عامر خان نے سچ ہی تو کہا

محمد ریاض احمد
امام الہند ابوالکلام آزاد اکثر کہا کرتے تھے کہ آپ وہی کیجئے جو آپ کا دل چاہے کیونکہ آپ کا اطمینان ہی آپ کی کامیابی ہے۔ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کے اس قول کو ایسا لگتا ہے کہ بالی ووڈ اداکار اور ممتاز سماجی جہد کار محمد عامر حسین خان (عامر خان) نے اپنی زندگی میں پوری طرح سمولیا ہے تب ہی تو وہ اپنی حق گوئی و بیباکی کے ذریعہ ہندوستانیوں کے سلگتے مسائل کو منظر عام پر لانے میں کوئی کسر نہیں رکھتے ۔ کبھی اپنی فلموں کے ذریعہ تو کبھی سماجی جد وجہد کے توسط سے عامر خان نہ صرف حکومتوں کو بلکہ ہر ہندوستانی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ اپنے ٹی وی پروگرام سیتہ میو جیتئے کے ذریعہ اس 50 سالہ اداکار نے وہ کردکھایا جو شاید ملک کے سینئر سیاستداں اور بیروکریٹس زندگی بھر کر نہیں پائے ۔ صحت عامہ ، تعلیم و تربیت ، ذات پات ، چھوت چھات ، اونچ نیچ کے امتیاز ، کرپشن ، بیروزگاری ، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی ، جہیز کی لعنت ، شادی بیاہ میں بیجا اسراف ، بچیوں کے مادر شکم میں ہی قتل ، کھلے عام رفع حاجت سے فارغ ہونے کی شرمناک عادت ، سگریٹ و تمباکو نوشی ، غربت ، بیماریوں ، ماں باپ کی محبت ، بھائی بہنوں کے پیار ، سماجی بہبود ، قانون کی کمزوریوں ، اس کے نقائص غرض ہر موضوع پر عامر نے ستیہ میو جیتئے میں کھل کر اظہار خیال کیا اور ہندوستان کی تاریخ میں سیتہ میو جیئتے واحد ٹی وی پروگرام رہا جس نے ہندوستانی معاشرہ میں شعور بیدار کیا ۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں مولانا ابوالکلام آزدا کا قول نقل کیا ہے ۔ مولانا آزاد کے پڑنواسے عامر خاں نے اس قول کو اپنی زندگی کا ایک حصہ بنالیاہے چنانچہ اپنی فلم تھری ایڈیٹس کے ذریعہ بھی انھوں نے طلبہ کو یہی پیام دیا ہے کہ اپنے دل کی سنو تب ہی کامیاب ہوگے ۔ عامر خاں کے ایک بیان کو لے کر آجکل ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہے  ۔

ہر ’’ایرہ غیرہ نتھو خیرہ‘‘ عامر خان پر تنقیدیں کرتے ہوئے میڈیا میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا ہے ۔ آخر عامر نے کیا برا کہا ہے ۔ انھوں نے وہی کہا ہے جو پنڈت جواہر لال نہرو کی بھانجی نتن تارا سہگل ، اروندھتی رائے اور ان جیسے ہزاروں دانشور ادباء ، سائنسداں  ،حقوق انسانی کے جہدکار اور سیاستداں کہہ رہے ہیں ۔ ان سب کا کہنا یہی ہے کہ جب سے مودی حکومت اقتدار پر فائز ہوئی ہے ملک کا امن و سکون تباہ و برباد ہوگیا ہے ۔ ہندوتوا کی نام نہاد قوم پرست فورسس جانوروں کے تحفظ کے نام پر انسانوں کو ذبح کررہی ہیں ۔ توہم پرستی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی آواز ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کی جارہی ہے ۔ پڑوسی ملک سے دوستی کے خواہاں افراد کے چہروں پر سیاہی پوتی جارہی ہے ۔ عیسائی راہباؤں کی عزتیں لوٹ کر گرجا گھروں کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کو پاکستان اور بنگلہ دیش جانے کیلئے کہا جارہا ہے ۔ دلتوں کو زندہ جلا کر اس شیطانی حرکت کو اپنی کامیابی سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ ہر فکر مند ہندوستانی کے خیال میں کچھ عرصہ سے جان بوجھ کر جنت نشان ہندوستان کی عظیم تہذیب رواداری کی شاندار روایات کو نقصان پہنچایا جارہا ہے ۔ ایسے میں کوئی آواز اٹھائے تو اسے ملک کا غدار قرار دیا جاتا ہے ۔ عامر خان نے بھی ایک فکر مند ہندوستانی کی حیثیت سے ملک میں جاری عدم رواداری کے سلسلہ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ ان کی بیوی کرن راؤ آجکل عدم رواداری کے رجحان سے کافی پریشان رہتی ہیں وہ اخبارات کھولنے سے ڈرتی ہیں انہیں اپنے بیٹے آزاد راؤ خان کے مستقبل کی فکر لگی رہتی ہے ۔ چنانچہ ایک موقع پر انھوں نے عامر سے کہہ دیا کہ ’’آیا ہمیں ملک چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہوجانا چاہئے‘‘ ۔

