے ۔ ایک تو بی جے پی کا مسلمانوں کے تئیں قدرے نرم گوشہ ، مسلمانوں کی اہمیت تسلیم کی گئی ۔ دوسرے یہ کہ اس الیکشن میں نہرو گاندھی خاندان کی چشم و چراغ پرینکا گاندھی نے اگرچہ خود کو اس مرتبہ بھی رائے بریلی اور امیٹھی تک کی انتخابی مہم تک محدود رکھا لیکن رائے بریلی اور امیٹھی سے پرینکا گاندھی نے بی جے پی اور نریندر مودی کے ذریعہ کانگریس ، سونیا گاندھی ، راہول گاندھی پر جو سخت اور بیجا الزامات لگائے گئے خاص طور پر راہول گاندھی کو جس طرح سے نشانے پر لیا گیا تھا اس کا بھرپور جواب پرینکا گاندھی نے دے کر اپنی دادی سابق وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی کے طرز سیاست کی یاد دلادی ۔ پرینکا گاندھی نے اپنے شوہر رابرٹ واڈرا کے خلاف بی جے پی کی کردار کشی کی مہم کی دھار کو کند کیا بلکہ انھوں نے نریندر مودی اور ان کے حامیوں کو بدعنوانیوں اور بے ایمانیوں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ۔ مودی وادی جس طرح سے راہول گاندھی کے حوصلہ پست کرنے کے لئے ان کو ایک لائق فائق سیاستداں کے بجائے محض ایک مزاحیہ سیاستداں کے طور پر پیش کرنے کی جو کوشش کررہے تھے اس کا پرینکا گاندھی نے بڑے مدلل طریقہ سے جواب دے کر اس مہم پر شدید ضرب لگائی۔ یہ پہلا موقع تھا جب پرینکا گاندھی نے اپنی انتخابی مہم میں بے حد جارحانہ رخ اختیار کیا ۔ ملکی سیاست پر بی جے پی اور کانگریس مخالفین کو گھیرا ۔ پرینکا گاندھی نے رائے بریلی میں سونیا گاندھی کے لئے جو روڈ شو کیا وہ اب تک کا رائے بریلی کا سب سے بڑا روڈ شو کہا جارہا ہے ۔ اب پرینکا گاندھی راہول گاندھی کے انتخابی حلقہ امیٹھی میں انتخابی مہم چلارہی ہیں ۔ پرینکا گاندھی کی سیاست میں غیر معمولی دلچسپی کانگریس کے لئے خوش آیند ہے اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پرینکا گاندھی نے اب اپنے کو بہت زیادہ دنوں تک باقاعدہ سرگرم سیاست سے کانگریس پارٹی سے براہ راست وابستگی سے دور نہیں رکھ سکیں گی اور وہ عنقریب ہی کانگریس کی کوئی بڑی ذمہ داری سنبھال کر اپنے بھائی راہول گاندھی اور والدہ سونیا گاندھی کی سیاسی بوجھ کو کم کرسکتی ہیں ۔ عام انتخابات میں کانگریس جیتتی ہے یا ہارتی ہے اس سے پرینکا گاندھی کی حیثیت میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔ عام انتخابات کی دریافت پرینکا گاندھی کو کہا جاسکتا ہے ۔ پرینکا گاندھی مسز اندرا گاندھی جیسی قائدانہ صلاحیتیں رکھتی ہیں ۔ وہ کانگریس کی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتی ہیں ۔ کانگریس مخالفین کو منہ توڑ جواب دے سکتی ہیں اور کانگریس کو ایک عوامی پارٹی بنا کر دوبارہ کھڑا کرسکتی ہیں ۔

پرینکا گاندھی میں بیک وقت جتنی سیاسی خصوصیات ہیں اتنی کسی کانگریسی لیڈر کے پاس نہیں ہیں ۔ پرینکا گاندھی سے کانگریس پارٹی نے عوام میں جو امیدیں جگائی ہیں وہ بے وجہ نہیں ہیں ۔ عام انتخابات میں جتنی اس مرتبہ سیاستدانوں اور غیر سیاستدانوں نے بدزبانی کی ہے اتنی ابھی تک کسی الیکشن میں نہیں کی گئی ۔ نریندر مودی نے راہول گاندھی ، سونیا گاندھی اور ان کے داماد رابرٹ واڈرا پر جتنے ذاتی حملے کئے ، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ یوگا گرو رام دیو جن پر فی الوقت نریندر مودی کا بھوت سوار ہے ، انھوں نے راہول گاندھی کی شادی کے تعلق سے دلت لڑکیوں اور عورتوں کی جس قدر توہین کی ہے اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ اگرچہ رام دیو یہ بیان دے کر قانونی چکر میں بری طرح پھنس گئے ہیں ، ان پر متعدد مقامات پر مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ قومی کمیشن برائے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل نے بھی رام دیو سے جواب طلب کیا ہے ۔
