قوموں کی تاریخ میں کبھی کبھی ایسے موڑ آتے ہیں، جب دانشمندانہ عمل قوم کو عروج پر لے جاتا ہے اور ذرا سی لغزش قوم کو پریشانیوں میں اور زوال کے غار میں جھونک دیتی ہے۔ 2014 کا لوگ سبھا چنائو ہندوستان کی اقلیتوں اور با لخصوص مسلمانوں کی حالیہ تاریخ کا ایک ایساہی موڑ ہے کہ جب مسلمان ذرا سی عقلمندی سے اپنی قسمت خود سنوار سکتے ہیں اور اگر ان چنائو میں کہیں بھولے سے بھی لغزش ہو گئی تو محض نقصان ہی نہیں ہو گا بلکہ ہندوستانی مسلمان باقاعدہ غلامی کے غار میں پہنچ جائے گا۔ کیونکہ یہ چنائو مودی سیاست پر ایک ریفرنڈم ہے۔ عموماً ہر چنائو کسی نہ کسی ایشو کے ارد گرد ہو تا ہے، لیکن 2014 کے چنائو کا ایشو نریندرمودی کی شخصیت ہے۔ راقم الحروف پہلے بھی لکھتا رہا ہے کہ نریندر مودی کی شخصیت اور سیاست دونوں کے دواہم پہلو ہیں۔ اولاً مودی حکومت میں نہ صرف مسلمانوں کی نسل کشی جائز ہے بلکہ ان کی نسل کشی کے بعد حکومت کی جانب سے متاثرین کو کسی قسم کی بھی امداد و راحت کی بھی گنجائش نہیںہے۔ یعنی مودی راج میں اگر مسلمان ذراسا بھی سر اٹھا کر جینے کی جرأت کرتا ہے تو اس کاسر گجرات کی طرح کچل دیا جائے گا، اس کا قتل عام کر دیا جائے گا ۔ اس کو غلامی نہیں تو اور کیا کہا جا تا ہے! مودی راج کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مودی راج میں غریبوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہو گی ۔ مودی ماڈل میں امبانی، اڈانی اور ٹا ٹا جیسے سرمایہ دار پھلتے پھولتے ہیں اور غریب گجرات کی طرح اور غریب ہو جاتے ہیں۔
یہ ہے مودی ماڈل اور نریندر مودی۔ 2014 کے چنائو کا بنیادی ایشو مودی ہیں۔ مودی اگلے وزیر اعظم بنیں گے یا نہیں بنیں گے۔ یعنی 2014 کے چنائو کے بعد ہندوستان باقاعدہ ہندوراشٹر بنے گا یا نہیں بنے گا۔ ہندوراشٹر نظریہ میں یقین رکھنے والے سنگھ پریوار نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب ہندوستان کو باقاعدہ ہندوراشٹر بنا نے کا وقت آگیا ہے۔ اس لئے انہوں نے مودی کے ہاتھوں میں ہندوراشٹر کا پرچم دے کر مودی کو آگے کردیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ سنگھ نے ان چنائو میں مودی کو اپنا لیڈر مقرر کیا ہے، بلکہ سنگھ نے مودی کو وزیر اعظم بنانے کے لئے اپنی پوری قوت جھونک دی ہے۔ مودی کو وزیر اعظم بنانے کے لئے سنگھ محض کیمپین اور پیسہ ہی نہیں خرچ کر رہا ہے بلکہ وہ ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کر رہا ہے جس سے مودی وزیر اعظم بن سکیں۔
سنگھ کو اس بات کا پورا احساس ہے کہ مودی کو وزیر اعظم بننے سے روکنے کے لئے اگر کوئی اپنی پوری طاقت جھونک سکتا ہے تو وہ ہندوستانی مسلمان ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اگر مسلم ووٹ بینک متحدہ طورپر کسی پارٹی کے خلاف ووٹ ڈال دے تو وہ پارٹی اقتدار میں نہیں آسکتی ہے، کیونکہ لوک سبھا کی تقریباً250 سیٹوں پر کوئی بھی نمائندہ مسلم حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ مسلمان متحدہ طور پر ووٹ ڈالے جیسے کہ 2004 اور 2009 ء کے چنائو میں مسلمانوں نے ووٹ ڈال کر یو پی اے کو بر سر اقتدار پہنچادیا تھا۔چنانچہ 2014 کے چنائو میں سنگھ کا محض ایک سر درد ہے اور وہ ہے مسلم ووٹ بینک۔ اگر کہیں مسلمان اس چنائو میں بھی متحد ہو گیا تو پھر نریندر مودی وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔ یعنی سنگھ کا سب سے بڑا مسئلہ ہندوستانی مسلمان ہیں۔ اب اس مسئلہ کو حل کر نے کے لئے کیاکیا جائے! مسلمان مودی مخالفت میں متحد نہ ہو پائیں اس کی توڑ محض یہ ہو سکتی ہے کہ مسلم ووٹ بینک میں انتشار پیدا کر دیا جائے۔ اب یہ انتشار کیسے پیدا کیا جائے! کوئی مسلم پارٹی کھڑی کر دی جائے جو مسلمانوں کو جذبات میں بہاکر ان کاووٹ بانٹ دے! ایسا ہوا۔ لیکن مسلمانوں نے سید شہاب الدین سے لے کر ڈاکٹر ایوب تک کسی بھی مسلم قائد کے نام پر ووٹ نہیں ڈالا۔ بلکہ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں نے انتہائی عقلمندی سے ایسی حکمت عملی اپنائی جس سے سنگھ خود حیرت زدہ ہو گئی۔ اب مسلمانوں نے کسی ایک پارٹی کے پیچھے اپنی قوت جھونکنے کے بجائے ہر حلقہ میں کسی ایسے مضبوط نمائندے کو ووٹ ڈالنا شروع کیا، جو فرقہ پرست طاقتوں کو ہرا سکتا ہے۔ اس طرح صوبائی سطح پر مسلم ووٹ بینک کی قوت پر ملائم ، لالو، مایاوتی، ممتا بنرجی، چندر بابو نائیڈو جیسے درجنوں لیڈر اٹھ کھڑے ہوئے۔ سن 2004 سے پارلیمانی سطح پر کانگریس یو پی اے کے ساتھ مرکز میں اقتدار میں آگئی ۔
سنگھ کو 2014 میں پھر یہی خطرہ لاحق ہے کہ مسلمان متحد ہو کر اپنی پرانی حکمت عملی کا استعمال کر سکتے ہیں اور پھر اس چنائو میں تو مودی ہی انتخاب کے مرکز ہیں اس لئے مودی کی مخالفت میں تو مسلم ووٹ بینک اور متحد ہوسکتا ہے۔ اب کیا کیا جائے! کیوں نہ ایک ایسی پارٹی کھڑی کردی جائے جو صرف مودی مخالفت کا ڈنکا پیٹے اور مسلمان اس کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھیں۔ بس ایسی ہی پارٹی کا نام عام آدمی پارٹی ہے اور مودی مخالفت کا ڈنکا پیٹنے والے شخص کا نام اروند کجریوال ہے کیونکہ عام آدمی اور اس کے لیڈر اروند کجریوال کا 2014 ء چنائو میں بنیادی مقصد ہی مسلم ووٹ بینک میں انتشار پیدا کر کے مودی کا راستہ صاف کر نا ہے۔ یہ بات راقم الحروف ہوا میں نہیں کررہا ہے اروند کجریوال کا جنم ہی سنگھ کی کوکھ سے ہوا ہے۔ اروند کجریوال ہندوستانی سیاسی افق پر تقریباً دو برس قبل انا ہزارے کے کاندھوں پر سوار ہو کر نمودار ہوا۔ انا کی رام لیلا میدان میں لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوا۔ دن رات ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلایا گیا۔ جب انا شو ختم ہو گیا تو آر ایس ایس چیف نے اعلان کیا کہ رام لیلا میدان میں جو مجمع اکٹھا ہوا تھا وہ مجمع ہم نے ہی اکٹھا کیا تھا۔ کیا اروند کجریوال کوئی بچہ ہیں کہ ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ آر ایس ایس کی بھیڑ ہے۔ پھر اشوک سنگھل نے اعلان کیا کہ وشوا ہندو پریشد نے رام لیلا میدان میں 30,000 لوگوں کو روز کھانا کھلایا، کیا کجریوال کو خبر نہیں تھی کہ وہ کھانا کہاں سے آرہا ہے ؟ پھر ابھی چار روز قبل دہلی کی ایک ریلی میں اروند کجریوال نے کہا کہ اگر مودی نے گیس کے دام کم کردیئے تو وہ بی جے پی میں داخل ہو جائیں گے۔ پھر جب ٹی وی نے ان کا یہ بیان دکھا دیا تو وہ بولے! نہیں میں نے یہ نہیں کہاتھا۔
لب لباب یہ کہ اروند کجریوال کی مودی مخالفت محض ایک نوٹنکی ہے اور اس نوٹنکی کی پتلیوں کی باگ ڈور آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے۔ جیسا کہ ابھی عرض کیا کہ اس تماشے کا بنیادی مقصد ایک ایسا ڈھونگ کھڑا کرنا ہے جو مودی مخالفت کے نام پر مسلم ووٹ بینک میں انتشار پیدا کر دے۔ اکثر علاقوں اور بالخصوص دہلی ، لکھنؤ اور چند اور مقامات خصوصاًاتر پردیش (جہاں مسلم ووٹ بینک بہت اہمیت کا حامل ہے) سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ عام آدمی پارٹی مسلم ووٹ بینک میں انتشار پیدا کر رہی ہے۔ راقم نے اسی لئے شروع میں ہی عرض کیا تھا کہ 2014 کے لوک سبھا چنائو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے غلامی اور آزادی کے درمیان ایک انتہائی باریک لکیر ہے۔ اگر متحد ہو کر سیکولر قوتیں 2004 ء اور 2009 کی طرح اس بار پھر متحدہ ووٹ ڈال دیںتو اڈوانی کی طرح مودی کے بھی خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔ اگر کہیں عام آدمی پارٹی اور اروند کجریوال کی مودی مخالفت کے جھانسے میں آکر ووٹ بانٹنے کی لغزش ہو گئی تو بس پھر غلامی کا غار ہوگا اور ہندوستانی مسلمان ہوں گے! اس لئے اروند کجریوال اور عام آدمی پارٹی سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