عام آدمی پارٹی قائدین کی شرمناک حرکتیں جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

وینا مکھرجی
عام آدمی پارٹی کے اندر سے جو بھی خامیاں ان دنوں ایک ایک کرکے باہر آرہی ہیں ، وہ ہندوستانی سیاست کو کوئی حیرت زدہ کرنے والی حرکتیں نہیں ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر اسی کی مکمل عکاسی کرتا ہے ۔ جھوٹ ، وعدہ خلافی دوہرا معیار اور دوہرے چہرے ، یہ سب باتیں ہندوستانی سیاست کی بہت اہم خوبیاں ہیں ۔ پھر بھی عام آدمی پارٹی کے اندر سے بھی یہی سب نکلنا ، لوگوں کو بہت گہرائی تک توڑ گیا ہے ۔ کیونکہ لوگ ’’عاپ‘‘ سے اس طرح کی امید نہیں کررہے تھے ۔ یہ امید آپ کے نوآموز قائدین نے ہی لوگوں کے دلوں میں بٹھادی تھی ۔لوگ اب اس پر اپنا حق سمجھنے لگے تھے اور ہاں اس سب سے مایوس صرف دلّی کے ہی لوگ نہیں ہیں ، کیونکہ انھوں نے ایک رائے دہندہ کے طور پر عاپ کو بھاری اکثریت سے جتایا تھا ۔

عام آدمی پارٹی کے اس طرح سے نکل کر آنے سے مایوسی پورے ملک کو ہوئی ہے کیونکہ تمام لیکن ، مگر کے باوجود بھی ملک کے عوام اور متبادل کی امید رکھنے والے دانشوروں نے بھی عام آدمی پارٹی سے تمام امیدیں وابستہ کررکھی تھیں ۔ لیکن محض چار مہینوں کے اقتدار میں ہی عام آدمی پارٹی نے آج ساری امیدوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے ۔ آج عام آدمی پارٹی میں مستقبل کی روشنی تلاش کررہے لوگ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں ۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو ’’عاپ‘‘ نے تاریخی غلطی کی ہے ۔ اس نے نہ صرف لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیرا ہے بلکہ مستقبل میں ایسے تمام متبادلات کو لے کر آنے والوں کو ابھی سے جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ ان کے ساتھ دغا بازی ہے کیونکہ اب لوگ ان پر یقین نہیں کریں گے ۔

ہندی کے مشہور کہانی کار سدرشن کی ایک کہانی ہے ’’ہار کی جیت‘‘ ۔ اس کہانی میں ایک ڈاکو کھڑک سنگھ بابا بھارتی سے اپاہج بن کر دھوکہ سے گھوڑا چھین لیتا ہے ۔ بابا بھارتی ڈاکو کھڑک سنگھ سے کہتے ہیں یہ بات کسی کو مت بتانا نہیں تو لوگ اپاہجوں پر بھروسہ کرنا چھوڑدیں گے ۔ کرپشن لوک پال ، جیسے بڑے بڑے جن جملوں کے ساتھ عاپ اقتدار میں آئی تھی ، کچھ مہینوں کے اندر ہی صاف ہوگیا ہے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح ہی عاپ کے لئے بھی یہ تمام باتیں محض جملوں سے زیادہ کچھ نہیں تھیں ۔ آج کی تاریخ میں دوبارہ انتخاب ہوجائے تو یقینی طور پر دلی میں عام آدمی پارٹی کو حکومت بنانے کے لئے خاطر خواہ اکثریت کسی بھی قیمت پر نہ ملے ۔

