عامر علی خاں کا دورۂ ریاض

کے این واصف
سعودی عرب میں پچھلے دو ڈھائی سال میں مقامی اور غیر ملکی باشندوں نے بہت سی حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ اس ہفتہ مملکت کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوئی، کار ریس اس کی ایک تازہ مثال ہے جو مملکت میں پہلی بار منعقد ہوئی ہے ۔ اس پروگرام میں شرکت کیلئے جہاں دنیا کے کئی ممالک سے ہزاروں مہمان آئے وہیں مملکت نے دنیا کے مختلف ممالک سے معروف صحافیوں کو بھی مدعو کیا تھا جن میں روزنامہ سیاست کے نیوز ایڈیٹر جناب عامر علی خاں بھی شامل تھے ۔ عامر صاحب کے دورۂ ریاض کی تفصیلات سے قبل اس کار ریس پروگرام پر مختصر طور پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں۔
مشرق وسطی کی سطح پر ریا ض میں منعقد ہونے والی الیکٹریکل گاڑیوں کی ریس (E-Formula) پچھلے ہفتہ کے روز اختتام پذیر ہوئی جو جمعرات کے روز شروع ہوئی تھی ۔ ریس میں پرتگال کے انتونیو فلیکس ڈی کوسٹا نے پہلی پوزیشن حاصل کی جبکہ دوسرے نمبر پر فرانس کے جان ایرک رہے اور تیسرے نمبر پر بلجیم کے جیروم رہے ۔ مملکت کی تاریخ میں پہلی بار منعقد ہونے والی ای فارمولہ ریس کو عالمی سطح پر غیر معمولی مقبولیت حاصل رہی ۔ دنیا بھر سے ذرائع ابلاغ نے ریس کو کور کیا جبکہ مختلف ممالک سے 80 ملین افراد نے ریس کو براہ راست دیکھا ۔ ریس کے اختتامی مرحلہ میں ولیعہد محمد بن سلمان کے ساتھ شائقین نے سلیفی بنوائی جبکہ ای فارمولہ ریس کے موقع پر Air Show بھی پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ دنیا کے مشہور پاپ سنگرز اور دیگر فنکاروں نے مہمانوں کی تفریح طبع کیلئے کلچرل شوز پیش کئے ۔ ریاض شہر کے مضافات میں ریس کے ٹراکس بنائے کئے تھے اور دیگر سارے پروگرامس کا بھی اسی علاقہ میں اہتمام کیا گیا تھا۔

ای فارمولا کار ریس کے مہمانوں کی مصروفیت ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ سینکڑوں کی تعداد میں دنیا بھر سے جنادریہ فیسٹول میں شرکت کیلئے مہمان ریاض پہنچ گئے ۔ ان میں ایک بڑی تعداد صحافیوں کی بھی تھی ۔ جنادریہ فیسٹول سعودی عرب کا سالانہ ثقافتی میلہ ہے جو حکومتی سطح پر بہت بڑے پیمانہ پر منعقد کیا جاتا ہے جس میں سعودی عرب کی ثقافتی جھلکیاں بہت عمدہ انداز میں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ میلہ پچھلے 32 سال سے پابندی کے ساتھ منعقد کیا جارہا ہے۔ یہ میلہ ہمیشہ ماہ فروری میں منعقد ہوتا تھا کیونکہ فروری میں ریاض کا موسم معتدل رہتا ہے مگر اس بار اس کا انعقاد ڈسمبر کے تیسرے ہفتہ میں عمل میں لایا جارہا ہے جبکہ شہر کا موسم بہت سرد ہے ۔ اس میلے میں سعودی عرب ہر سال کسی ایک ملک کو مہمانِ اعزازی کا درجہ دیتا ہے ۔ پچھلے سال ہندوستان اس میلے کا مہمان اعزازی تھا اور ہندوستان کا پویلین میلے کا مرکز نظر بنا ہوا تھا ۔ سب سے زیادہ اسی پویلین پر رش لگا رہتا تھا ۔ پچھلے اتوار کو وزیر نیشنل گارڈز پرنس خالد بن عبدالعزیز بن عیاف نے ایک پریس کانفرنس میں 33 ویں جنادریہ فیسٹول کی تفصیلات پیش کیں۔ اس پریس کانفرنس میں مقامی کے علاوہ دیگر ممالک سے آئے صحافیوں نے بھی شرکت کی ۔ پرنس خالد نے بتایا کہ تین ہفتے جاری رہنے والے اس میلے کا افتتاح جمعرات کو خادم حرمین شریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز کریں گے ۔ رنگا رنگ افتتاحی تقریب میں مملکت کے علاوہ بیرونی معززین کی ایک بڑی تعداد شرکت کرے گی اور حسب روایت تقریب کا افتتاح اونٹوں کی دوڑ سے ہوگا ۔ امسال دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والی ریاست انڈونیشیا اس فیسٹول کا مہمان اعزازی ہوگا ۔ اس میلے میں انڈونیشیا کے صدر علوی شہاب بھی شریک رہیں گے ۔ نیشنل گارڈز کی اہتمام کردہ اس پریس کانفرنس میں ہندوستانی صحافی بھی شامل تھے ۔

