عام آدمی پارٹی اور مسلمان

ظفر آغا
دہلی کی طرح اس وقت پورے ہندوستان میں عام آدمی پارٹی کا چرچا ہے۔ پارٹی کے صدر اور دہلی کے نئے چیف منسٹر اروند کجریوال ہندوستان کے نئے مسیحا کے طورپر اُبھر رہے ہیں۔ جس کو دیکھو وہ اروند کجریوال کے گن گا رہا ہے۔ بقول شخصے ’’ہندوستان والوں کا مزاج چڑھتے سورج کی پوجا کرنا ہے‘‘۔ اس وقت اروند کجریوال ہندوستانی سیاست کا چڑھتا سورج ہیں، شاید اسی وجہ سے کجریوال اور ان کی پارٹی کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن اتنی کم مدت میں اس قدر شہرت حاصل کرنے اور عوام کی امیدوں کا مرکز بن جانے کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی سبب ضرور ہونا چاہئے؟۔ آخر کیا بات ہے کہ ہندوستانی شہروں میں رہنے والے افراد اروند کجریوال سے یکایک اپنی امیدیں وابستہ کربیٹھے؟۔ دہلی کے انتخابی نتائج اور پورے ملک میں عام آدمی پارٹی کی بڑھتی مقبولیت کے پیچھے کوئی نہ کوئی راز ضرور ہے، جس کی وجہ سے اس پارٹی کی مقبولیت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

حالیہ چار ریاستوں کے انتخابی نتائج سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ ہندوستانی عوام ملک کی روایتی سیاست اور سیاسی پارٹیوں سے دلبرداشتہ ہوچکے ہیں، وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے مطمئن نہیں ہیں، لہذا عوام اور بالخصوص نوجوان سیاسی نظام اور روایتی سیاسی جماعتوں کا متبادل ڈھونڈ رہے ہیں۔ کسی بھی جمہوری نظام میں عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ جب وہ کسی سیاسی جماعت سے ناامید ہو جائیں تو وہ اس کا متبادل تلاش کریں۔ اس وقت عام آدمی پارٹی ہندوستانی سیاسی جماعتوں کے متبادل کے طورپر اُبھری ہے، اسی وجہ سے ہندوستانی عوام کا ایک طبقہ عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کجریوال سے امیدیں وابستہ کربیٹھا، جس کی وجہ سے شہروں میں اس پارٹی کی لہر محسوس کی جا رہی ہے۔لیکن سیاسی فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے ساتھ ملک اور عوام کا مستقبل جُڑا ہوتا ہے، لہذا کسی پارٹی کو متبادل کے طورپر پروان چڑھانے سے قبل اپنے فیصلہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔

بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کو کسی بھی جماعت کو اہمیت دینے سے قبل بے حد سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ آیا یہ جماعت صحیح معنوں میں مسلمانوں کے لئے مفید ثابت ہوسکتی ہے؟۔ مثلاً اگر مسلمان عام آدمی پارٹی کو کانگریس کا متبادل سمجھتے ہیں تو ان کو پہلا سوال یہ کرنا ہوگا کہ سیکولرازم کے تعلق سے اس پارٹی کا موقف کیا ہوگا؟۔ کوئی پارٹی اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخالفت کر رہی ہے تو اس کو سیکولر جماعت نہیں کہا جاسکتا۔ آج تک ہندوتوا کے تعلق سے عام آدمی پارٹی کے صدر اروند کجریوال نے اپنا موقف واضح نہیں کیا۔ محض کانگریس اور بی جے پی کی مخالفت کے سبب وہ خود کو سیکولر نہیں کہہ سکتے، کیونکہ جب انا ہزارے رام لیلا میدان میں لوک پال بل کے لئے ہڑتال کر رہے تھے اور اروند کجریوال ان کا داہنا ہاتھ تھے تو اس وقت ان کی تحریک کو آر ایس ایس کی تائید حاصل تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ خود آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے یہ بیان دیا تھا کہ آر ایس ایس نے اس وقت انا اور کجریوال کی تحریک کے لئے لوگوں کو اکٹھا کیا تھا۔ پھر وشوا ہندو پریشد کے قائد اشوک سنگھل نے یہ بیان دیا تھا کہ ’’وی ایچ پی اِس وقت رام لیلا میدان میں ہزاروں افراد کے لئے کھانے پینے کا انتظام کر رہی ہے‘‘۔