عامر نے اپنی بیوی کے اس خدشہ و خوف کو جب بنا کسی جھجک کے قوم کے سامنے لایا تو ایسا لگا کہ سارے ملک میں فسطائی طاقتوں پر ایک بہت مصیبت ٹوٹ پڑی ہے ۔ کسی فرقہ پرست طاقت نے ان ریمارکس کیلئے عامر کو تھپڑ رسید کرنے والے بہادر کو فی تھپڑ ایک لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا تو اسی جماعت کے ایک رکن پارلیمنٹ نے آگے بڑھ کر اس اداکار کو سانپ قرار دے کر خود کو شہرت دلائی ۔ بی جے پی ، شیوسینا ، وشوا ہندو پریشد ، بجرنگ دل ان تمام تنظیموں کے قائدین نے کوؤں کی کائیں کائیں کی طرح چیخ چیخ کر عامر کو ملک شمن غدار قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ افسوس کے فسطائیت کے اس ٹولے میں ایم جے اکبر جیسا صحافی بھی شامل ہوگیا ۔ انھوں نے عامر خان کو ہندوستانی رواداری پر بہت لیکچر دینے کی کوشش کی لیکن یہ بھول گئے کہ عامر نے جس دن ملک میں عدم رواداری کی لہر پر تشویش ظاہر کی تھی اس سے ایک دن قبل ہی آسام کے گورنر پدمنابھا بالاکرشنا اچاریہ (پی بی اچاریہ) ہندوستان کو صرف ہندوؤں کا ملک قرار دے کر مسلمانوں کو پاکستان  اور بنگلہ دیش جانے کا بھونڈا مشورہ دے رہے تھے ۔ ایم جے اکبر ، پی بی اچاریہ کو بتاتے کہ ہندوستان کسی کے باپ کا نہیں ہم سب کا ہے تب کوئی بات ہوتی ۔ عامر خان نے عدم رواداری کی جو بات کہی ہے پی بی اچاریہ اس کا بین ثبوت ہے ۔ گورنر کے باوقار عہدہ پر فائز شخص مسلمانوں کو پاکستان اور بنگلہ دیش جانے کا مشورہ دیتا ہے تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سنگھ پریوار کے دوسرے لوگ قوم پرستی کے نام پر کیا کیا گل کھلارہے ہوں گے ۔ ایم جے اکبر سے لیکر وزیراعظم نریندر مودی کو یہ سوچنا چاہئے کہ بحیثیت قوم کیا ہم عدم رواداری کی خطرناک لہر کو محسوس نہیں کررہے ہیں ۔ آج عدم رواداری بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے ۔ یہ لعنت ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ۔ اگر ہم ہندوستانی اسے فوراً ٹھکانے نہیں لگائیں گے تو یہ ہمیں ٹھکانے لگادے گی ۔ ملک کی خوشحالی و ترقی کے خوابوں کو چکنا چور کردے گی ۔ ملک میں عدم رواداری کا یہ حال ہے کہ خود وزارت داخلہ کے مطابق پچھلے چار ماہ یعنی 120 دن میں فرقہ وارانہ تشدد کے 330 واقعات پیش آئے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یومیہ اوسطاً  3 فسادات برپا ہورہے ہیں اور ہمارے وزیراعظم شری نریندر مودی جی بڑی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں نریندر مودی سے بڑھ کر روادار نہیں ہے ۔ گجرات میں مسلمانوںکا قتل عام ہوا فرقہ پرستوں کے ساتھ ان کی رواداری اور وفاداری کا یہ حال ہیکہ آج تک انھوں نے ان واقعات پر معذرت خواہی نہیں کی ۔ ہر سال وزیراعظم کی جانب سے رمضان المبارک میں دعوت افطار کا اہتمام کیا جاتا تھا، انھوں نے فرقہ پرستوں کے ساتھ غیر معمولی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستانی وزرائے اعظم کی اس عظیم روایات کو بھی ختم کردیا ۔ سنگھ پریوار کے چھوٹے بڑے قائدین نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف زہرا فشانی کا سلسلہ جاری رکھا  ۔انھوں نے ان کے ساتھ رواداری کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی زبان کو بند رکھا ۔ دادری میں محمد اخلاق کو ذبیحہ گاؤ کے نام پر ذبح کیا گیا اس وقت بھی ان کی رواداری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔ آج تک انھوں نے راست طور پر اس واقعہ کی مذمت نہیں کی ۔ اگر ملک کا وزیراعظم خود اس طرح فسطائیت کے ٹولے کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کرے تو پھر سنگھ پریوار سے اچھائی کی کیا امید کی جاسکتی ہے ۔

