عام آدمی کا خط وزیراعظم کے نام

میرا کالم مجتبیٰ حسین

محترم وزیراعظم صاحب!
ویسے تو میں ایک عام آدمی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے ملک کے خاص الخاص آدمی سے مخاطب ہونے کی جسارت کررہا ہوں اور یہ جسارت بھی محض اس خوش فہمی میں کررہا ہوں کہ آج ہی مجھے کسی نے بتایا کہ آپ نے از راہ کرم اس ملک کے سیاست دانوں، صنعت کاروں اور اعلیٰ عہدیداروں سے خواہش کی ہے کہ وہ اس ملک کے عام آدمی کے حالات کا جائزہ لیں اور انہیں (یعنی حالات کو) بہتر بنانے کی کوشش کریں تاکہ عام آدمی کی حالت بہتر ہوسکے کیونکہ جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے تب تک عام آدمی کی حالت بھی بہتر نہیں ہوسکتی۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آپ کو بالآخر اس ملک کے عام آدمی کی حالت اور اس کے حالات کا خیال آگیا کیونکہ عام آدمی تو صرف عام آدمی ہوتا ہے۔ اس کا کوئی نام نہیں ہوتا، اس کا کوئی عہدہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ جس کا عہدہ ہوتا ہے، وہ بعد میں خاص آدمی بن جاتا ہے۔ اس اعتبار سے اس کا کوئی خاص پیشہ بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو زندگی میں پیشے بدل بدل کر غربت کی سطح سے نیچے جاکر زندہ رہنے کا لمبا تجربہ رکھتا ہے اور

اس تجربہ سے کوئی فائدہ اٹھائے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے بلکہ اپنے تجربہ کو بھی یہیں چھوڑ جاتا ہے تاکہ اس کی غیرت اور خودداری پر کوئی حرف نہ آنے پائے۔ عام آدمی ایک ایسا بے نام و نشان فرد ہوتا ہے جس کا کوئی اتہ پتہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ بیشتر صورتوں میں اس کے پاس اپنا ذاتی مکان بھی نہیں ہوتا۔ یا تو برائے نام کرایہ کے مکانوں میں رہتا ہے، غیرمجاز جھگی جھونپڑیوں میں رہتا ہے یا پھر فٹ پاتھوں اور ریلوے پلیٹ فارموں پر پایا جاتا ہے ۔جس طرح کسی زمانہ میں ہمارے ملک میں خانہ بدوش قبائل رہا کرتے تھے، آج کا عام آدمی بھی بڑے بڑے شہروں کے جنگل میں نہایت منظم انداز میں اپنے گھر کو ہر دم اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے ۔ چونکہ عام آدمی محنت بہت زیادہ کرتا ہے، اس لئے وہ محنت کو ہی اپنا اصل گھر بھی تصور کرتا ہے۔ جیسے رکشا چلانے والا جب بہت تھک جاتا ہے تو رکشا میں ہی پڑ کر سوتا رہتا ہے۔ دیوار بنانے والا مزدور بھی جب تھک جاتا ہے تو اسی دیوار کے سائے میں سوجاتا ہے۔

