عالم باوقار، طریقت شعار شیخ الحدیث شاہ محمد خواجہ شریف قادریؒ

حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
بانی شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد قلی قطب شاہ کی مقبول و مستجاب دُعا نے اس شہر کو عالمی سطح پر عزت و وقار کا تاج پہنا دیا ۔ صدہا اہل علم ، اہل کمال اور اہل وفا کے قافلے میں عالمان باوقار ، حاکمان ، وضعدار ، درویشان طرحدار، نوابان تاجدار ، ادیبان زرنگار شاعران روزگار ، قافلہ سالار ، رفیقان وفادار ، زاہدان شب زندہ دار طریقت شعار ، کے نفس گرم اور گفتگوئے نرم سے معطر رہا انہی پاکباز ہستیو ں میں ممتاز عالم و صوفی محدث و فقیہ حضرت مولانا شاہ محمد خواجہ شریف نظامی قادریؒ بھی تھے جو علم و فن حدیث نبویؐ کے حوالہ سے عالمی سطح پر صف اول کے مستند و قابل احترام علماء میں شمار کئے جاتے تھے ، علمی قد آوری ، دیدہ وری ، نام آوری اُن کے حصہ میں آئی تھی ۔ انہوں نے اپنے علمی اذکار اور تحقیقی اقدار سے صرف عجم کو ہی نہیں بلکہ عالم عرب اور جرمنی کے ایک بڑے طبقہ کو متاثر کیا ۔
مولانا خواجہ شریفؒ عہد آصفیہ کی دیڑھ سو سالہ قدیم اسلامی دانشگاہ کا روشن چہرہ اور علمی حوالہ تھے جو ہندوستان کی نیک نامی اور بلاشبہ علمی سفیر کہے جانے کے مستحق تھے ۔ علامہ نے ایک طرف علمی اداروں کی بنیاد رکھی تو دوسری طرف تحقیقی مراکز کو استحکام بخشا ۔ تیسری طرف روحانی و حقیقی خانقاہی نظام کا قبلہ صحیح کیا تو چوتھی طرف مروجہ غلط رسومات و بدعات کے خاتمہ کے ذریعہ اصلاح معاشرہ میں نہایت سرگرم کردار ادا کیا ۔ عمدہ المحدثین نے 15 شوال المکرم 1359ھ ریاست متحدہ آندھراپردیش کے ایک علمی خاندان میں آنکھ کھولی، تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوئے ۔ والد گرامی قدر کی رہنمائی میں ازہر ہند جامعہ نظامیہ میں اعلیٰ تعلیم کی منازل طئے کی اور یہاں سے اپنی علمی و عملی خدمات کا آغاز بھی کیا ۔ ابتداء مدرس اور پھر نائب شیخ الحدیث بنے ، بعد ازاں شیخ الحدیث کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے ، آخری سانس تک اسی عہدہ پر آپ کی گرانقدر علمی ، ادبی ، تحقیقی ، تدریسی خدمات کا تسلسل رہا تھا ۔ آپ کو علم حدیث ثریف کے علاوہ عربی ادب نثر و نظم پر یکساں عبور و دسترس حاصل تھا ۔ کئی کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں ۔ آپ کی حیات کا ورق ورق اشاعت علم بطور خاص حدیث نبویؐ کے تحفظ تدریس اور فروغ سے معمور رہا ۔ علم و فن حدیث نبویؐ اور عربی شعر و ادب کے حوالے سے عالمی سطح کے اداروں ، ادیبوں اور محدثین و علماء امت کی آپ سے ملاقاتیں اور روابط تھے ۔علماء ہند کی کثیر تعداد کے علاوہ آپ کی حدیث دانی و حدیث فہمی کے چرچے ہند مہا ساگر سے لیکر عرب مہاساگر تک ہیں ۔ المعہد الدینی العربی کو 1405ھ میں محض دس طلبہ سے ایک کرائے کی عمارت میں قائم فرمایا ۔ آج یہ ادارہ ہندوستان بھر میں اپنی تعلمی شناخت رکھتا ہے اور اس کا شمار ریاست کے ممتاز اداروں میں ہوتا ہے ۔ آپ نے مختلف مساجد میں حدیث و فقہ کے دروس کے ذریعہ بھی عامتہ المسلمین کی خدمت انجام دی ۔ مسجد سنگ پتلی باؤلی ، جامع مسجد قادریہ فرسٹ لانسر ، مسجد جعفری صنعت نگر اور مسجد چیونٹی شاہ عثمان پورہ میں آپ کے دروس حدیث وفقہ چالیس سال کے طویل عرصہ تک جاری رہے ۔ ملک اور بیرون ملک کویت ، قطر ، سعودی عرب ،جرمنی وغیرہ میں آپ کے بزبان عربی و اردو خطابات اور مقالات پیش کئے گئے ۔ علم حدیث شریف سے خاص والہانہ شفیف رہے ، جامعہ نظامیہ میں عرصہ دراز سے امھات الکتب بخاری ، ترمذی، ابن ماجہ ، ابو داؤد ، مؤطا ، نسائی شریف و دیگر کتب کا درس انتہائی فصاحت و بلاغت اور عمدہ اسلوب میں دیتے تھے ۔ درس ختم بخاری آپ کی پہچان بن گیا تھا ۔ آپ کے دروس کا انداز مختصر ، جامعہ و دل نشین ، اخلاقی مسائل میں نہایت معتدل و محقق و غیرجارحانہ تشفی بخش و دل پذیر ہوتا ہے ۔ انداز کلام کی حلاوت و شیرینی دلوں کو موہ لیتی ہے ۔ جماعت می حنفی طلبہ کے علاوہ شافعی طلبہ کی بھی بے حساب تعداد ہمیشہ شریک رہتی ،ہر ایک کے دلائل اور ان کے حدیثی مستدلات شرح و بسط کے ساتھ بیان فرماتے تھے ۔
فقہی مسائل میں مسلک حنفی کے وجوہ ترجیح اور ان کے حدیثی مستدلات و مراجع کا ذکر فرماتے تھے ،ہر باب سے پہلے اس پر بصیرت افروز تبصرہ اور حسب ضرورت رجال حدیث پر گفتگو ہوتی ہے ، رواۃ صحابہ کرام علیھم الرضوان کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ نسبت و تعلق میں ازدیادو اضافہ کا باعث ہوتا ۔ عمدۃ المحدثین نے کئی کتب کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے اور کئی کتب بھی تالیف کی ہیں ۔ مقدمہ ثروۃ القاری من انوار البخاری حصہ اول و حصہ دوم دراصل حضرت شیخ الحدیث ؒ کے افادات ہیں یہ کتاب 1420ھ کو جامعہ نظامیہ حیدرآباد سے شائع ہوئی ، محدث دکن حضرت سید عبداللہ شاہ نقشبندی مجددیؒ کے حسین حیات ہی زجاجۃ المصابیح کے اردو ترجمہ کا کام شروع کردیا گیا ، رفتہ رفتہ شیخ الحدیث مولانا محمد خواجہ شریف صاحبؒ اور دیگر علماء کرام نے ترجمہ کی ذمہ داری سنبھالی ، امام اعظم امام المحدثین یہ کتاب حضرت مولانا محمد خواجہ شریف ؒ کے رشحات قلم پر مشتمل اپنی نوعیت کی اہم ترین تصنیف ہے ۔ عربی ترجمہ ’’ الکلام المرفوع ‘‘ حضرت شیخ الحدیث نے حضرت شیخ الاسلام و المسلمین عارف بااللہ امام اہلسنت امام الحافظ محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ و الرضوان بانی جامعہ نظامیہ کی مدینہ منورہ میں تصنیف کی گئی ۔ کتاب جو اصول حدیث سے تعلق رکھتی ہے انتہائی فصیح و بلیغ عربی میں ترجمہ کیا ۔ عربی ترجمہ کے بعد اس کتاب کی عالم عرب میں بڑی پذیرائی ہوئی جس سے نہ صرف یہ کہ حضرت شیخ اسلامؒ کی محدثانہ عظمت ظاہر ہوئی بلکہ حضرت شیخ الحدیث کے عربی زبان و ادب پر کمال قدرت کا بھی اندازہ ہوا ( محدث ملت مرتبہ مولانا ڈاکٹر شاہ محمد فصیح الدین نظامی ) بزم طلبائے قدیم و محبان جامعہ نظامیہ جدہ سعودی عرب کے زیراہتمام حضرت عمدۃ المحدثین حضرت مولانا محمد خواجہ شریف کی پچاس سالہ خدمات پر محدث ملت کا خطاب بھی عطا کیا گیا تھا ۔ حضرت شیخ الحدیث کا یکم اگست 1966ء کو آپ کا جامعہ نظامیہ میں تقرر عمل میں آیا ۔ قبل ازیںآپ دارالعلوم مؤتمیر العلماء مغل گڈہ میں بحیثیت مہتمم خدمات انجام دے رہے تھے ۔ حضرت مولانا مفتی محمد عبدالحمید صاحب علیہ الرحمۃ سابق شیخ الجامعہ ،جامعہ نظامیہ نے آپ کو ترغیب دی کہ آپ جامعہ میں تقرر کیلئے درخواست دیں ۔ دارالعلوم اننت پور کے بانی بھی آپ ہی ہیں جو آج ایک ایکڑ اراضی پر کام کررہا ہے ۔ آپ نے 1961ء میں تین بچوں کے ذریعہ ایک درخت کے نیچے اس کو قائم کیا تھا ۔