عالم عرب میں بے حسی کا ماحول

شہر میں اتنی جگہ اب کہیں ملتی نہیں
دفن ہونے کے لئے دو گز زمیں ملتی نہیں
عالم عرب میں بے حسی کا ماحول
عالم عرب میں نام نہاد مسلم قیادت نے اپنے شہریوں کی زندگیوں کو تباہی کے دہانے پر ڈال کر سارے یوروپ اور مغربی دنیا میں اسلام و مسلمانوں کو مذاق کا موضوع بنا دیا ہے۔ جن ملکوں نے پناہ گزینوں کے لئے اپنے سرحدیں کھول دی ہیں، انہوں نے مسلمانوں کو مذہب عیسائیت کے لئے مجبور کرنا شروع کردیا۔ پوپ فرانسیس نے بھی یوروپ سے کہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیں۔ مسلم ملکوں سے بڑے پیمانے پر فرار ہوکر یوروپ میں پناہ لینے والے ہزاروں مسلمانوں کا مستقبل اور مذہبی تشخص خطرے میں ہے تو اس کے لئے عالم عرب کی نام نہاد طاقتیں اور حکمراں ذمہ دار ہیں۔ شام، عراق، فلسطین ، ایران، افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں شہریوں نے یوروپی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دی ہیں۔ پناہ گزینوں کے اس سنگین بحران کی یکسوئی کے لئے کسی بھی خلیجی ملک نے اپنی فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ شام، عراق، مشرق وسطیٰ کے پڑوسی ملکوں اور خاص کر لبنان، اُردن، ترکی کے ساتھ ساتھ جرمنی، سویڈن اور دیگر یوروپی ملکوں نے ان ہزاروں عرب پناہ گزینوں کو جگہ دینے کی پہل کی لیکن تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ملکوں نے ایک بھی پناہ گزین کو جگہ نہیں دی۔ اس طرح کا رویہ عالم عرب کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے لئے صدمہ خیز ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تیل کی دولت سے مالامال ممالک اقوام متحدہ کو سالانہ کئی ملین ڈالر عطیہ دیتے ہیں تاکہ وہ عالمی پناہ گزین بحران سے نمٹ سکیں۔ اگر یہی عرب و خلیجی ممالک اپنے تباہ حال عرب باشندوں کے لئے امدادی کام کرتے ہوئے انہیں پناہ دینے کی پیشکش کریں تو ساری دنیا میں عالم عرب خاص کر عالم اسلام کی یوں صدمہ خیز رسوائی نہیں ہوتی۔ مسلم بہنوں اور بھائیوں کی مدد کرنے کے لئے خلیجی ملکوں کو جتنا پیش پیش ہونا چاہئے تھا ویسا ایک فیصد جذبہ بھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ عرب دنیا میں اس وقت جو قتل و غارت گری، بمباری، ہلاکتیں، سَر قلم کرنے، اذیت رسانی، وطن کو چھوڑ کر دیگر ملکوں میں پناہ لینے کیلئے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے واقعات عرب دنیا کا روز کا معمول بن گئے ہیں۔ ایسے حالات پیدا کرنے والی طاقتوں کی سرکوبی کے لئے بھی عالم عرب نے کوئی دانش مندانہ متحدہ مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ شام کی صورتِ حال کو ابتر بنانے والی طاقتوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ مغرب کی پالیسیوں نے تباہی لائی ہے تو اس کے اثرات سارے عالم عرب پر مرتب ہورہے ہیں۔ عراق اور شام کی صورتحال سے آج سارا عالم عرب دہل اٹھا ہے۔ پھر بھی خلیجی ممالک پر بے حسی چھائی ہوئی ہے۔ اگر ان کی کیفیت ایسی ہی رہی تو اس قتل و غارت گری، عدم سلامتی کی آگ ایک دن انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال نے سارے عالم عرب کو مفلوج کردیا ہے۔ عرب دنیا کے طاقتور حکمرانوں کی آمریت پسندی اور آہنی پنجہ سے تیار کردہ ذاتی مفادات کی پالیسیوں نے ساری عرب سرزمین کو سانحات سے دوچار کردیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس عرب دنیا کی تباہی کا الزام ان عرب حکمرانوں پر عائد ہوگا جو مغرب کی حمایت اور اسرائیل کی دوستی میں اپنے عرب باشندوں کو دیگر یوروپی ملکوں کے پناہ گزین بننے پر مجبور کررہے ہیں۔ عرب لیگ، تنظیم اسلامی کوآپریشن (OIC) اور دیگر عرب و اسلامی اداروں نے بھی ان پناہ گزینوں کے واقعات پر چشم پوشی اختیار کرلی ہے۔ یہ لوگ اور ادارے عرب پناہ گزینوں کے مسائل کی یکسوئی کیلئے کوئی مناسب حل نکالنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ اس لئے آج عالم عرب تباہ کن حالات کا شکار ہے۔ آنے والا کل ان ملکوں کے لئے مزید تباہی لائے گا جو طاقتیں اسرائیل اور مغرب کی سرپرستی میں عالم عرب یا عالم اسلام میں اسلامی لبادہ اوڑھ کر قتل و غارت گری ، بمباری، جنگ کے دہانے پر پہونچی ہے۔ ان کی سرکوبی کے لئے ضروری ہے کہ عالم عرب کا ہر باشندہ اُٹھ کھڑا ہو، اپنے وطن کو چھوڑ کر محفوظ مقام پر پناہ لینے کے بجائے اگر ان عربوں کی حمیت و غیرت کو جگایا جائے تو بہادر قوم ہونے کی تاریخی اہمیت کا احیاء ہونے میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ جو عرب باشندے اپنے ملکوں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں، ان کے سامنے ایسے حالات پیدا کردیئے گئے ہیں کہ وہ اپنے اور اہل و عیال کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کی فکر میں فرار ہورہے ہیں۔ ان فرار ہونے والے شہریوں میں وطن پرستی، اسلامی قربانیوں اور اسلام کی سربلندی کے لئے ماضی میں رونما ہوئے واقعات کی یاد دلانے کے علاوہ ان ملکوں کی ناپاک طاقتوں کو شکست دینے کا حوصلہ بخشنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام عرب دنیا کے ہی لوگ کرسکتے ہیں۔