عامر خان کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ان کی فلمیں اور ٹی وی پروگرامس یہاں تک کہ ریمارکس ہندوستانی سماج کے لئے ایک مثبت پیام ہوتے ہیں۔ ان کی ہر بات برائیوں کے خلاف ایک محاذ کے مترادف ہوتی ہے۔ قدرت نے اس اداکار کو اداکاری کے شعبہ میں غیر معمولی کامیابیاں عطا کی ہیں ۔ عامر خان کی شخصیت انصاف پسند اور غیر جانبدار ہے۔ وہ کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کسی ایک ذات سے تعلق  رکھنے والوں کی تائید و حمایت نہیں کرتے بلکہ سارے ہندوستانی معاشرہ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔اس اداکار میں ایک باضمیر انسان اور گہری سوچ و فکر رکھنے والا دانشور اور دردمند دل رکھنے والا ایسا ہندوستانی بستا ہے جسے اپنے ملک میں فرقہ پرستوں کی جانب سے پیدا کردہ عدم رواداری کی لہر پر بہت تکلیف ہے۔ 18 یا 19 ماہ قبل عام انتخابات میں مودی کی زیر قیادت بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ہندوستان میں عدم رواداری کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا خود مودی حکومت میں کابینی رفقاء چند  بی جے پی ارکان پارلیمنٹ اور آر ایس ایس و بی جے پی کے علاوہ ان کی ذیلی تنظیموں وشواہ ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے قائدین نے سستی شہرت اور حقیر سیاسی مفادات کی تکمیل کی خاطر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف معاہدانہ مہم شروع کردی۔ کبھی لو جہاد کے نام پر بھولے بھالے ہندوؤں کو مسلمانوں سے ڈرانے کی کوشش کی گئی تو کبھی گھر واپسی کے نام پر غریب مسلمانوں اور عیسائیوں پر اپنا مذہب تبدیل کرتے ہوئے ہندو مذہب قبول کرنے پر زور ڈالا گیا۔ ذبیحہ گاؤ اور گائے کے گوشت کے استعمال پر مسلمانوں کو پاکستان جانے کے مشورے دیئے گئے۔ ملک میں بڑھتی غربت اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ  اہم ترین مسائل پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ ہاں انہیں مسلم گھرانوں میں بچوں کی پیدائش بری طرح کھٹکنے لگی۔
بہرحال ہم بات کررہے تھے عدم رواداری کے بڑھتے رجحان کی۔ مہاراشٹرا میں بطور خاص ہندوؤں کو توہم پرستی اور مذہبی ٹھیکہ داروں کے چنگل سے بچانے کے لئے آواز اٹھانے پر معقولیت پسند سماجی جہد کار نریندر دابھولکر اور کمیونسٹ قائد گوئند پنسارا کے علاوہ کرناٹک میں ایم ایم کلبرگی کو بیدردانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ انسانی حقوق کے جہدکاروں کا کہنا ہے کہ ان معقولیت پسند اور روشن خیال دانشوروں کے قتل ہندوتوا کے غنڈوں نے کئے ہیں۔ رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کے لئے ساری دنیا میں شہرت رکھنے والے ہمارے عظیم ملک ہندوستان میں بڑھتی عدم رواداری نے مختلف زبانوں کے شعرا، ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو بے چین کردیا اور پھر ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈس واپس کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا چنانچہ اب تک 500 سے زائد ادیبوں، شعراء، مصنفین، فنکاروں، اداکارو، فلمسازوں اور سائنسدانوں وغیرہ نے بطور احتجاج اپنے ایوارڈس واپس کردیئے ۔اس طرح سرکاری ایوارڈس واپس کرنے والی شخصیتوں کو زبردست تائید و حمایت حاصل ہو ئی ہے۔ شاہ رخ خان نے ملک میں عدم رواداری کے رجحان پر تشویش ظاہر کی تو انھیں بھی غدار قرار دیا گیا ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ شاہ رخ کے بعد عامر خان کا نمبر آیا ہے۔
بہرحال حکومت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ عدم رواداری پر خاموشی سے ہندتوا کو کامیابی نہیں ملنے والی بلکہ اس سے ملک کی شبیہ متاثر ہوگی جو کسی بھی محب وطن ہندوستانی کیلئے تکلیف دہ بات ہے  ۔
mriyaz2002@ yahoo.com