گویا زمین کو اپنا بچھونا بنالیتا ہے اور آسمان کو چادر سمجھ کر اوڑھ لیتا ہے، وہ ہر دم جسم و جان کے رشتہ کو برقرار رکھنے اور سانس کے تسلسل کو جاری رکھنے میں کچھ اتنا مصروف اور منہمک رہتا ہے کہ اسے اپنی حالت اور حالات کو بہتر بنانے کی طرف دھیان دینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ ایک وقت کا کھانا اسے ملتا ہے تو وہ دوسرے وقت کے کھانے کی آس میں پھر سے محنت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہی اس کا سلسلۂ روز و شب ہے اور یہی اس کا مقصد ِ حیات بھی ہے۔ یہی وجہ کہ آزادی کے پیسنٹھ برسوں میں اس ملک کے سماج میں بہت کچھ بدلا لیکن عام آدمی بالکل نہیں بدلا۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارا عام آدمی اصل میں پتھر کا ایک مجسمہ ہے جو برسوں سے وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا عام آدمی جب فرداً فرداً محنت کرتا ہے تو جانفشانی کے سارے ریکارڈ توڑ دیتا ہے لیکن جب سارے عام آدمی مل کر ایک طبقے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں تو اجتماعی طور پر یہی عام آدمی پتھر کے مجسمہ میں تبدیل ہوجاتا ہے جو نہ تو آگے جاسکتا ہے اور نہ ہی پیچھے کی طرف کو جاسکتا ہے۔ اسی لئے وہ نہ تو غربت کی سطح سے مزید نیچے جاکر ہمیشہ کے لئے معدوم ہوجانے پر آمادہ ہوتا ہے اور نہ ہی غربت کی سطح سے اوپر اٹھ جانے کی سکت رکھتا ہے۔ ایک طبقہ کے طور پر وہ سچ مچ پتھر کا مجسمہ ہی ہے جو حالات کے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہوا ہے، اور اس کی اس حالت کے لئے وہ حالات ہی ذمہ دار ہیں جو اس کے اطراف یا تو پیدا ہوگئے ہیں یا پیدا کردیئے گئے ہیں۔ لکھ پتی، ارب پتی بن گئے۔ پارٹیاں بدلیں، عقیدے بدلے، اخلاقی اقدار بدلیں، مجرم سیاست دان بن گئے اور وقت ضرورت سیاست دان پھر مجرم بھی بن گئے۔ یہاں تک کہ دوسروں کی بیویوں کو اپنی بیویاں ظاہر کرکے دوسرے ملکوں میں اسمگل کرنے لگے۔ ڈاکوؤں، قاتلوں، ظالموں، اسمگلروں اور جابروں نے اپنے پیشے بدل لئے اور اقتدار کے گلیاروں تک پہنچ گئے لیکن عام آدمی نے اپنا پیشہ (جس کا دوسرا نام صرف محنت اور عزت کی کمائی ہے) نہیں بدلا۔ اس نے اپنی اقدار نہیں بیچیں ، اپنا ایمان نہیں بیچا، اپنی عزت اور خوددای نہیں بیچی، عقیدہ نہیں بیچا، یہاں تک کہ اپنا ضمیر تو کجا اپنا مافی الضمیر بھی نہیں بیچا۔ ایسے عام آدمی کی حالت بدلے تو کیسے بدلے۔ محترم وزیراعظم! میں ایک عام آدمی ہوں ، اسی لئے بہت چھوٹا آدمی بھی ہوں اور اپنے چھوٹے منہ سے بڑی بات کہنے کا اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھتا۔ تاہم میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو بالآخر عام آدمی کا خیال تو آیا ورنہ عام آدمی تو اس طرح زندہ رہتا ہے جیسے وہ آدمی ہی نہ ہو، کوئی اور مخلوق ہو۔ مجید امجد ایک شعر یاد آگیا:

