آخر 2014 کے پارلیمانی چناؤ کا بنیادی مسئلہ کیا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو اس چناؤ میں سب سے اہم ہوتا جارہا ہے ۔ ویسے تو ہر چناؤ اپنے مسائل لے کر آتا ہے لیکن عموماً ہر پارلیمانی چناؤ کا بنیادی مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگلا وزیراعظم کون بنے گا اور اقتدار کس سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں ہوگا ۔ کیونکہ ملک کا آئین ، ملک کی اصولی قدروں اور نظام کو طے کردیتا ہے اور جو بھی پارٹی برسراقتدار آتی ہے وہ انہی آئینی اصولوں کے تحت ملک کا نظام چلاتی ہے لیکن 2014 کا ہندوستانی پارلیمانی چناؤ کچھ اور ہی طرح کا چناؤ ہے ۔ یہ وہ چناؤ ہے جس میں ملک کا آئین اور ملک کی بنیاد صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ سماجی قدریں بھی زیر بحث ہیں ۔
اس نقطہ نگاہ سے 2014 کا پارلیمانی چناؤ ہر چناؤ سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ اس چناؤ کا بنیادی مسئلہ بھی کچھ جدا ہے ۔ دراصل اس چناؤ میں خود ہندوستانی آئین ہی بنیادی مسئلہ بن گیا ہے ۔ آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ خود آئین ایک مسئلہ بن جائے ۔ نہ تو کسی سیاسی پارٹی نے اس ایشو کا کھل کر اعلان کیا ہے اور نہ ہی کسی چناوی کیمپین میں اس کا ذکر ہورہا ہے ۔ ایک صرف کانگریس صدر سونیا گاندھی ہیں جنہوں نے پچھلے ہفتے کانگریس پارٹی کا منشور جاری کرتے وقت یہ بات اٹھائی تھی ۔ سونیا گاندھی نے پریس کانفرنس کے دوران بہت کھل کر کہا کہ ’’یہ الیکشن ملک کے آئینی ڈھانچے کے تحفظ کا ہے‘‘ ۔ انہوں نے اس پریس کانفرنس کے دوران آگاہ کیا کہ اس وقت ملک کے آئین ، جمہوری نظام اور سیکولرزم کا تحفظ سب سے اہم ہے‘‘ ۔
ظاہر ہے کہ سونیا گاندھی کو اس بات کا احساس ہے کہ نریندر مودی کی موجودگی نے اس پارلیمانی چناؤ کی نوعیت ہی بدل دی ہے ۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس چناؤ کا بنیادی ایشو اس ملک کا آئینی ڈھانچہ ہے ۔ 2014 میں ایک جانب ’’مودی ماڈل‘‘ ہے اور دوسری جانب کانگریس سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ہیں جو ’مودی ماڈل‘ کی مخالفت کررہی ہیں ۔ آخر یہ مودی ماڈل ہے کیا ؟ ۔ مودی ماڈل وہی ہے جو گجرات میں مودی کررہے ہیں ۔ مودی گجرات میں کیا کررہے ہیں ؟ دو اہم باتیں جو گجرات کو باقی ہندوستان سے جدا کرتی ہیں ۔ گجرات کا نام آتے ہی سب سے پہلی بات جو ہر ہندوستانی کے دماغ میں آتی ہے وہ 2002 کے گجرات دنگے ہیں ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ فرقہ وارانہ دنگوں سے بھری پڑی ہوئی ہے ، لیکن 2002 کے گجرات دنگے اپنی نوعیت کے بالکل جداگانہ دنگے تھے ۔ ان دنگوں میں گجرات پولیس کی آنکھوں کے سامنے محض مسلم نسل کشی ہی نہیں ہوئی بلکہ ان دنگوں میں مسلم عورتوں کی اجتماعی عصمت ریزی کرواکر دنگوں کا ایک حصہ بنادیا گیا ۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ گجرات دنگوں میں بطن مادر چیر کر اس میں پل رہے بچے کو قتل کردیا گیا ۔ دنگوں کے درمیان طرح طرح کی اذیتوں کی خبریں تو آتی رہتی ہیں ۔ گجرات دنگوں کی سب سے جداگانہ بات یہ تھی کہ دنگوں کے بعد مودی حکومت نے دنگوں سے متاثرین کے لئے نہ صرف کسی قسم کے ریلیف لگانے سے انکار کیا بلکہ مرکزی حکومت نے گجرات دنگا متاثرین کی امداد کے لئے جو رقم بھیجی اس کو مرکزی حکومت کو واپس کردیا ۔ یعنی گجرات میں پہلی بار مودی حکومت نے یہ اصول بنایا کہ اگر دنگوں میں مسلمان یا اقلیتیں ماری جاتی ہیں تو حکومت ان کی کوئی مدد نہیں کرے گی ۔ کیونکہ مودی کی رائے میں اقلیتیں کسی بھی قسم کے حق کی مستحق نہیں ہیں اس لئے حکومت کو ان کو کوئی بھی مدد نہیں دینی چاہئے ۔ یہ ہے مودی ماڈل کی پہلی سب سے اہم جدا بات جو گجرات کو پورے ہندوستان سے جدا کرتی ہے ۔ بالفاظ دیگر مودی ماڈل آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کا ایک خاکہ ہے جس میں سیکولرازم کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ بات ہندوستانی آئینی ڈھانچے سے مختلف ہے ۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا تھا ۔
دوسری اہم بات جو مودی ماڈل کو باقی ہندوستان سے جدا کرتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ مودی کے گجرات میں غریب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ گجرات میں اگر حکومت کسی کی مدد کرتی ہے تو وہ ہیں کارپوریٹ دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ دار ، جن میں امبانی ،اڈانی اور ٹاٹا جیسے صنعت کار شامل ہیں ۔ اگر ان صنعت کاروں کو کارخانہ لگانے کے لئے زمین چاہئے تو ہزاروں روپئے فی گز کی زمین مودی سرکاری ایک روپیہ مربع فی گز ان سرمایہ داروں کو دینے کو تیار ہیں ۔ اروند کجریوال نے اس بات کو اچھی طرح منظر عام پر لایا یعنی مودی ماڈل میں غریب کا کوئی مقام نہیں ہے ۔ اگر مودی حکومت بناتے ہیں تو یو پی اے حکومت نے منریگا جیسی غریبوں کے لئے جو اسکیمیں چلائی ہیں وہ سب ختم کردی جائیں گی ۔ امریکہ کی طرح مودی کے ہندوستان میں نہ تو کوئی سرکاری اسکول ہوگا اور نہ ہی کوئی سرکاری اسپتال ۔تب ہی تو مودی کے دس برسوں میں گجرات کے عام آدمی کا تعلیمی اور صحت کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے ۔ یعنی ہندوستانی جمہوریت محض کارپوریٹ ورلڈ کی غلام ہو کر رہ جائے گی ۔
الغرض 2014 کے چناؤ اس ملک کے آئینی ڈھانچے پر ایک ریفرنڈم ہیں ۔ آیا ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک رہے گا یا مودی ماڈل کے خطوط پر گجرات جیسا ایک ملک بن جائے گا جس میں اقلیتوں اور غریبوں کا کوئی مقام نہیں رہے گا ۔ اس بات کا احساس محض سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو ہے جنہوں نے کانگریس منشور جاری کرتے ہوئے انہی دو باتوں پر سب سے زیادہ زور دیا ۔ سونیا کے بقول : 2014 کے چناؤ محض پالیسیوں اور پروگرام کے چناؤ نہیں ہیں بلکہ ان چناؤ میں یہ بھی طے ہونا ہے کہ آیا ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ برقرار رہے گا یا نہیں ۔ اس چناؤ میں ہماری لڑائی ملک میں یکجہتی برقرار رکھنے کی ہے ۔ ان چناؤ میں ہم ایک ایسے ہندوستان کی بقا کے لئے جد وجہد کررہے ہیں جو سیکولر ہے اور جس میں ایک کو دوسرے کے خلاف لڑوایا نہ جائے ۔ اگر سونیا ملک کو سیکولر رکھنے کی لڑائی لڑرہی ہیں تو راہول گاندھی اس ملک میں غریبوں کے حصے کے لئے لڑرہے ہیں ۔ انکے بقول ’’ملک تب ہی ترقی کرسکتا ہے جب کہ ملک میں تجارت اور غریب دونوں کو ترقی کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ محض ایک کو (تجارت) دوسرے (غریب) پر فوقیت دینے سے ترقی نہیں ہوسکتی ہے‘‘۔
لب لباب یہ ہے کہ 2014 کے لوک سبھا چناؤ کے بعد محض ایک سرکار ہی نہیں بدلے گی بلکہ یہ چناؤ مودی ماڈل اور ملک کے آئینی ڈھانچے کے درمیان چناؤ ہے جس میں ایک جانب سنگھ کا ہندو راشٹر نظریہ ہے ، جس کی قیادت مودی کررہے ہیں اور دوسری جانب ملک کا آئینی سیکولر و جمہوری نظام ہے جس کی قیادت سونیا اور راہول کررہے ہیں ۔ اب ملک کو یہ طے کرنا ہے کہ اس کو کون سا نظریہ اور کیسی قیادت چاہئے ۔