ہندو وادی لیڈر ڈاکٹر پروین توگاڑیہ ، سیاستداں گری راج سنگھ اور رام دیو نے مسلمانوں کے خلاف جس طرح سے زہر اگلا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آزادی کے 67 برس کے بعد بھی بعض ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں کس قدر نفرت ہے ۔ الیکشن کمیشن نے ایسے بدزبان ، اشتعال انگیزی کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف محض رسمی کارروائی کی ۔ ریاستی وزیر محمد اعظم خاں نے کارگل جنگ میں مسلمانوں کی قربانیوں ، گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کرانے والے افراد کے خلاف جب اپنی زبان کھولی تو الیکشن کمیشن نے محمد اعظم خاں کے ہونٹ اس بری طرح سے سل دئے کہ الیکشن کمیشن محمد اعظم خان کی کوئی صفائی یا وضاحت سننے کو تیار نہیں ۔ کمیشن نے محمد اعظم خان کی انتخابی سرگرمیوں پر پابندی پوری سختی سے عائد کررکھی ہے جب کہ اس الیکشن کمیشن نے نریندر مودی کے گجراتی لیڈر امیت شاہ کو مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے اکسانے کے معاملے میں معافی دے دی اور ان پر لگی پابندی کو ہفتہ عشرہ میں ہی اٹھالیا۔ محمد اعظم خان کے انتخابی مہم میں حصہ نہ لینے سے سماج وادی پارٹی کی انتخابی مہم پر خاصا اثر پڑا ہے ۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب کہ سماج وادی پارٹی ، ملائم سنگھ یادو کے مخالفین نے مسلمانوں کو ملائم ، اکھلیش یادو سے متنفر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرڈالی ہو ایسے میں محمد اعظم خان مسلمانوں میں اپنی پارٹی کا ، اپنے لیڈروں کے موقف کو بہتر ڈھنگ سے رکھ سکتے تھے لیکن الیکشن کمیشن کی پابندی کی وجہ سے محمد اعظم خان یہ فریضہ انجام دینے سے محروم رہے ۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف سماج وادی پارٹی کی جانب سے نئی دہلی کے جنتر منتر پر مظاہرہ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ۔ یہ پہلا موقع ہے جب الیکشن کمیشن کے خلاف کھلے عام عوامی مظاہرہ کا انعقاد کیا گیا ہے ۔

وارانسی پارلیمانی حلقہ میں 12 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے اس پارلیمانی حلقہ پر ملک اور بیرون ملک کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں ۔ اس حلقہ میں ہندو وادی طاقتوں اور سیکولر طاقتوں کے درمیان معرکہ کا رن پڑا ہوا ہے ۔ نریندر مودی گجرات کے بڑودہ کے ساتھ اترپردیش کے وارانسی حلقہ سے بھی قسمت آزمارہے ہیں ۔ مودی کے مقابلے میں دہلی کے سابق وزیراعلی اور عام آدمی پارٹی کے روح رواں اروند کیجریوال ہیں ۔ اروند کیجریوال کو کمزور کرنے کے لئے مودی وادیوں نے فسطائی راستہ اختیار کیا ہے یعنی اروند کیجریوال کے جلسوں میں ہنگامہ آرائی ، توڑ پھوڑ کراکے کیجریوال اور ان کے حامیوں کو خوفزدہ کرنا ہے ۔ ان تمام حملوں کے باوجود اروند کیجریوال پوری مضبوطی کے ساتھ انتخابی میدان میں مودی کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں ۔ وارانسی میں مودی کے مقابلے میں اروند کیجریوال کے علاوہ کانگریس کے اجے رائے ، بی ایس پی کے وجئے کمار جیسوال اور سماج وادی پارٹی کے اجئے چورسیا انتخابی میدان میں ہیں ۔ مودی اور کیجریوال کو چھوڑ کر بقیہ امیدوار مقامی ہیں ۔ تقریباً سولہ لاکھ رائے دہندگان پر مشتمل اس پارلیمانی حلقہ میں تقریباً ڈھائی لاکھ مسلم رائے دہندگان ہیں ۔ مسلم ووٹر کی اتنی تعداد ہے کہ وہ الیکشن کا نقشہ بدل سکتے ہیں ۔ مودی وادی اروند کیجریوال سے خاصے پریشان ہیں ۔ اروند کیجریوال مسلسل وارانسی میں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں ۔ وہ جس طرح سے عوام سے مل رہے ہیں عوام ان کو جس طرح سے ہاتھ ں ہاتھ لے رہے ہیں اس سے مودی وادیوں کی نیندیں اڑگئی ہیں ۔ انھوں نے اروند کیجریوال کو روکنے کے لئے فسطائی طریقہ ، مار پیٹ کا اختیار کیا ہے ، اروند کیجریوال اگر سیکولر پارٹیوں کے مشترکہ امیدوار ہوتے تو یقیناً نریندر مودی کے لئے الیکشن جیتنا آسان نہیں ہوتا لیکن برا ہو سیاسی مصلحتوں کا کہ مودی کو ہرانے کا عزم رکھنے والی تمام سیکولر جماعتوں نے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کرکے سیکولر ووٹوں کو تتر بتر کردیا ہے ۔ کوئی سیکولر پارٹی مودی کو ہرانے کے لئے اپنے امیدوار کو ہٹانے پر آمادہ نہیں ہے ۔ سیکولر اور مسلم ووٹوں کی تقسیم ہی نریندر مودی کی اس حلقہ کی کامیابی کی ضامن ہے ۔ اگرچہ مسلمانوں کی اکثریت کا رجحان اروند کیجریوال کی طرف ہے اور وہ اروند کیجریوال کو موقع دینے کو تیار ہیں ۔ وارانسی میں ابھی تک اعلی ذات کے ہندوؤں کا بھی سیاسی دبدبہ رہا ہے سب سے زیادہ مرتبہ اس حلقہ سے اعلی ذات کے ہندو لیڈر ہی الیکشن جیتے ہیں اب کی مرتبہ نریندر مودی جو ذات کے تیلی برادری سے تعلق رکھتے ہیں وہ اگر الیکشن میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پہلی مرتبہ وارانسی سے کوئی ہندو پسماندہ برادری کا امیدوار کامیاب ہوگا ۔ یو پی کے انتخابات چاہے وہ لوک سبھا ہوں یا اسمبلی یا پنچایت ، میونسپل کارپوریشن کے ہوں الیکشن ذات برادریوں کے نام پر ہی لڑے جاتے ہیں اور ووٹ بھی اسی بنیاد پر ڈالے جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ نریندر مودی نے یو پی میں ذات برادری کے سیاسی کھیل پر کاری وار کیا ہے اور اس مرتبہ کے الیکشن میں ذات برادری کا سکہ کوئی بہت زیادہ چلتا ہوا نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔ الیکشن کے نتائج بتائیں گے کہ الیکشن پر ذات برادری کی سیاسی کتنی حاوی رہی ۔

اس مرتبہ کے الیکشن میں ریاست میں بہوجن سماج پارٹی پیچھے پیچھے نظر آئی ۔ بی ایس پی قائد مایاوتی کی ریالیوں میں جو زبردست بھیڑ آتی تھی اب کی وہ بھیڑ کسی بھی حلقہ میں دیکھنے میں نہیں آئی ۔ مایاوتی کا سوشیل انجینئرنگ کا فارمولہ بھی کارگر ہوتا نظر نہیں آیا ۔ مایاوتی کا دلت ووٹ بینک کا ایک حصہ بی جے پی کی طرف منتقل ہوتا ہوا دکھائی دیا ۔ مسلمانوں نے بھی مایاوتی بی ایس پی کے تئیں کسی جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ غرض یہ کہ پورے الیکشن میں مایاوتی اور ان کے ہاتھی کا وہ زور و شور کہیں دکھائی نہیں دیا جس کے لئے بی ایس پی جانی جاتی ہے ۔ اگرچہ بعض مسلم تنظیموں ، سیاسی علماء نے مایاوتی کی پارٹی کو ووٹ دینے کی اپیل بھی کی جس کا مسلمانوں نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا ۔ یہ عجیب بات رہی کہ بی جے پی نریندر مودی نے راہول گاندھی ، سونیا گاندھی ، کانگریس پارٹی ، سماج وادی پارٹی ، ملائم سنگھ یادو ، اکھلیش یادو کو تو اپنی تنقید کا ہدف بنایا لیکن انھوں نے بی ایس پی اور مایاوتی کے خلاف کچھ نہیں کہا جس سے سیاسی حلقوں میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں بھی شروع ہوگئیں ۔ اگرچہ مایاوتی نے اپنی تقاریر میں نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے خوب ’’سیاسی لتے‘‘ لئے لیکن اس کا بی جے پی کی جانب سے کوئی جواب نہ دینا بی ایس پی کے لئے ایک مسئلہ بن گیا ہے ۔