ہاں، یہ بات بھی ہے کہ بی جے پی کو بھی دلی میں سرکار بنانے کے لئے ضروری اکثریت نہیں مل سکتی۔ کیونکہ لوگوں نے اس کی بھی حقیقت دیکھ لی ہے ۔اس وقت دلی میں انتخابات ہوں تو معلق اسمبلی ہی ابھر کر سامنے آئے ، کیونکہ لوگوں کو کسی بھی پارٹی پر فی الوقت بھروسہ نہیں ہے کہ وہ اسے حکومت بنانے کے لئے مناسب سمجھیں ۔ اور یہ حالت عام آدمی پارٹی نے پیدا کی ہے ۔ چرچل کہتے تھے ناکام ایمانداری ، بے ایمانی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے عام لوگوں کو ایک طرح سے سیاست کے تئیں نفرت پیدا کردی ہے ۔ حال ہی میں عام آدمی پارٹی کا اٹھا ایک ایک قدم اسے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے ۔ پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کے لئے اکیلے میں میں فحش لفظوں کا استعمال کرنا اور پیش گوئی کے مطابق ہی انھیں پارٹی سے نکال باہر کرنا ۔ میڈیا کے ساتھ پہلے دن سے ہی تاناشاہی والا رویہ رکھنا تمام بدمزاجی دکھانے کے باوجود کمار وشواس کے ساتھ پارٹی کا بے شرمی سے کھڑا رہنا ۔ ایک کسان کواپنی ہی ریلی میں پھانسی لگانے سے نہ روک پانا ۔ وزیر قانون جتیندر تومر کی فرضی ڈگری معاملے میں لگاتار مرکز کو غلط ٹھہرانا ۔ سریندر سنگھ کی فرضی ڈگری کا معاملہ بھی سامنے آنا اور ایم ایل اے سومناتھ بھارتی کی اہلیہ کے خلاف گھریلو تشدد کے معاملے میں بھی وزیر کی حمایت کرنا ۔ ان تمام باتوں نے نہ صرف وزیراعلی کیجریوال کی شبیہ کو ہی خراب کیا ہے بلکہ ’’عاپ‘‘ کا مستقبل اور اس جیسے مسقبل کے دوسرے متبادلات کو بھی دھندلا کیا ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے لوک سبھا انتخابات میں پنجاب میں جس طرح کا مظاہرہ کیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ عاپ کا اگلا پڑاؤ پنجاب ہوسکتا ہے ، لیکن لگاتار تنازعات میں گھری عاپ کی اب شاید ہی پنجاب میں کوئی دال گلے ۔ جبکہ عام آدمی پارٹی یہاں اکالی دل کو اقتدار سے باہر کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھی ، لیکن دلی میں چل رہے تنازعات اسے ہر گزرتے وقت کے ساتھ پیچھے دھکیل رہے ہیں ۔ ایک کے بعد ایک ایسے معاملات کی مانو ہوڑ لگ گئی ہے ۔ جتیندر سنگھ تومر اور سریندر سنگھ کے فرضی ڈگری معاملے شاید ابھی کم تھے جو ایک بار پھر سومناتھ بھارتی کا مسئلہ سامنے آگیا ۔ دھیان رہے کہ کیجریوال کی 49 دن کی حکومت میں وزیر قانون رہے سومناتھ بھارتی پر تب بھی ایک متنازعہ معاملہ سامنے آیا تھا ۔

اس وقت ان پر کھڑی ایکسٹنشن میں غیر ملکی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام عائد ہوا تھا اور اب اپنی ہی بیوی پر کتے دوڑانے تک کے شرمناک معاملے سامنے آرہے ہیں ۔ سومناتھ بھارتی پر بیوی کو زد و کوب کرنے کا الزام ہے ۔ اہلیہ لتیکا بھارتی نے ان پر جسمانی اور نفسیاتی طور پر تکلیف پہنچانے ، گالی گلوج کرنے ، بچوں کے ساتھ بدسلوکی وغیرہ کا الزام لگایا ہے ۔ معاملہ دہلی خواتین کمیشن اور پولیس تک پہنچ گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ آنے والے دنوں میں ’’عاپ‘‘ کے لئے وہ نئے جتیندر سنگھ تومر ہوسکتے ہیں ۔ایک اور ایم ایل اے سریندر سنگھ پر بھی الزام ہے کہ انھوں نے اپنے حلفنامہ میں غلط اطلاعات فراہم کی ہے ۔ انھوں نے خود کو سکم یونیورسٹی سے گریجویشن ڈگری کا حامل بتایا ہے جبکہ مانا جارہا ہے کہ ان کی ڈگری فرضی ہے ۔ اس معاملے میں جتیندر سنگھ تومر سبقت لے جاچکے ہیں ۔ دلی کے سابق وزیر قانون جتیندر سنگھ تومر پر قانون اور گریجویشن کی فرضی ڈگری رکھنے کا الزام ہے ۔ انھیں گرفتار کرکے پولیس جانچ کررہی ہے ۔ تومر پر فرضی ڈگری ریاکٹ سے ملے ہونے کا بھی شک ہے ۔ اس طرح عام آدمی پارٹی کو اس کے قائدین کے کارناموں نے ہندوستانی سیاست کا نیا باب لکھ دیا ہے ۔