اس لئے مسلمانوں کو اروند کجریوال کو متبادل سمجھنے سے قبل ان سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ ’’وہ آر ایس ایس اور ہندوتوا نظریہ کو ملک کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں یا نہیں؟‘‘۔ علاوہ ازیں ’’عام آدمی پارٹی اور اروند کجریوال کا موقف مسلم پرسنل لاء اور آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو ملنے والی مراعات کے تعلق سے کیا ہے؟‘‘۔ کیا عام آدمی پارٹی سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو تحفظات دینے کے لئے تیار ہے؟۔ اگر اروند کجریوال مسلمانوں کو تحفظ دینے کے لئے تیار ہیں تو وہ اس سلسلے میں کیا طریقۂ کار اپنائیں گے؟۔ کیا عام آدمی پارٹی کے پاس اقلیتوں کی معاشی، سماجی اور تعلیمی بہبود کے لئے کوئی ایجنڈا ہے؟۔ اگر یہ پارٹی مرکز میں اقتدار حاصل کرے گی تو سچر کمیٹی رپورٹ کے نفاذ کے لئے کیا اقدامات کرے گی؟ اور اس وقت مسلمان جس مسئلہ سے سب سے زیادہ پریشان ہیں، یعنی آئے دن مسلمانوں پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے الزامات کے سلسلے میں اِس نئی پارٹی کا موقف کیا ہوگا؟۔ علاوہ ازیں جن بچوں کو عدالتیں دہشت گردی کے الزامات سے بَری کردیتی ہیں، کیا یہ پارٹی اُن کی کوئی مدد کرے گی؟ اور کیا یہ پارٹی برسر اقتدار آنے کے بعد دہشت گردی معاملات کی پوری طرح چھان بین کرے گی؟۔
الغرض جمہوری نظام میں کوئی بھی شخص کسی پارٹی کو متبادل کے طورپر تسلیم کرسکتا ہے، کیونکہ جمہوریت کی کامیابی اسی بات پر منحصر ہے کہ ناکام ہونے والوں کو ہٹاکر اس کی جگہ کوئی متبادل تلاش کیا جائے، لیکن جس کو متبادل تصور کیا جا رہا ہے، کیا وہ واقعی اس لائق ہے؟ یہ بحث بھی لازمی ہے۔
ہندوستانی مسلمان قبل ازیں دو مرتبہ نئی متبادل جماعتوں کو آزما چکے ہیں، تاہم دونوں بار انھیں زخم کے سوا کچھ نہ ملا۔ 1977ء میں جب کانگریس پارٹی کو ناکام بنانے کے لئے مسلمانوں نے دوسروں کے ساتھ مل کر اپنی ساری قوت صرف کی تو جنتا پارٹی کے کندھے پر سوار ہوکر اس وقت کی جن سنگھ (یعنی موجودہ بھاریہ جنتا پارٹی) اقتدار تک پہنچ گئی اور اس طرح پہلی بار ہندوستانی سیاست میں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی کو اُبھرنے کا موقع مل گیا۔ اسی طرح 1989ء میں مسلمانوں نے وشوناتھ پرتاب سنگھ کی قیادت میں جنتادل کا ساتھ دیا، حالانکہ اس وقت جنتادل اور بی جے پی نے ایک ساتھ مل کر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ مسلمانوں کی حمایت سے جنتادل اقتدار تک تو پہنچ گئی، لیکن صرف گیارہ مہینوں کے بعد جنتادل اور وی پی سنگھ تاریخ کا حصہ بن گئے۔ پھر اس کے بعد بی جے پی کو اتنا عروج ملا کہ وہ اقتدار تک پہنچ گئی اور اس کے بعد اس نے بابری مسجد کو شہید کروادیا۔ بی جے پی حکومت میں گجرات میں مسلم نسل کشی کا واقعہ پیش آیا اور اب نریندر مودی ملک کا وزیر اعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔
اسی لئے عام آدمی پارٹی، اروند کجریوال یا کسی کو بھی متبادل تسلیم کرنے سے پہلے مذکورہ تمام سوالات کے جوابات ضرور حاصل کرلینا چاہئے۔ پھر اس کے بعد آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ہم نے صحیح متبادل کا انتخاب کیا ہے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وی پی سنگھ کے جنتادل کی طرح کچھ دِنوں کے لئے عام آدمی پارٹی اقتدار حاصل کرلے اور پھر اس کو پیچھے دھکیل کر نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بن جائیں۔ لہذا اس وقت عام آدمی پارٹی یا اروند کجریوال کے تعلق سے جوش کی بجائے ہوش میں فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