صحافیوں کا دیگر ممالک کو شخص طور پر جانا وہاں کی تقاریب میں شرکت اس کے بارے میں قریبی ذرائع سے معلومات کا حصول دونوں ملکوں کیلئے سود مند ہوتا ہے۔ دانشور ، صحافی یا عام پڑھے لکھے لوگ دنیا کے دیگر ممالک کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات ضرور رکھتے ہیں لیکن آدمی جب کسی ملک کے دورہ پر جاتا ہے تو اس کی معلومات میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے ۔ خصوصاً صحافی حضرات مقامی افراد سے مل کر ملکی حالات کا جائزہ اپنے راویہ نظر سے لے سکتے ہیں۔ اس کے بعد ا پنی تحریر یا رپورٹ کو جامع بناسکتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سن 2014 ء سے قبل جب کبھی ہندوستان کے کوئی سربراہ بیرونی ملک کے دورہ پر جاتے تھے تو ان کے وفد میں کچھ صحافی بھی شامل ہوا کرتے تھے۔ مگر اس سلسلے کو مودی حکومت نے ختم کردیا ۔ تلمیذ احمد (2000 ء سے 2003 ء ) سفیر ہند برائے سعودی عرب نے ہندوستان سے وقفہ وقفہ سے صحافیوں کے گروپ کو یہاں مدعو کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اسی طرح سعودی صحافیوں کے گروپس کو ہندوستان کے دورہ پر بھی روانہ کرتے تھے ۔ اس سلسلہ کے بہت مثبت نتائج سامنے آئے تھے ۔ صحافیوں کے ان دوروں سے نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید استحکام ملا تھا بلکہ سماجی ، معاشی ثقافتی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوا تھا ۔ مگر تلمیذ احمد کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا ۔ بہتر ہوگا اگر سفارت خانہ ریاض بلکہ خلیجی ممالک میں قائم دیگر ہندوستانی مشن اس طرح کے سلسلے کو دوبارہ شروع کریں تو خلیجی ممالک اور ہندوستان کے درمیان سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا۔ خصوصاً اب حکومتِ سعودی عرب یہاں بیرونی سرمایہ کاری پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس سلسلے میں کافی آسانیاں پیدا کر رہی ہے ۔ جناب عامر علی خاں نیوز ایڈیٹر سیاست پچھلے ہفتہ ریاض کے دورہ پر تھے ۔ یہ ان کا تیسرا دورۂ ریاض تھا ۔ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ میں بھی سعودی عرب کے مجموعی حالات کا جائزہ لیا ۔ اب وہ سیاست کی وساطت سے ہندوستانی صنعت کاروں کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے مواقع کے بارے میں آگہی فراہم کریں تو آج جو غیر ملکیوں کے تئیں حالات بنے ہوئے ہیں اس پر کافی فرق پڑے گا۔ عامر صاحب گو کہ یہاں ان کے میزبانوں کے بنائے ہوئے پروگرامس میں اتنے زیادہ مصروف رہے کہ وہ یہاں این آر آئیز کو خاطر خواہ وقت نہیں دے پائے ۔ بزم اردو ٹوسٹ ماسٹرز کلب ریاض ، عثمانیہ یونیورسٹی المنائی اسوسی ایشن اور ہندوستانی بزم اردو ریاض نے ان کے اعزاز میں ایک شا یان شان تہنیتی تقریب کا اہتمام کیا تھا ۔ مگر وہ اپنی مصروفیت کی بناء پر اس محفل میں شریک نہ ہوپائے۔ مگر قارئین سیاست ، سماجی تنظیموں کے اراکین جن میں تلنگانہ جرنلسٹ اسوسی ایشن ریاض ، آل انڈیا یونائٹیڈ سوسائٹی ، انڈین بزنس فورم وغیرہ کے ذمہ داروں نے رات دیر گئے ان کے ہوٹل پہنچ کر ان سے ملاقاتیں کیں اور انہیں یہاں کے حالات اور این آر آئیز کے مسائل سے واقف کروایا جس پر انہوں نے ا ین آر آئیز کے مسائل کی نمائندگی کا تیقن بھی دیا ۔ ویسے روزنامہ سیاست ملک کا ایک واحد اخبار ہے جو برسوں سے این آر آئیز کی اواز بنا ہوا ہے ۔ روزنامہ سیاست میں پچھلے 25 سال سے زائد عرصہ سے ہفتہ واری بنیاد پر ایک خصوصی کالم شائع ہوتا ہے جس میں تارکین وطن سے متعلق سعودی عرب کے قوانین ، این آر آئیز کے مسائل اور ان کی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