جو ہم اِدھر سے گزرتے ہیں کون دیکھتا ہے
جو ہم اِدھر سے نہ گزریں گے کون دیکھے گا

آپ نے عام آدمی کا ذکر کرکے عام آدمی کی جو عزت افزائی کی ہے، اس پر ہمیں ایک پرانی بات یاد آگئی۔ چالیس برس پہلے ہمارے ایک ضرورت مند دوست نے ہم سے 100/- روپئے اچانک اُدھار مانگے تو ہم خوشی کے مارے اُچھل پڑے۔ بولے : ’’اگر میرے پاس 100/- روپئے ہوتے تو میں تمہیں 1,000/- بھی دے سکتا تھا لیکن میں مجبور ہوں تاہم میں تہہ دل سے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ تم نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میرے پاس 100/- روپئے بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے‘‘۔ اتنے بڑے ملک کے وزیراعظم کو عام آدمی کا اچانک خیال آجائے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے جیسے ملک کی ترقی کی اس دوڑ میں کسی موڑ پر ہمارے حکمرانوں نے ’’عام آدمی‘‘ کو اس طرح کھودیا ہے جیسے کسی میلے میں ماں باپ اپنے کمسن بچے کو کھودیتے ہیں۔ اور یوں ’’عام آدمی‘‘ کو اس ملک کے ناگفتہ بہہ حالات کے حوالے کچھ اس طرح کردیا گیا جیسے پرانے زمانے کے ایک بادشاہ نے اپنے کسی مصاحب کی بات سے خوش ہوکر اپنا سب سے پسندیدہ ہاتھی اسے تحفہ میں دے دیا تھا۔ بادشاہوں، حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے مصاحبوں کو ہم ’’مصاحب‘‘ نہیں بلکہ ’’مصائب‘‘ کہتے ہیں کیونکہ ایسے ہی خوشامدی مصاحب بڑے آدمی کے ’’مصائب‘‘ میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ بھرے دربار میں بادشاہ کی جانب سے ہاتھی کا تحفہ پاکر مصاحب خوش تو بہت ہوا لیکن جب اپنی جیب سے ہاتھی کے چارے کا انتظام کرنے کا معاملہ درپیش آیا تو ایک ہفتہ کے اندر اندر خود مصاحب اور اس کے ارکان خاندان کے بھوکوں مرنے کی نوبت آگئی۔ مرتا کیا نہ کرتا، اس نے بڑی خاموشی کے ساتھ ہاتھی کو بیچ کر اپنی جان بچائی مگر مصاحب کو یہ خدشہ بھی تھا کہ ایک دن بادشاہ کو اپنے محبوب ہاتھی کی یاد ضرور آئے گی (جیسے اب آپ کو اچانک عام آدمی کی یاد آگئی ہے)۔ چنانچہ ایک دن بادشاہ کو واقعی اپنے ہاتھی کی یاد آگئی اور اس نے اپنے ’’مصائب‘‘ سے ہاتھی کا حال چال پوچھ لیا۔ مصاحب بڑا زیرک تھا اور موقع کی تاک میں تھا۔ اس نے بھرے دربار میں بادشاہ سے دست بستہ عرض کیا: ’’ظل الٰہی! آپ کا ہاتھی بفضل تعالیٰ خیریت سے ہے اور اس وقت اتفاق سے میری جیب میں موجود ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے ایک چوہے کو نکالا اور اسے دربار میں چھوڑ دیا۔ چوہا جب بھاگنے لگا تو مصاحب نے کہا:’’عالی جاہ! یہ ہے تو آپ کا ہاتھی ہی لیکن مجھے غریب کے ہاں چونکہ اسے مناسب غذا نہ مل سکی تو سوکھ کر چوہے میں تبدیل ہوگیا ہے‘‘۔ درباری اس کی بات کو سن کر تالیاں بجانے لگے تو بادشاہ نے غصہ میں آکر دربار کو برخاست کردیا۔

محترم وزیراعظم صاحب! اس ملک میں عام آدمی کا حال بھی بادشاہ کے اس ہاتھی کا سا ہوگیا ہے جو اب چوہا بن چکا ہے۔ ناچیز کو اس بات کا علم ہے کہ ایک مایہ ناز ماہر معاشیات کی حیثیت سے آپ کو عام آدمی کی حالت اور حالات سے گہری دلچسپی ہے اور آپ عام آدمی کے سچے ہمدرد بھی ہیں۔ یہ بھی تسلیم کہ حکومت عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لئے کروڑوں بلکہ اربوں روپیوں کی اسکیمات تیار کرتی ہے لیکن جب ان اسکیمات کو روبہ عمل لانے کا مرحلہ آتا ہے تو سارے رہنما، تاجر، عہدیدار ، دلال، بچولئے، پیروکار، ٹھیکیدار اور کمیشن ایجنٹ وغیرہ مل کر ان اسکیمات کو قدم قدم پر لیموں کی طرح نچوڑ لیتے ہیں اور جب اس اسکیم کا عملی فائدہ عام آدمی تک پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک کروڑ روپئے کی اسکیم مندرجہ بالا مرحلہ وار تقسیم کے بعد عام آدمی تک پہنچتے پہنچتے ایک لاکھ روپیہ کی رہ گئی ہے۔ یعنی ہاتھی کے چوہے میں تبدیل ہوجانے والی بات صادق آتی ہے۔ چونکہ آپ بہت مصروف رہتے ہیں، اس لئے خط کی طوالت کو یہیں ختم کرتا ہوں۔ آپ کا پھر ایک بار دِلی شکریہ کہ آپ نے بالآخر عام آدمی کو یاد کیا۔ (ایک پرانی تحریر)